• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی میڈیا بہت خوش ہے۔ پاکستان آرمی کے سابق چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب کو پڑھے بغیر اس کتاب پر مختلف بھارتی ٹی وی چینلز پر مباحثے ہو رہے ہیں۔ مباحثوں کی بنیاد کتاب کے وہ اقتباسات ہیں جو کارگل جنگ کے متعلق ہیں اور کچھ انگریزی اخبارات نے یہ اقتباسات شائع کئے۔ جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک میں کرنل ریٹائرڈ اشفاق حسین کی کتاب کا ذکر آیا تو بھارتی میڈیا نے کرنل اشفاق کو بھی اہمیت دینی شروع کر دی۔ بھارتی میڈیا کا خیال ہے جنرل شاہد عزیز اور کرنل اشفاق کی کتابوں سے پاکستانی فوج کی بہت بدنامی ہو گی لہٰذا وہ ان کتابوں پر گلے پھاڑ پھاڑ کر تبصرے کر رہے ہیں لیکن میری ناچیز رائے میں ان کتابوں سے پاکستانی فوج کا نقصان نہیں فائدہ ہو گا۔ فوج کی خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کا مطلب اپنی فوج سے دشمنی نہیں ہے۔ ان دونوں کتابوں کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا احساس ہو گا۔ پڑھنے والوں کو یہ پتہ چلے گا کہ اس خطے میں امریکی پالیسیوں کے متعلق پاکستانی فوج کے افسران اور جوانوں کی اکثریت کا نکتہ نظر وہی ہے جو پاکستانی عوام کی اکثریت کا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لبرل اور سیکولر انتہاء پسندوں کو جنرل شاہد عزیز کے یہ الفاظ بہت بُرے لگیں کہ… ”طوائفوں کی عزت پر حملے کے الزام میں لال مسجد کو عورتوں اور بچوں سمیت جلا دیا۔“ ہو سکتا ہے مجھے بھی جنرل شاہد عزیز کی کتاب میں موجود کئی دعوؤں سے سخت اختلاف ہو لیکن ذرا ان کی کتاب کے صفحہ 177 پر موجود ان الفاظ پر غور کیجئے جہاں وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک سال کے وار کورس کا ذکر کر رہے ہیں۔ لکھتے ہیں… ”ایک مرتبہ میں نے کشمیر کی پالیسی پر نکتہ چینی کی کہ یہ کیسی پالیسی ہے کہ ہم صرف دشمن کی فوج کو وہاں پھنسائے رکھنے کے لئے کشمیریوں کا خون بہا رہے ہیں؟ کیا اس جہاد کا کوئی آخر بھی ہے؟ کیا اسے کسی انجام کو پہنچانا ہے یا صرف ایک حد تک رکھنا ہے کہ ہندوستان پھنسا رہے؟ کچھ دیر خاموشی رہی، مجھے ایسے دیکھا گیا جیسے میں ذہنی طور پر معذور ہوں۔ پھر اس بات کو ٹال دیا گیا۔“ کرنل اشفاق کی کتاب میں بھی مسئلہ کشمیر کا مکمل پس منظر بیان کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ کارگل آپریشن کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث کشمیر کی تحریک آزادی کو بہت نقصان پہنچا لیکن جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا کارگل جیسے واقعات دوبارہ بھی رونما ہو سکتے ہیں کیونکہ پہل ہمیشہ پاکستان کی طرف سے نہیں ہوئی بھارت نے بھی سیاچن پر ناجائز قبضہ کر کے مسئلہ کشمیر کو مزید پیچیدہ بنا رکھا ہے۔ دونوں کتابوں میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں پر تنقید کی گئی ہے لیکن فوج کے جوانوں اور افسران کی جرأت و بہادری کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ کتابیں ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ترغیب ہیں۔
کرنل اشفاق کی کتاب ”جنٹلمین استغفراللہ“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کارگل آپریشن کے اصل ماسٹر مائنڈ پرویز مشرف نہیں بلکہ ناردرن ایریاز کے کمانڈر میجر جنرل جاوید حسن تھے جنہوں نے کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محمود کے ساتھ مل کر آرمی چیف جنرل مشرف کو کارگل آپریشن پر راضی کیا۔ جنرل محمود بھی ”ہسٹری آف انڈوپاک وار 1965ء“ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے اگست 1965ء میں پاکستانی فوج کے آپریشن جبرالٹر کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس آپریشن کی منصوبہ بندی جی ایچ کیو میں ہوئی اور آرمی چیف جنرل موسیٰ خان کو آپریشن کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے ایئر فورس کو اعتماد میں لینا ضروری نہ سمجھا۔ آزاد کشمیر رجمنٹ کے پانچ ہزار جوانوں کو دس گروپوں میں تقسیم کر کے مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیا گیا۔ ان گروپوں نے کارگل سے سری نگر تک مقبوضہ جموں و کشمیر کے اہم علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔ کارگل کی طرف بڑھنے والی طارق فورس کے کمانڈر میجر سکندر 17 ہزار فٹ بلند چوٹیوں پر دشمن کی بجائے موسم کی سختیوں کے اسیر بن گئے اور ناکام واپس لوٹ آئے۔ سری نگر کی طرف جانے والی صلاح الدین فورس کے کمانڈر میجر منشا خان کی مشکل یہ تھی کہ مقامی آبادی ان سے تعاون نہیں کر رہی تھی کشمیری مسلمانوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں؟ صلاح الدین فورس پر بھارتی فوج نے حملہ کر دیا اور یہ بھاری جانی نقصان اٹھا کر واپس بھاگ آئی اس کے چار جوان دشمن نے قیدی بنا لئے۔ صرف میجر ملک منور اعوان کی کمان میں غزنوی فورس جموں کے قریب راجوری گیریژن پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی کیونکہ جموں کے مسلمانوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ میجر منور کو سینکڑوں مقامی رضا کار مل گئے لیکن آپریشن جبرالٹر کے باعث 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ 17 دن کی جنگ کے بعد سیز فائر ہو گیا۔ 23 ستمبر کو میجر منور سے کہا گیا کہ واپس آ جاؤ تو میجر منور نے احتجاج کیا اور پیغام بھجوایا کہ اگر وہ واپس آ گئے تو بھارتی فوج راجوری اور جموں کے مسلمانوں سے انتقام لے گی۔ جنرل ایوب خان نے اس پیغام پر توجہ نہ دی۔ ڈسپلن کی پابند غزنوی فورس واپس آ گئی اور پھر بھارتی فوج نے پاکستانیوں کی مدد کرنیوالے مقامی رضا کاروں کے خاندانوں کی عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اغواء کیا۔ بوڑھی عورتوں کے ہاتھ جلا دیئے کیونکہ وہ پاکستانیوں کیلئے روٹیاں پکاتی تھیں جوان عورتوں کیساتھ زیادتیاں ہوئیں۔ راجوری، پونچھ اور جموں کی سترہ سو جوان عورتیں اغواء کے بعد واپس نہ آئیں۔ حیرت ہے کہ جنرل محمود نے اپنی کتاب میں خود آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کی وجوہات لکھیں اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے کارگل آپریشن کا حصہ بن گئے۔
کارگل آپریشن کے مزید حقائق سامنے آنے کے بعد کارگل پر جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ کمیشن کے قیام کا مطالبہ بالکل جائز ہے لیکن کمیشن کو اس پہلو کا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ کارگل آپریشن جیسی غلطیاں بار بار کیوں دہرائی جاتی ہیں؟ کیا وجہ تھی کہ 1947ء میں قائداعظم کو اعتماد میں لئے بغیر انتہائی ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ بریگیڈیئر اکبر خان کی نگرانی میں ایک قبائلی لشکر کشمیر روانہ کر دیا گیا۔ بارہ مولا میں اس لشکر نے اپنے کمانڈر خورشید انور کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ پاکستان کے نامور مورخ زاہد چوہدری نے اپنی کتاب ”پاکستان کی سیاسی تاریخ“ کی جلد سوم میں لکھا ہے کہ 26 اکتوبر 1947ء کو آفریدی اورمحسود قبائلیوں نے بارہ مولا میں لوٹ مار کے علاوہ عورتوں کی آبرو ریزی بھی کی۔ انہوں نے جہاد کے نام پر اپنے شیطانی کھیل میں دو دن ضائع کر دیئے لہٰذا 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی ایئر فورس کے ذریعہ بھارتی فوج کو سری نگر میں اتار کر کشمیر پر قبضہ کر لیا گیا۔ قبائلی لشکر بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کی بجائے بھاگ نکلا اور یوں کشمیر پر بھارت کا مستقل قبضہ ہو گیا۔
معروف کشمیری محقق جی ایم میر اپنی کتاب ”کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ“ میں لکھتے ہیں کہ کشمیر کے غیر مسلم راجہ ہری سنگھ اور قائداعظم کے درمیان نواب بھوپال کے ذریعہ تمام معاملات طے ہو گئے تھے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کشمیر کا الحاق بھارت سے چاہتا تھا لیکن مہاراجہ ہری سنگھ کشمیر کو خود مختار ریاست بنانے پر تیار تھا۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس کے رہنماؤں چوہدری حمید اللہ خان اور اسحاق قریشی کو گیارہ جولائی 1947ء کو کراچی میں اعتماد میں بھی لے لیا۔ کشمیر کے وزیراعظم پنڈت رام چند کاک بھی مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ تھے لیکن قبائلی لشکر کی کارروائی نے قائداعظم کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ بعد ازاں قائداعظم نے اپنی فوج کے انگریز سربراہ جنرل گریسی سے کہا کہ بھارتی فوج کو سری نگر سے نکالو تو اس نے معذرت کر لی۔ قبائلی لشکر کو کشمیر بھیجنے کا منصوبہ بھی جی ایچ کیو میں بنا اور کارگل آپریشن بھی جی ایچ کیو کے بنائے گئے آپریشن جبرالٹر کا ایکشن ری پلے تھا۔ یہ منصوبے بنانے والوں کی نیت پر ہم شک نہیں کرتے لیکن ان ناقص منصوبوں نے کشمیریوں کی مشکلات اور تکلیفوں میں بہت اضافہ کیا۔ ہم ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں کے نام پر پورے پاکستان میں چھٹی کر دیتے ہیں۔ اس چھٹی کا کشمیریوں کو کیا فائدہ؟ کیا ہی اچھا ہو کہ 5 فروری کو چھٹی کی بجائے پاکستان کے تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں مسئلہ کشمیر پر سیمینار اور مذاکرے منعقد کئے جائیں۔ پاکستانی قوم کو بتایا جائے کہ اس کے تمام بڑے دریاؤں کا پانی کشمیر سے آتا ہے اور بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے سندھ پر ڈیم بنا رہا ہے۔ دریائے سندھ سوکھ گیا تو آدھا پاکستان سوکھ جائے گا۔ دریائے سندھ کی زندگی اور کشمیر کی آزادی لازم و ملزوم ہیں لیکن کیا ہم واقعی کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہیں؟ اگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ واقعی کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہے تو ان کے ساتھ ساتھ بار بار کے مذاق بند کئے جائیں ان کے نام پر چھٹی منانے کی بجائے ایک موثر کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے۔
تازہ ترین