• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ صرف ایک کالم کسی بہت بڑی کروڑوں اربوں خرچ کر کے بنائی گئی سیاسی اسکیم کی ایسی گت بنا دے گا کہ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے لوگ دربدر ہی ہو جائیں گے۔ وہ کالم پچھلے ہفتہ کے شروع میں ”ڈاکٹر طاہر سے مسز طاہر تک“ کے عنوان سے چھپا تھا بعد میں معلوم ہوا کہ کیا پلان تھا اور عاصمہ جہانگیر کو کس طرح استعمال کرنے کی تیاری تھی، نواز شریف کو کیا ستو پلا کر ان کی تائید حاصل کی گئی اور کون کون کس طرح مورچے پکڑ کر تیار بیٹھا تھا کہ جیسے ہی ہری جھنڈی ہلائی جائے کام شروع ہو جائے۔ جس دن کالم چھپا اسی شام ایک صاحب نے TV پر اعلان کرنا تھا کہ کون وزیراعظم بن رہا ہے یا رہی ہے۔ ایک اخبار نے تو عاصمہ کا پورا انٹرویو بھی کر لیا تھا اور انہوں نے عہدہ قبول بھی کر لیا تھا وہ انٹرویو صفحہ اول پر تو نہ چھپ سکا مگر پیچھے کہیں ضرور چھپا کیونکہ چند گھنٹوں میں عاصمہ کے نام کی اتنی مخالفت ہوئی کہ نہTV پر اعلان ہوا نہ وہ دھوم دھڑکا۔ حکومت والے تو ایوان صدر میں سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ عاصمہ نے نام کے اعلان کے ساتھ ہی اور چند لوگوں نے جن کی رسی کسی سمندر کے ساحل سے بندھی ہوئی ہے، عدالت عظمیٰ پر پورا فائر کھولنا تھا خود عاصمہ بھی اس کا اشارہ دے چکیں تھیں۔ ان لوگوں میں وہ لوگ شامل ہیں جن کی ڈیوٹی یہ لگی کہ وہ TV اور میڈیا پر ایک ادھم مچا دیں گے۔ عدلیہ کے خلاف کچھ بڑے وکیل ”دھرتی ہوگی ماں کے جیسی“ تقریریں کرنے کے بجائے چند ججوں سے بدلے چکانا شروع کریں گے۔ کچھ NGO کے حضرات رپورٹیں جاری کریں گے اور عدلیہ پر فقرے کسیں گے یعنی ایک جنگ ہوگی اور پھر کہا جائے گا کہ اگر دوسرا کاکڑ فارمولا لگایا جائے گا تو MINUS-1 کے ساتھ MINUS-2 بھی ضروری ہوگا یعنی اگر صدر صاحب کو فارغ کیا جائے گا تو افتخار چوہدری صاحب کو بھی پھر گھر بھیجا جائے گا مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے… کہ ملک کا ہر بڑا لیڈر لندن میں بیٹھا NRO-2 کرنے یا کرانے کی کوشش میں ہے۔ NRO-2 کیا ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلےNRO میں جنرل مشرف نے بینظیر کو معاف کر دیا تھا اور ملک آنے کی اجازت دی تھی مگر الیکشن میں شمولیت پر پابندی تھی ان کے تمام کیس واپس ہوگئے تھے۔ دوسرا NRO یہ ہے کہ کوئی کیس نہیں کھولا جائے گا حالانکہ 5سال میں جس بے دردی سے لوٹ مار ہوئی ہے اس کی مثال تو شاید محمود غزنوی کے17حملوں سے نہ ملائی جا سکے۔ غزنوی صاحب تو آتے تھے اور جو جمع پونجی ہوتی تھی وہ لے جاتے تھے یہاں تو ہر مندر اور مسجد، ہر اڈّے پر قبضہ کر لیا گیا یعنی اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، اوگرا، پھوگرا، ہر جگہ ایک محمود غزنوی کو بٹھا دیاگیا اور زمینوں اور مال پر ایسا قبضہ شروع ہوا کہ ملک کھوکھلا ہوگیا، لوگ بوکھلا کر چیخ پڑے، بلبلا اٹھے اور اب یہ مال بچانے کا وقت ہے ورنہ دھمکی یہ ہے کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ عاصمہ جیسے لوگوں کو آگے لا کر ان سے اعلان جنگ کروا کر دیکھ لیں گے۔ NRO-2 کر لو ورنہ نہ ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ کرائے کے ٹٹو جمع کر لئے گئے ہیں۔ جمہوریت کے ایسے مامے چاچے پیدا ہو گئے ہیں جن کے پیٹ میں کبھی اس قسم کے مروڑ نہیں اٹھے تھے۔ ایک ایڈمرل صاحب تو باقاعدہ سیاسی تقریر کرنے کھڑے ہوگئے عدالت عظمیٰ کے سامنے کیمرے دیکھ کر اور رائے ونڈ والوں کی وہ خوشامد کی کہ وہ بھی شرما گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ رائے ونڈ کے غبارے سے ایک آخری سانسیں لیتی حکومت نے 24گھنٹے میں ساری ہوا نکال دی جب ایک علامہ کے دھرنے کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور 30دن کا ایک پل صراط کا سفر مان لیا تاکہ ہر امیدوار کی اچھی بھلی بھل صفائی ہو جائے۔ ان چاچوں میں کچھ تو Socalled لکھاری بھی شامل ہوگئے جنہوں نے5سال خوب جمہوریت کے مزے اڑائے اور بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھائیں۔ ادھر عاصمہ کو لانے کا پلان فیل ہوا تو سارے منصوبے ناکام ہوگئے کہنے والے کہتے ہیں جتنی کور کمیٹی یا کروڑ کمیٹی کی میٹنگیں ہوئیں ان میں کرتا دھرتا بالکل آف موڈ تھے۔ کسی کا نام تجویز نہیں ہوا بس لوگوں کی خوشامدی باتیں سنی گئیں اور آخر جب کچھ اتحادیوں نے پوچھا کہ اندر کی بات بتائی جائے تو سب کو یہ کہہ کر ٹال گئے کہ لندن جا رہا ہوں، واپسی پر بات ہوگی۔ اب لندن میں ذرا سوچیئے کیا ہو رہا ہے یا کیا ہو سکتا ہے۔ صدر صاحب اور جنرل کیانی اور ISI کے جنرل صاحب تو کسی افغانستان کی کانفرنس کے لئے گئے مگر پھر رحمن ملک اور الطاف بھائی کے سارے لیڈر پوری رابطہ کمیٹی، کچھ درمیان کے لوگ اور پھر خود برطانوی ماہر جیسے مارک گرانٹ کی طرح کے مذاکرات کار سب کئی دن وہاں رہیں گے۔ عدالتوں نے بھی سارے فیصلے ان کی واپسی تک موخر کر دیئے۔ نواز شریف بھی سیاسی مشن پر جدہ روانہ ہوگئے اور وہ بھی کئی دن کیلئے تاکہ اگر کوئی ڈیل ہونی ہے تو سعودی کرم فرما بھی باخبر رہیں۔ ملک کی صورتحال دیکھیں اور ان سارے لوگوں کی لندن اور جدہ میں مصروفیات، چھوٹے موٹے چور تو اب بھاگ ہی رہے ہیں اب بڑے ناموں کے فرار کا وقت ہے اور NRO-2 اسی لئے ہے اگر فیصلے ہوگئے تو سارے کام بڑے سکون سے مکمل ہوں گے یعنی انتخاب، انتقال اقتدار اور چوروں کا فرار۔ اگر گڑبڑ ہو گئی تو پھر ملک میں ایک حشر ہوگا ہر ادارہ دوسرے ادارے کی ماں اور بہن کی شان میں گستاخی کرتا نظر آئے گا اور بابر اعوان تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ اس دفعہ MINUS-1 نہیں بلکہ MINUS-2 ہوگا یعنی وہ اپنے لیڈر کو تو فارغ کر ہی رہے ہیں بلکہ دوسروں کی جان بھی نہیں بخشنے والے۔ ہمارے فوج کی جنرل صاحبان اپنی کارگل کے پوتڑے دھونے میں لگے ہیں اور سیاستدان مال غنیمت سمیٹنے میں۔
مگر اس دفعہ NRO-2 ممکن نہیں۔ بہت سے لوگ چڑیاں اور کبوتر اڑائیں گے اور ثابت کریں گے کہ ان کی ساری چڑیاں اور کبوتر ٹیپ ریکارڈر لے کر لندن اور جدہ اور فوج کے جرنیلوں کے گھروں کے باہر بیٹھے ہیں مگر کہنے والے کہتے ہیں جنرل کیانی کسی کو السی کی بنائی ہوئی” پینڈیاں“ تو کھلا سکتے ہیں مگر جان بخشی کی گارنٹی دینا مشکل ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر کیچڑ کے چھینٹے ان کی کڑک دار وردی پر بھی گر سکتے ہیں۔ پہلے ہی ان پر 3سال کی توسیع لینے پر کئی تیر چل چکے ہیں اورسازشی کہانیاں کہتی ہیں کہ ان کے دوسرے پیٹی بند بھائی بھی انتظار میں ہیں کہ کب پانچ سال پورے ہوں اور ملک کی سمت درست کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس مرتبہ نہ صرف عدلیہ بلکہ میڈیا اور عوام سب تیار ہیں اور غور سے بلکہ دور بینوں اور خورد بینوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایک بیان اور ملاقات میں ہر بات کا تجزیہ ہو رہا ہے۔ جنرل کی باڈی لینگویج کیسی تھی، ان کا ڈنڈا سیدھا تھایا لمبا، شکل پر اعتماد تھا یا پریشانی، ان کے مقابل بیٹھے لوگ ہاتھ پھیلا کر صوفے پر براجمان تھے یا سیٹ کے کونے پر۔ کیا بڑا گھڑیال ٹک ٹک کر رہا تھا۔ اصلیت یہ ہے کہ رخصتی کا وقت آ گیا ہے۔ دلہن کے رشتہ دار رونے دھونے میں مصروف ہیں کسی کو نہیں معلوم سسرال والے کیسا سلوک کریں گے اور ڈرائنگ روم کیسے ہوں گے۔کوشش یہ تھی کہ اپنی مرضی کے ساس سسر گود لے لئے جائیں مگر وہ تو اب ممکن نہیں۔ NRO-2 تو نہیں ہوگا،آگے اللہ حافظ!!
تازہ ترین