• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
مغرب میں مشرقی والدین کی فکروپریشانی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جب ایک بچہ اپے گھر آکر کہتا ہے ’’آئی ایم گے‘‘ (I am Gay) چاہے بچے کو اس کا مطلب معلوم ہو یا نہ ہو مگر ایک فیشن اور جدید تعلیم و اسٹیس کا سمبل بن گیا ہے نوجوان نسل میں GAY لفظ اور والدین سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کے بچے اتنی آسانی سے اور فخر سے یہ جملہ گھر میں بولیں گے۔ یہ تو چھوڑ دیجیئے کہ خود کو بچے شوق میں کیا کہتے ہیں فکر اس بات کی ہے کہ چھوٹی عمر میں بچوں کو بڑوں والی تمام معلومات حاصل ہوگئی ہیں۔ ایک نو، دس سال کی بچی اپنی والدہ سے کہے کہ مجھے معلوم ہے کہ کنڈم کیسے استعمال کرتے ہیں تو برٹش ماں بھی چونک ضرور جاتی ہے کیونکہ بعض برٹش مائیں بھی بچوں کو صرف تعلیم کی طرف راغب دیکھنا چاہتی ہیں کہ وہ بھی اچھے ماحول میں پروان چڑھیں اور اپنے مستقبل کو روشن بنائیں ۔ کسی بھی یورپین و امریکی معاشرے میں اس بات پر بھرپور تنقید یا بحث نہ کی گئی کہ بچے اچھائی اور برائی کے فرق کو جان کر معاشرتی زندگی گزاریں اور بدی سے باز رہ کر چھوٹی عمروں میں والدین نہ بن جائیں کبھی بھی کسی ادارے کی طرف سے بھرپور تنقید نہیں کی جاتی کہ 12 یا 13سال کی بچی حاملہ کیوں ہو جاتی ہے اور ماں بن جاتی ہے۔ جب اس بات پر والدین اور معاشرے کو اعتراض نہیں تو پھر ہم جنس پرستی کے ماحول کو بھی بُرا نہیں جانا جائے گا۔ مجموعی طور پر کسی کو بھی اعتراض نہیں سوائے کچھ لوگوں کے مسلمان اور یہودی والدین کو نکال کر۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو یہود اور مسلمانوں کے ساتھ برطانوی عوام بھی احتجاج میں بھر پور حصہ لیتی آج کل ہمارا لندن کے بہت سے اسکولز میں مشاہدے کیلئے جانا ہو رہا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ بہت سی مائوں کے اصرار پر کہ ہم روزانہ ہلکا پھلکا احتجاج کررہے ہیں کہ ہم جنس پرستی کے مضمون کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔ ویسے بات کہیں صحیح بھی لگتی ہے کہ اسے نصاب میں شامل کرنے سے بہتر ہے کہ صرف آگہی کیلئے بچوں کو اس کی اچھائی یا برائی سے آگاہ کیا جائے۔ جیسے پہلے ہوتا رہا ہے کہ بچوں کو جب بلوغت سے متعلق معلومات دی جاتی تھی کہ بالغ ہونے پر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا تو پریشان یا حیران نہیں ہونا کہ یہ سب نارمل ہے اور ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو ایسی معلومات پر والدین کو بھی اعتراض نہیں تھا اور ان کا خیال تھا کہ اچھا ہے بچوں کو بالغ ہونے سے پہلے اگر کچھ معلومات دے دی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ بعض والدین اگر اس پر اعتراض کرتے تو وہ اساتذہ کو منع کرنے کا اختیار رکھتے تھے کہ ان کے بچوں کو یہ سب نہ بتایا جائے۔ ویسے بھی والدین سے اجازت لی جاتی تھی پہلے وہ پھر اس قسم کی معلومات کلاس روم میں نہیں دی جاتی تھی بلکہ بڑے ہال کمرے میں دوسری کلاسز سے بھی بچے آتے تھے وہاں پر سبھی کو اجتماعی طورپر سمجھا دیا جاتا تھا جن بچوں کو نہیں جانا ہوتا تو وہ کلاس روم میں بیٹھ کر دوسرا کوئی سبق پڑھ لیا کرتے بلکہ بعض بچے والدین سے پہلے خود ہی انکار کردیتے کہ ہم شرم سی محسوس کرتے ہیں لہٰذا ہم یہ پیریڈ اٹینڈ نہیں کریں گے۔ مگر آج کے بچے ہم جنس پرستی کی سمجھ آئے یا نہ آئے خود کو GAY کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔بہت سے والدین مناسب طریقے سے اعتراض کررہے ہیں کہ نصاب میں ہم جنس پرستی کے مضمون کو شامل کرنے سے یہ ہوگا کہ بچے اصل تعلیم سے دھیان ہٹالیں گے جہاں تعلیم انہیں غور و فکر کے زاویئے سمجھاتی ہے علم کے راستے کھلتے ہیں مگر ایسی معلومات سے علم کی اہمیت بھی متاثر ہوگی ۔ بچے اسی سوچ میں غلطاں رہیں گے کہ ہم جنس پرستی آخر ہے کیا چیز؟ اسکول اگر مڈل یا ہائی ہو تو اس کے نصاب میں بھی یہ سب شامل نہیں کرنا چاہئے آگہی کیلئے ایک پیریڈ میں کافی معلومات پہنچائی جاسکتی ہیں۔ مگر مسئلہ والدین کیلئے یہ ہے کہ پرائمری کے بچوں کے نصاب میں یہ سب شامل کیا جارہا ہے۔ اسی لئے ہم نے بہت سے اسکولز کے باہر والدین کوبحث و مباحثہ اور فکر میں مبتلا دیکھا بعض مہذب طریقے سے احتجاج کررے ہیں کہ یہ سب نہیں ہونا چاہئے بعض تو غصے میں رہتے ہیں۔ غصہ میں زیادہ تر پاکستانی اور صومالین ہیں۔ دیگر عربی و عراقی، افغانی وغیرہ اتنی بری طرح احتجاج نہیں کررہے ۔ جوئش لوگوں کو بھی اعتراض ہے انہوں نے اپنی کمیونٹی کو یکجا کرکے اپنے ہی اسکول میں بچوں کو داخل کرانے کا ارادہ کرلیا ہے مغرب میں رہ کر مسلمان والدین کو عموماً ایسے مسائل کا سامنا رہتا ہے مگر مجال ہے کہ اپے بچوں کو یہ واپس اپنے ملک لیکر جانے کا سوچیں یا مضبوط ارادہ کریں جو والدین کافی کمالیتے ہیں وہ بھی لالچ کرتے ہیں کہ یہاں کی آرام دہ زندگی کو نہ چھوڑا جائے۔ بعض لوگوں کو اگر دل اپنا بھر جائے تو وہ بچوں کیلئے نہیں صرف اپنے لئے واپس اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ ویسے اگر ہم جنس پرستی کو عام کردیا گیا کسی قسم کی بھی پابندی نہ لگائی گئی تو اس کے مستقبل میں نتائج کیا برآمد ہوں گے یہ کہ لوطی دور واپس لوٹ آئے گا۔ حضرت لوط کی قوم تباہ ہی اسی بدعملی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ہم جنس پرستی سے آپ کی آبادی میں کمی ہو جائے گی بلکہ نسلیں کیسی ہوں گی اور کیسے پروان چڑھیں گی۔ پھر تیار رہیئے کہ اس عمل سے کیا نتائج صحت کے بارے میں حاصل ہوں گے کہ شروع میں تو سبھی کو فیشن کے طور پر ہم جنس پرستی پسند آئے گی اس کے بعد یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خطرناک قسم کی جنسی بیماریاں انسانوں سے جینے کی امنگ چھین لیں گی۔ ظاہر ہے اس عمل سے کسی کو طویل مسرت تو حاصل ہونے سے رہی۔ فطرت کے خلاف کسی بھی عمل سے رد عمل ہولناک ہوتا ہے قدرت کے قوانین، اصول زندگی، طریقہ حیات اگر عام قدرتی ماحول سے ہٹ کر گزارے جائیں تو اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ صحت مند ماحول ختم ہوکر رہ جائے گا ، ترقی رک جائے گی، صرف کسی ایک قوم کا نقصان نہیں جو بھی اس میں شامل ہوگا سبھی کا نقصان ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی سوچنا چاہئے کہ کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔
تازہ ترین