• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں تلخی تشویشناک انگار پن کے دائرے میں داخل ہو چکی ہے، برسر اقتدار گروہ آتش فشانی حالت پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا، اپوزیشن مستقلاً دفاعی پوزیشن پر اپنا بیانیہ پیش کر رہی ہے، حالات کا رخ ایسا ہے جس نے اس کے پاس دفاعی آپشن کے سوا کوئی دوسرا راستہ رہنے ہی نہیں دیا۔

پاکستان مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز کی وڈیو لیک پریس کانفرنس سے لے کر ریکوڈک کے مسئلے پر پاکستان کے خلاف فیصلے تک، ریکوڈک کے فیصلے سے پہلے ایک اور پاکستان مخالف عالمی فیصلے کا جرمانہ (غالباً 311ارب ڈالر) اس میں شامل کر لیں، پاکستان کو مشکلات کی خندقوں میں دھکیل چکا ہے، برسر اقتدار گروہ اس قسم کے قومی واقعات پر بھی ایک لاپروا چہرے کے ساتھ اجاگر ہو رہا ہے، ایسا لگتا ہے اُسے ’’فلسفہ جسمانی‘‘ کا اصل راز سمجھ آ گیا ہے۔

فلسفہ جسمانی کا راز یہ ہے، جب تک کوئی مصیبت آپ کی ذات پر وارد نہیں ہوتی، آپ پر خود کوئی دکھ بیت نہیں رہا ہوتا، آپ کسی زخم یا تکلیف سے بے حال نہیں ہوتے اُس وقت تک آپ ایک اعلیٰ درجے کے ’’حساس مفکر‘‘ ہوتے ہیں جو اطمینان کے ساتھ مسائل کے حل اور طریقہ کار پر گفتگو کرتا، اس لئے کہ آپ کی اپنی ذات یا کنبہ اس مصیبت، دکھ، زخم سے کہیں دور تک بھی دو چار نہیں ہوا ہوتا۔

یہ کائناتی زندگی کے سارے نقشے کا ’’ابدی راز‘‘ ہے چنانچہ آپ پوری انسانی تاریخ دیکھ لیں جب تک اپنے آپ پر نہیں پڑتی۔ اس وقت تک متعلقہ افراد ’’حساس مفکر‘‘ کا عیاشیانہ کردار ہی ادا کرتے رہے، ماسوا ان کے جو اللہ کے خالص بندے تھے۔ اللہ کے لئے ہی جئے اور اللہ کے لئے ہی مرے۔ اب عملی مثال کی طرف آتے ہیں۔

پاکستان کو بین الاقوامی عدالت نے ریکوڈک سمیت مزید ایک اور مقدمے میں بھاری جرمانے عائد کئے ہیں۔ یہ عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف کوئی بھی حکمران ہو، اسے اپنی جیب سے ادا نہیں کرنے، بہترین موسمی حالات کے مطابق کسی شاہانہ کمرے میں بیٹھے اس پر صرف غور کرنا ہے، یہ اطمینان ہی کافی ہے کہ اس معاملے میں ’’مجھے‘‘ اپنے گھر بارے ایک اینٹ کا نقصان پہنچنے کا کوئی تصور تک موجود نہیں، زندگی کے تمام معاملات خواہ وہ ریاستی ہوں یا ذاتی عملاً ایسا ہی ہے۔

شریف خاندان، رانا ثناء اللہ اور خواجہ برادران پر جو بپتا پڑی ہوئی ہے وہ ان پر ہی ہے، صحافتی حمایت، احتجاجی جلوس، قرار دادیں، پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں انصاف کی دہائیاں، یہ سب اپنی جگہ درست اور موثر ہیں مگر مصیبت کے جو ذہنی اور جسمانی عذاب ہیں ان کا ان سرگرمیوں کے کرداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، وہ محسوس کریں گے لیکن ’’جسمانی عذاب‘‘ کے تکلیف دہ ترین مراحل سے باہر البتہ وہ لوگ جو کسی دوست یا کسی جماعت کے رہنما کی خاطر پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور جیلوں میں جا کر بے حال ہوں وہ ایک سطح پر اس ’’جسمانی و ذہنی عذاب‘‘ کے حصہ دار بن جاتے ہیں جس کی یا جن کی خاطر اس نے اس حد تک خطرات مول لئے ہوں، باقی سب کہانیاں ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہے، جن ادوار میں انسانوں کی اکثریت سکھی رہی یا جن ممالک میں آج بھی انسان سکھی ہیں، ان سارے ممالک یا لوگوں کو آپ خوش نصیب ترین ڈکلیئر کر سکتے ہیں۔ بہرحال خوش نصیبی دنیا کا بہت ہی کم تناسب ہے۔

