• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض تمنا … خالد محمود جونوی
ہم جس زمانے میں طالب علم تھے اس وقت والدین اور بالخصوص اساتذہ کرام صبح و شام بڑی تواتر سے اس کا بھاشن دیتے رہے کہ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے ہوگے خراب، اور یقین مانیں کہ یہ جملہ بچپن ہی سے شعوری یا غیر شعوری طور پر ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا، جس کا المیہ یہ ہوا کہ نہ تو لکھ پڑھ کر کسی ریاست کے نواب (حالانکہ ’’ریاست جونا گڑھ‘‘ اپنے گھر کی تھی) اور نہ ہی اچھی طرح خراب ہوئے، اللہ بخشے ہمارے مرحوم ایک استاد صاحب کو انہوں نے غالباً تیسری یا چوتھی جماعت میں سکول اوقات کے بعد ایک مرتبہ کھنو کھیلتے ہوئے دیکھ لیا، اس وقت یہ کھیل ہمیں دستیاب تھا، دوسرے دن سکول میں ان کی طرف سے تسلی بخش سزا ملی لیکن جماعت دہم تک اس کھنو کھیلنے کے عیب نے ہماری جان نہ چھوڑی، سکول تاخیر سے پہنچنا، یونیفارم پہن کر نہ آنا، ہوم ورک کا نہ ہونا اور بغیر اجازت چھٹی کرلینا، یہ ایسی غلطیاں ہیں جو اکثر طالبعلم کرتے نہیں تھے بلکہ ان سے ہو جایا کرتی تھیں اور ظاہر ہے ہم کون سے افلاطون تھے جب کبھی اس قسم کی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھتے تو سزا کے ساتھ وہ عیب ایک مرتبہ پھر گردانا جاتا کہ جب آپ کھیلیں گے تو ایسے ہی خراب ہوں گے، کیا واقعی بچہ کھیل کود سے خراب ہوتا ہے ؟ نہیں یقیناً نہیں مگر استاد صاحب کا اس پر مضبوط اعتقاد تھا اور اعتقادوں کو بدلنے میں بڑی دیر لگتی ہے، سکول کے بعد کالج جا پہنچے جب کبھی سر راہ ملاقات ہو جاتی تو ہر طالبعلم کو پکارنے کے لئے انہوں نے اپنے مخصوص القاب رکھے تھے کہ تم کچھ پڑھتے وغیرہ بھی ہو یا کھیل کود کی وہی پرانی عادتیں اب بھی قائم ہیں یوں ہم دوڑ کر ان کے اور قریب ہو جاتے کہ ان کی طرف سے دیئے گئے القاب کو کم سے کم لوگ سن سکیں، برطانیہ پہنچنے کے بعد جب نیوز ایجنٹ کی دکان شروع کی تو اس کے قرب و جوار میں تین سکول تھے، جب سکول کے بچوں کو کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے مختلف بیگز سنبھالے سکول جاتا دیکھتے تو ان کی قسمت پر رشک آتا کہ کس طرح تعلیم اور کھیل کی تعلیم ساتھ ساتھ دی جا رہی ہے، اب وقت کافی بدل گیا ہے یہ سوچ و فکر کسی حد تک کم ہو رہی ہے کہ کھیل کود سے بچے خراب ہوتے ہیں، اب تو ماشاء اللہ کھیل ایک صنعت کا درجہ اختیار کرگئی ہے، حالیہ کرکٹ ورلڈکپ کی مثال ہی لے لیں کہ کس طرح پوری دنیا کو اس نے اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔
ہمارا علاقہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جس کے باعث ہموار زمین کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے کو کچھ دستیاب ہے اس پر پہل کبھی حیلہ مذہبی اور کبھی بنام وطن قبضہ کر لیا جاتا رہا اب اس کی جگہ دھونس اور جبر نے لے لی ہے، یوں گائوں محلے کے بچوں کو کھیل کود کے لئے پھر کسی ناہموار جگہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار گیند کے تعاقب میں کئی بچے اپنی ٹانگیں اور بازو تڑوا بیٹھے اور جب بچوں کو کم عمری ہی معذور ہوتے دیکھتے ہیں تو حکومتی اور عام لوگوں کی بے حسی پر افسوس ہوتا ہے، حکومت اس سلسلے میں کم گنہگار ہے کہ ہم نے اسے اجتماعی منصوبوں کے لئے کم ہی کہا ہے ہماری سیاست کا مرکز و محور چھوٹی موٹی اسکیمیں اور ٹونی کھمبے رہے ہیں اور اجتماعی منصوبوں کی بجائے سیاستدانوں، گائوں محلے کے چوہدری کو قدرے کم اجرت میں خوش کرنا آسان ہوتا ہے، اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے برطانیہ میں آباد ہمارے علاقے کے رفاعی و فلاحی اذہان رکھنے والے کچھ نوجوان پنجن چڑہوئی کی یونین کونسل کوٹلی سوہناں میں ایک کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کا منصوبہ لئے پھر رہے ہیں، یہ پنجن چڑہوئی وہی ہے جس میں سیف الملوک کے خالق حضرت میاں محمد بخشؒ نے اس پُرفضا اور نظارے والی جگہ پر بیٹھ کر سیف الملوک مکمل کیا تھا۔کہنے کو تو یہ کرکٹ اسٹیڈیم ہوگا مگر اس میں دیگر مقامی و دیسی کھیلوں اور میلے ٹھیلوں کو بھی فروغ ملے گا، گزشتہ ہفتے لیوٹن میں اس سلسلے کی تقریب اول تھی جس میں سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیض راجہ سمیت مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے منصوبے کو وقت کی عین ضرورت قرار دیتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وہاں کے لوگ اوورسیز کمیونٹی کے جہاں اس حوالے سے بڑے معترف ہیں ان لوگوں نے جہاں سخت محنت و مشقت کرکے خود بھی آسودہ حال ہوئے وہاں پاک و کشمیر میں جو گھر گھر خوشحالی ناچ رہی ہے اس میں ان کا بھی بڑا حصہ ہے وہاں ایک بڑا طبقہ اس کا بھی ناقد ہے کہ اپنے پیسے کے زور پر انہوں نے یہاں بہت ساری سیاسی قباحتیں پیدا کیں، بیرون ملک سے سیاسی ٹیلنٹ درآمد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا مگر روپے پیسے کی ریل پیل نے بھی غیر محسوس طریقے سے وہاں کے سیاسی نظام کو متاثرکیا۔لہٰذا آئیے ان گلے شکوئوں اور شکایتوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے کرکٹ کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں، کسی دانا کا خوب قول ہے کہ اگر مجھے ہسپتال اور کھیل کے میدان بنانے کے انتخاب کا موقع دیا جائے تو میں ایک کے بجائے دو میدان بنائوں گا کیونکہ جن قوموں کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں کے ہسپتال ویران رہتے ہیں، یوں اسٹیڈیم کی تعمیر کا خواب تو اگرچہ چند آنکھوں نے دیکھا ہے (اللہ تعالیٰ چشم بصیرت کو اور وسعت دے) لیکن اسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ہم سب کو ایک دوسرے کی مدد و رہنمائی کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین