• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اور افغان لیڈروں کے مابین کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں افغان طالبان نے اپنے ملک میں جزوی طور پر امریکی فوج کی موجودگی پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے تاہم پاور شیئرنگ پر ڈیڈلاک موجود ہے لیکن معاملہ افغان رہنماؤں کے صلاح مشورے تک پہنچ گیا ہے۔ سب سے اہم معاملہ سیز فائر اور افغانوں میں باہمی بات چیت کے آغاز کا ہے اور یہی اس عمل کی ایسی کامیابی ہو گی جس سے مسئلے کے مستقل حل کی راہ کھلے گی۔ اس مرحلے پر امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کر کے معاملے کے اس منزل تک پہنچنے کو یقینی بنائے۔ وزیراعظم عمران خان کا صدر ٹرمپ کی دعوت پر حالیہ دورۂ امریکہ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرزمین پربسنے والے لوگ مذہب و ثقافت اور تہذیب و تمدن کی مشترکہ اقدار کے گہرے رشتوں میں منسلک ہیں اور ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ آپس کی رشتہ داریاں، تجارت، آزادانہ نقل و حرکت کے باعث قیام پاکستان کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی پابندیاں برائے نام ہی رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی بدامنی اور دہشت گردی کا بڑا نشانہ بھی پاکستان بنا۔ بھارت نے بھی دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن عوام میں صدیوں پرانے رشتوں کی وجہ سے اس کے مذموم مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کی معاونت کو ناگزیر ہے۔ وہ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قربانیوں کا اعتراف بھی کر رہا ہے۔ تاہم ماضی کی طرح اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پاکستان سے کام لے کر ازسر نو طوطا چشمی کی روش اختیار کرلے۔ پاکستانی قیادت کو یہ بات یقینی بنانا چاہئے کہ اب امریکہ کو پاکستان کے مفادات بھی ملحوظ رکھنا ہوں گے خصوصاً کشمیر سمیت تمام پاک بھارت تنازعات کے منصفانہ تصفیے کے لئے اپنے اثر و رسوخ کو نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنا ہوگا۔

تازہ ترین