دنیا جب سے حکمرانی کے اصولی دور میں داخل ہوئی اس میں اس استثناء کو چھوڑ کر، جس کا ابھی تذکرہ ہوا، زندگی میں طاقت ہی کو فیصلہ کن تاریخ کا مقام حاصل رہا، اب بھی ایسا ہی ہے، جو طاقتور ہے اس کا مہینہ 20دن کا ہے، جو کمزور ہے اس کا مہینہ اتنے دنوں پر مشتمل ہے جتنے دنوں کا وہ طاقتور مقرر کر دے۔ آپ عمران حکومت کو لے لیں، ملک میں ریاستی اہلکاروں کا عوام کے ساتھ کیا سلوک ہے اس میں اصل سچ وہ عوام ہیں جن کا ان اہلکاروں سے واسطہ پڑتا ہے خواہ وہ پولیس ہو یا دوسرے محکمے برسراقتدار گروہ چونکہ اقتدار کے رہنے تک ان اہلکاروں کی دستبرد سے محفوظ ہے، اس لئے اس کی تقاریر میں حب الوطنی، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور پتا نہیں کس کس عظمت رفتہ کی واپسی کا سانگ کورس جاری ہے، جونہی سحر کے بحائے واقعات نے شام یا اندھیرے کی شکل اختیار کر لی، سارا جسمانی و ذہنی ماحول شکایتوں اور چیخ و پکار کی کرلاہٹوں اور ہکلاہٹوں میں ڈھل جائے گا۔

یہ جو ہم لکھنے والے لکھاری، بولنے والے دانشور، علمائے حق بااختیار گروہوں کو نصاح اور ہدایت کرتے رہتے ہیں یہ دراصل ’’انسانی فرض‘‘ ہے جس کی ادائیگی کا حکم ہے، طاقتور کی خودسری بہرحال اپنی جگہ نہیں بدلتی جب تک قدرت اسے اکھاڑ کے پھینک نہ دے۔

آج پاکستان میں اگر قلمکار سیاستدانوں کے لئے ’’چھترول‘‘ کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں، آج اگر پاکستان میں عمران حکومت کے بڑے سیاسی مخالفین میڈیا ٹرائل کی ناقابل اعتماد روایات اور مبالغہ آرائیوں کا شکار ہیں، آج اگر جیلوں میں بے گناہ یا گناہگار قیدیوں کو قانون کے خلاف ناقابل تصور اذیتوں کا سامنا ہے، آج اگر پرائیویٹ اسکولوں کے کرتا دھرتا تعلیم کے نام پر اندھی دولت کما رہے ہیں، آج اگر پردے کے پیچھے والے طاقتور، وسائل اور اختیارات کی شہ زور ’’جسمانی پوزیشن‘‘ کی بنیادوں پر پاکستان کے آئین یا سماج کو چیلنج کرنے کی شغل کاریوں میں مصروف ہیں، آج اگر ہمارے نظام عدل کے نشیب و فراز میں مظلوموں کی تعداد اور خواری کا کوئی حساب نہیں تو یہ سب نیا نہیں، روسی زبان میں کہتے ہیں، ننکو! دنیا ہمیشہ سے ایسی ہے ہی! (استثناء اپنی جگہ! آٹے میں نمک کے برابر)۔

آج شاہد خاقان عباسی گرفتار ہیں، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ریکوڈک کا معاملہ نپٹا کر گھر بیٹھے ہیں، مریم نواز ممکنہ شواہد کے بادلوں میں گھری ہوئی ہیں، ادھر نعیم الحق، شیخ رشید، شفقت محمود اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے قابل فخر ’’اسلاف‘‘ ہمیں اپنی زیارت کرا رہے ہوں، لہٰذا، دنیا ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔ آٹے میں نمک کے برابر استثناء کو نکال کر۔‘‘

کاش! پاکستان میں کبھی کوئی ایسا دور آ چکتا جب ہم سب مل کر ایک میز پر بیٹھتے، ’’در گزر کرو اور بھول جائو‘‘ کی عظیم راہ پر چل کر، پاکستان پر آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوریت تسلسل‘‘ کی عبقری فیض رسانیوں کی بارش ہو رہی ہوتی، کاش! مگر طاقتور کا ’’مہینہ‘‘ آج بھی 20دن کا ہے، یہ اس نے فیصلہ کرنا ہے، قوم کا مہینہ 30دن کا ہونے دینا ہے یا نہیں؟

تازہ ترین