• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالانکہ ایمنسٹی اسکیم کا موضوع اب پرانا ہوچکا ہے لیکن میرے بے شمار قارئین نے اس اسکیم پر میری رائے جاننے کی درخواست کی ہے۔ ایمنسٹی پر معاشرے اور بزنس کمیونٹی میں دو متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ لوگوں کے مطابق مسلسل ایمنسٹی اسکیموں کا اعلان ایماندار ٹیکس دہندگان کا معاشی قتل ہے کیونکہ ٹیکس نادہندگان اس اسکیم کے تحت نہایت کم ٹیکس ادا کر کے اپنے اثاثے اور آمدنی کو قانونی شکل دے دیتے ہیں جس سے ایماندار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور یہ بات درست بھی ہے لیکن ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان میں دستاویزی معیشت کے برابر غیر دستاویزی معیشت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں تو دیکھنے میں نظر آتی ہیں لیکن حکومتی خزانے میں ٹیکس کی مد میں ریونیو حاصل نہیں ہوتا، پاکستان میں دنیا کے کم ترین جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح صرف 9فیصد ہے جو حکومتی اخراجات، دفاعی بجٹ، سماجی سیکٹر، تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ناکافی ہے جس کیلئے ہمیں بھی خطے کے دیگر ممالک کی طرح جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 15سے 16فیصد تک بڑھانا ہوگا۔

موجودہ حالات میں دنیا میں سخت بینکنگ قوانین، FATFکی دہشت گرد فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کی پابندیوں، OECDکے 104ممالک سے بینک اکائونٹس کی معلومات شیئر کرنے کی سہولت، پاکستان کے بے نامی جائیداد اور اکائونٹس کے قانون 2017پر فروری 2019سے عملدرآمد وہ عوامل ہیں جن کے بعد اب لوگوں کیلئے اپنے اثاثے، اکائونٹس اور انکم چھپانا نہایت مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI)کے اعلیٰ سطحی وفد نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم سے ملاقات میں انہیں تجویز دی کہ ملکی معیشت میں بے نامی اکائونٹس اور جائیدادیں رکھنے کی گزشتہ 70برسوں سے روایت چلی آرہی ہے، حکومت ان اثاثوں اور اکائونٹس کو باقاعدہ بنانے کیلئے آخری بار ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرے۔ اس سلسلے میں حکومت نے رواں سال اپریل میں ’’بے نامی اکائونٹس اور جائیدادوں‘‘ کو باقاعدہ بنانے کیلئے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جس کی میعاد 30جون تک رکھی گئی تاہم بعد میں اِسے بڑھا کر 3جولائی تک توسیع کردی گئی تھی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے سے پہلے فیڈریشن ہائوس میں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں میرے ساتھ ایمنسٹی پر ایف بی آر کے فوکل پرسن کارپوریٹ سیکٹر (RTO-III)کے چیف کمشنر انکم ٹیکس شفقت کھیر، کمشنر انکم ٹیکس مقصود جہانگیر اور ایڈیشنل کمشنر انکم ٹیکس کاشف حفیظ نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں آن لائن کانفرنس کے ذریعے پاکستان بھر کے چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کو ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں وضاحتیں پیش کیں اور بے شمار ابہام دور کئے۔

ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس کی مدت ختم ہونے کے بعد ایف بی آر کے ٹیکس قوانین پر عملدرآمد پر ہوتا ہے۔ ماضی میں ایمنسٹی اسکیم ختم ہونے کے بعد ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے تھے لیکن اس بار ایف بی آر نے ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے کے فوراً بعد سیاستدانوں کے بے نامی اثاثے منجمد کرنے شروع کردیئے ہیں، عوامی عہدے رکھنے والے 50سیاستدانوں کو نوٹسز جاری کئے جاچکے ہیں جبکہ 300بڑے بے نامی اداروں کے خلاف کریک ڈائون کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایف بی آر نے اس سال ریونیو وصولی کا ہدف 5550ارب روپے رکھا ہے جو ایک بہت بڑا ہدف ہے جسے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ایف بی آر ترجمان کا کہنا ہے کہ فوج کے افسران، سرکاری عہدیداران، سیاسی افراد اور ان کے اہل خانہ موجودہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کے مختلف مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں اگر کوئی شخص بے نامی جائیداد کی ملکیت سے بے خبر ہوتا ہے اور وہ ایف بی آر کو بینی فیشل آنرز(حقیقی مالک) کا نام بتادے تو ایسی صورت میں جائیداد کی ضبطی کو 90دن کیلئے روک دیا جاتا ہے تاکہ ایف بی آر مختلف محکموں سے مزید معلومات حاصل کر سکے۔ دوسرے مرحلے میں اگر بے نامی جائیداد رکھنے والا خود ملکیت تسلیم کرتا ہے تو اس کے اثاثوں کی چھان بین کی جاتی ہے تاکہ اس کی آمدنی کے ذرائع معلوم کئے جاسکیں۔

مجھے خوشی ہے کہ موجودہ ایمنسٹی اسکیم کامیاب رہی جس سے ایک لاکھ 37ہزار لوگوں جن میں ایک لاکھ سے زائد ٹیکس نادہندہ تھے، نے فائدہ اٹھایا اور 3832ارب روپے کے اثاثے ظاہر کئے جس سے حکومت کو ٹیکس ریونیو کی مد میں 70ارب روپے حاصل ہوئے۔ موجودہ ایمنسٹی اسکیم سے مستفید ہونے والوں میں سے 70فیصد افراد کا تعلق کراچی اور لاہور سے تھا جبکہ گزشتہ ایمنسٹی اسکیم میں 90فیصد افراد کا تعلق کراچی اور لاہور سے تھا جس میں سے 60فیصد کراچی اور 30فیصد لاہور سے تھے جبکہ پاکستان کے باقی شہروں سے صرف 10فیصد افراد نے گزشتہ ایمنسٹی اسکیم میں حصہ لیا۔ اس لحاظ سے ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے والوں میں کراچی سرفہرست رہا۔ اس سلسلے میں، میں نے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی پر فون کرکے مبارکباد دیتے ہوئے فیڈریشن کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ شبر زیدی نے مجھے بتایا کہ 2اگست تک جرمانہ ادا کئے بغیر اثاثے ظاہر کرنے کا ایک دروازہ اب بھی کھلا ہے اور اس پر گزشتہ برسوں کے متعلق غیر ضروری تفتیش بھی نہیں کی جائے گی۔ میں آخر میں موجودہ ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی پر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور الیکٹرونک میڈیا کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے ایمنسٹی اسکیم کے آخری دنوں میں بے شمار لائیو پروگرام کئے جس میں وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم نے بھی شرکت کی جس سے لوگوں میں ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

تازہ ترین