• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میگا اسٹورز کی شکل میں ایک ہی چھت تلے زیادہ سے زیادہ ضروریات زندگی کی خریداری کا نجی شعبے میں عوامی رجحان تیزی سے بڑھا ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ خرید و فروخت میں مقابلے و مسابقت کی فضا پیدا ہوئی ہے اور معیاری اشیا کی مارکیٹ کے مقابلے میں کم نرخوں پر دستیابی سے عوام کی اکثریت ادھر کا رخ کرتی ہے حالانکہ یہ سلسلہ 1973ء میں حکومت پاکستان نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی شکل میں متعارف کرایا تھا، جس نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ابتدا میں اس کی 20برانچیں تھیں، آج یہ تعداد 5491ہے اور پھر بھی اس میں اضافے کی وسیع تر گنجائش پائی جاتی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن نے ان اسٹورز پر ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے دودھ اور گھی سمیت سینکڑوں اشیا کی قیمتیں بڑھا دی ہیں جس سے ایک طرف مڈل کلاس اور نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے عام طبقے کے مسائل میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف عوامی خریداری میں کمی واقع ہو گی، جس کا فائدہ نجی ادارے اٹھائیں گے اور چند ماہ قبل دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے والا یہ ادارہ پھر سے نقصان میں چلا جائے گا۔ جس کا اثر یہاں کام کرنے والے 14500سے زائد افراد کی ملازمتوں پر پڑ سکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس ادارے پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اسے ضائع نہیں جانا چاہئے۔ یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کی برانچیں ان دور دراز مقامات پر بھی موجود ہیں جہاں انتہائی غریب لوگوں کا انہی پر گزارا ہے۔ ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورز عوامی ضروریات کا نہ صرف سب سے بااعتماد ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض حالات میں یوٹیلیٹی اسٹورز مارکیٹ میں اشیا کی قلت یا ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں، یہاں بلیک مارکیٹنگ اور غیر معیاری اشیا کا کوئی تصور نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزارت پیداوار و صنعت نرخوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے اس ادارے کو انہی خطوط پر استوار کرے جن کی بنیاد پر اسے عوام کی سہولت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین