• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت مدارس مذاکرات ومعاہدات…پس منظر اور حقائق

تحریر; مولانا محمد حنیف جالندھری
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان
دینی مدارس کی قیادت نے ہمیشہ دینی مدارس کو درپیش مسائل و مشکلات کو بات چیت ، مذاکرات اور افہام وتفہیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی …حالات کسی بھی قسم کے ہوئے …کیسا ہی اندرونی یا بیرونی دباؤ ہوا دینی مدارس کے نمائندہ وفاقوں کے ذمہ داران نے ہمیشہ اپنے دروازے سب کے لیے کھلے رکھے …دینی مدارس کا مقدمہ ہر فورم پر لڑا …ملک وملت کے حالات ومفاد کو مدنظر رکھا …دینی ترجیحات کو ہمیشہ سامنے رکھا …دینی مدارس کے قیام کے مقاصد کو کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا …ملک بھر کے تمام مکاتب فکر کے مدارس ،مدارس کے منتظمین ،اساتذہ ،طلبہ ،مدارس کے وابستگان، معاونین ،محبین اورمتعلقین کی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کی …مدارس کی حریت وآزادی پر حرف نہیں آنے دیا …مدارس کے نصاب ونظام میں قطع وبرید کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی… مدارس کے خلاف ہونے والی ہر سازش اور ہر منفی منصوبہ بندی کو ناکامی سے دوچار کیا… اس لیے ملک بھر کے دینی مدارس سے محبت رکھنے والے احباب سے گزارش ہے کہ وہ جمع خاطر رکھیں …مدارس کے حوالے سے مسائل ،مشکلات ،حالات کا جبر سب بجا لیکن مدارس کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا …
وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود صاحب کی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد اندرون وبیرون ملک سے دینی مدارس کے ہمدردوں کی جانب سے تشویش واضطراب اور فکرمندی کی جو کیفیت ہے اور ہر طرف سے جو سوالات سامنے آرہے ہیں ،مختلف اطراف سے رابطے کیے جارہے ،اس کی بنیاد ی وجہ شاید یہ ہے کہ وزیر موصوف کی پریس کانفرنس صحیح طرح رپورٹ نہیں ہوپائی یا وفاقی وزیر پوری بات نہیں کہہ سکے یا مختلف طبقات کے لوگ حالیہ مذاکرات کے پس منظر سے صحیح طرح آگاہ نہیں ہیں اس لیے زیر نظر مضمون میں حالیہ مذاکرات اور معاہدوں کا حقیقی اور مکمل پس منظر پیش کرنے کی کوشش ہوگی تاکہ مکمل بات اور مکمل تصویر کو صحیح تناظرمیں دیکھا اور سمجھا جاسکے۔
اتحاد تنظیماتِ مدارس کے نمائندہ وفد کی چیف آف آرمی اسٹاف سے یکم اپریل 2019ء کو ملاقات ہوئی ،2 اپریل کو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے ملاقات ہوئی بعد ازاں ان ملاقاتوں کی وجہ سے 6 مئی کو وزارت تعلیم میں باضابطہ طورپر مذاکرات ہوئے جن میں دینی مدارس کے حوالے سے بہت سے اہم امور پر اتفاق رائے پایا گیا اور باقاعدہ تحریری طور پرپریس ریلیز جاری کی گئی جس کا متن یہاں من وعن نقل کیا جارہا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ رجسٹریشن ،غیرملکی طلبہ ،بینک اکاؤنٹس،کوائف طلبی ،چھاپوں سمیت دینی مدارس کے حوالے سے جو اہم ایشوز ہیں ان کے بارے میں کیا فیصلے ہوئے ؟
’’آج مورخہ 6مئی2019 ء کو وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود صاحب کے زیر صدارت دینی مدارس کے حوالے سے ایک اہم اجلاس وزارت کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا جس میں اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سربر اہان اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی ۔اجلاس کی کارروائی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اور خوش گوار ماحول میں مکمل ہوئی تفصیلی گفت شنید کے بعد درج ذیل فیصلے اتفاق رائے سے کیے گئے ۔
الف :اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ تمام دینی مدارس وجامعات اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوںگے ۔
ب :اس مقصد کے لیے وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں 10ریجنل دفاتر رجسٹریشن کے لیے قائم کرے گی ۔
پ :وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت مدارس وجامعات کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی ۔
ت :وہ مدارس وجامعات جو وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈنہ ہو ں گے ،وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی ۔
ج :جو مدارس وجامعات رجسٹریشن کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کریں گے ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی ۔
بیرونی ممالک کے طلباء کی تعلیم اور ویزا کا اجراء وفاقی وزارت ِتعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹر ڈ مدارس وجامعات غیرملکی طلبا ء کو تعلیم کی سہولت مہیا کرسکیں گے ۔اس سلسلے میں وزارت تعلیم کی سفارش پر ان طلباء کو ان کی مدت تعلیم (جوزیادہ سے زیادہ ۹سال ہوگی ) اور حکومتی قواعد وضوابط کے مطابق ان کے لیے ویزا کے اجراء میں معاونت کرے گی ۔
ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس وجامعات میڑک اور ایف اے کے بعد فنی تعلیمی بورڈ کے ساتھ الحاق کرسکیں گے ۔(نیچے جملہ شرکاء کے دستخط ہیں )
یکم اور دو اپریل کی ملاقاتوں اور 6 مئی کے مذاکرات کے بعد مذاکرات اور ملاقاتوں کا دوسرا دور 16جولائی اور 17 جولائی کو ہو ا۔16 جولائی کو چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات ہوئی جبکہ 18جولائی کو وفاقی وزیر تعلیم کے ساتھ مذاکرات ہوئے …وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے 27 جون 2019 ء کو جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں منعقدہ اجلاس میں حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے لیے صد ر وفاق حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم العالیہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور راقم الحروف محمد حنیف جالندھری کو نامزد کیا گیا تھا۔ چنانچہ 16 جولائی کی ملاقات میں حضرت صدرِ وفاق بنفس نفیس شریک ہوئے جبکہ 17 جولائی کی ملاقات میں حضرت تو اپنی علالت کے باعث شریک نہ ہوسکے تاہم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی معیت میں راقم الحروف نے وفاق المدارس کی نمائندگی کی جبکہ دیگر وفاقوں کی طرف سے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب ،صاحبزادہ عبد المصطفی ہزاروی صاحب تنظیم المدارس ،وفاق المدارس السلفیہ کی طرف سے مولانا ڈاکٹر یاسین ظفر صاحب ،رابطہ المدارس کی طرف سے مولانا عبدالمالک صاحب اور مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمان وفاق المدارس الشیعہ کی طرف سے علامہ ریاض حسین نجفی اور مولانا افضل حیدری شریک ہوئے جبکہ حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ،سیکرٹری تعلیم اور دیگر حضرات شریک ہوئے ۔
16 جولائی کی چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے لیے ہم نے باہمی مشاورت سے دینی مدارس کے موقف ،مسائل اور معاملات کے متعلق ایک تفصیلی اور جامع عرضداشت تیا ر کی تھی جو اتحاد تنظیمات مدارس کے جنرل سیکرٹری مولانا مفتی منیب الرحمان نے پیش کی ( یہ عرضداشت عزیزم مولانا عبدالقدوس محمدی کے کالم میں آپ حضرات نے ملاحظہ فرمائی ہوگی ) اس تفصیلی اور تحریری عرضداشت کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ،راقم الحروف ،مفتی منیب الرحمان صاحب اوردیگر نے زبانی طورپر بھی چیف آف آرمی اسٹاف سے عرض کیا کہ سابقہ ملاقاتوں اور مذاکرات میں طے پانے والے امور پر تاحا ل کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ،کوئی عملدرآمد نہیں ہوا جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان امور پر فی الفور اور غیرمشروط عملدرآمد ہو۔ ہم نے آرمی چیف سے عرض کیا کہ یہاں اور بات طے ہوتی ہے لیکن عملی طورپر کچھ اور ہوتاہے ،آپ کے واضح احکامات کے باوجود نیچے جو لوگ ہیں ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی اور مدارس کے حالات میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آتی اس پر چیف آف آرمی اسٹاف نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب کو ایک مرتبہ پھر واضح ہدایات جاری کیں کہ 6 مئی کے معاہدوں اور طے شدہ امور پر فی الفور عملدرآمد کروایا جائے ۔اسی طرح چیف آف آرمی اسٹاف کے سامنے یہ امر بھی واضح کیا گیا کہ ہم دینی مدارس کی حریت وآزادی کو دین کے لیے اور دین کی حقیقی تعلیم کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں اور اس پر کوئی کمپرومائز ممکن نہیں، اس سے قبل بھی جو ادارے حکومتی تحویل میں گئے وہ بالکل تباہ وبرباد ہوکر رہ گئے اس لیے ہم دینی مدارس کے بارے میں ایسا کوئی رِسک نہیں لے سکتے تاہم ملکی مفاد اور قیام امن سمیت دیگر جملہ معاملات میں ہم حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ ہمیشہ کی طرح مکمل اور بھر پور تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔
بعد ازاں وزارتِ تعلیم میں ہونے والے مذاکرات میں ہم نے سب سے پہلے 6 مئی کے معاہدوں پر عملدرآمد پر زور دیا اور یہ بھی وضاحت طلب کی کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دینی مدارس کے جملہ معاملات ایک مکمل پیکج کی صورت میں ہیں جب تک جملہ امور پر مشتمل پیکج طے نہیں ہوجاتا اس وقت تک جزوی طورپر کسی بات پر عمل درآمد نہیں ہوگا اس پر وزیرتعلیم نے اس تاثر کی نفی کی اور کہا کہ ایسا کوئی پیکج یا ایسی کوئی بات نہیں …ہم نے کہا کہ اب صرف قول نہیں بلکہ عمل چاہیے ،محض بیان سے بات نہیں بنے گی بلکہ عملی اقدام کا تقاضہ ہے ۔ اہل مدارس ہم سے پوچھتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ اور حاصل کیا ہے ؟ اس لیے ان مذاکرات کے اثرات گراؤنڈ پر نظر آنے چاہیں ۔ اس کے بعدہم نے ایک ایک کرکے 6 مئی کے معاہدے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا اور طے پایا کہ رجسٹریشن کا معاملہ زیادہ سے زیادہ سہل اور آسان بنایا جائے گا ،کسی نئے ضابطے یا فارم کے تحت نہیں کسی قسم کی اضافی شرط کے بغیر دینی مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور ملک بھر میں 12 ریجنل آفس قائم کیے جائیں گے جہاں دینی مدارس کی رجسٹریشن ہوگی …ہم نے کہا کہ ہم ہر ریجنل آفس کے ساتھ رابطوں اور معاملات کے لیے کو آرڈینیٹر مقر ر کریں گے تاکہ اہل مدارس کے لیے آسانی ہو ۔واضح رہے کہ طے شدہ طریقہ کار اور اتفاق رائے سے تیا ر کیا گیا جو فارم ہے اسی کے مطابق رجسٹریشن ہوگی فرق صرف اتنا ہوگا کہ پہلے انڈسٹریز کے تحت رجسٹریشن ہوتی تھی جبکہ اب وزارتِ تعلیم میں رجسٹریشن ہوگی …اسی طرح بینک اکاؤنٹس کے معاملے میں وزیرِ تعلیم کو متوجہ کیا کہ اعلی سطحی اجلاسوں میں تو طے پایا ہے لیکن شاید ابھی تک تمام بینکوں اور برانچوں کو واضح ہدایات موصول نہیں ہوئیں اس لیے تاحال دینی مدارس کے اکاؤنٹس کھولنے پرغیر اعلانیہ پابندی ہے ۔اسی طرح یہ بھی کہا کہ مدارس پر چھاپے ،کوائف طلبی کے نام پر ہراساں کرنے کا سلسلہ جوں کاتوں ہے اگر یہ سب ختم نہیں ہوتا تو مذاکرات کی یہ مشق لا حاصل ہے اس لیے باہمی اعتماد سازی کے لیے اعتماد کاماحول بنایاجائے۔ اس پر وزیر ِتعلیم نے جملہ طے شدہ امور پر فی الفور عمل درآمد کی یقین دہانی کروائی اور 17 جولائی کے معاہدے کی سب سے پہلی شق ہی یہ لکھی گئی کہ 6 مئی کے مذاکرات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔
دوسر امعاملہ یہ زیر بحث آیا کہ بعض حلقوں میں یہ تجویز زیر بحث یا زیر غور تھی کہ دینی مدارس کے ا متحانات وزارتِ تعلیم لے گی اور وزارت تعلیم ہی ڈگری جاری کرے گی اس پر تمام تنظیمات نے دوٹوک موقف اختیار کیا کہ دینی مضامین اور درس نظامی کے نصاب کے امتحانات تو دینی مدارس اور وفاق حسب سابق لیں گے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی یہی بات چیف آف آرمی اسٹاف کی خدمت میں پیش کی گئی عرضداشت میں بھی واضح طور لکھی اورکہی گئی تھی …الحمداللہ وزیر تعلیم کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں دینی مدارس کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے یہ قرار پایا کہ دینی مضامین کا امتحان حسب سابق دینی مدارس کے وفاق لیں گے تاہم یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ عصری مضامین یعنی میڑک میں انگلش ،ریاضی ،اردو اور مطالعہ پاکستان جبکہ انٹرمیڈیٹ میں انگلش ،اردو اور مطالعہ پاکستان کا امتحان فیڈرل بورڈ لے اور دینی مضامین کے نمبروں کو شامل کرکے نتیجہ اور ڈگری جاری کرے اس تجویز پر ابھی کوئی بات فائنل نہیں ہوئی اسی طرح اس بات پر اصولی اتفاق تو پایا گیا کہ عصری مضامین کو شامل نصاب کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ دینی مدارس اور مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی اپنی ضرورت ہے لیکن یہ سب فی الفور نہیں ہوگا بلکہ بتدریج ہوگااور کیسے ہوگا یہ معاملہ ابھی تک حتمی طور پر طے نہیں پایابلکہ تمام وفاقوں نے اپنی اپنی مجالس عاملہ میں اس تجویز کو پیش کرکے ان کی آراء اور فیصلوں کی روشنی میں عید الاضحی کے بعد دوبارہ نشست کرنے پر اتفاق کیا …واضح رہے کہ یہ بات فی الحال محض تجویز کے درجے میں ہے اور اس کا انحصار دینی مدارس کے نمائندہ حضرات اور سرکردہ اہل علم پر مشتمل وفاقوں کی مجالس عاملہ کے فیصلے پر ہے۔ یہ بات سب حضرات کے پیش نظر رہے کہ دینی مدارس کے نمائندہ حضرات تمام مدارس کی محض نمائندگی کرتے ہیں لیکن کبھی بھی اپنے مینڈیٹ اور اختیارات سے نہ تجاوز کرتے ہیں اور نہ ہی تجاوز کرسکتے ہیں اس سے قبل بھی ہر معاملے کو ہمیشہ تمام دینی مدارس کے سامنے رکھا گیا… مجالس عاملہ اور مجالس شوری کی منظوری کے بغیر کبھی بھی کوئی جوہری فیصلہ نہ اس سے قبل ہوا اور نہ ہی آئندہ ممکن ہے… اسی طرح عصری مضامین اور نظام امتحان اور ڈگریوں کے اجراء کے معاملے میں ہمارے ہاں بلاشبہ مختلف آراء وافکار پائے جاتے ہیں اور ہر نظریے کے حامل افراد کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں اس لیے خوب سوچ بچار اور بحث وتمحیص کے بعد وہی فیصلہ کیا جائے گا جو دینی مدارس کے مقاصد سے اہم آہنگ، نئی نسل کی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہوگا اور خاص طور پر دینی ترجیحات کو ہر قیمت پر مقدم رکھا جائے گا ۔
ہم یہاں 17 جولائی کی بات چیت کے نتیجے میں طے شدہ امور اور معاہدے کی مکمل تفصیل درج کررہے ہیں جسے ملاحظہ فرماکر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا کیا امور طے پائے ؟
وفاقی وزارت تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس کے مابین درج ذیل امور پر اتفاق ہوا
1 :یہ کہ 6مئی 2019 ء کے معاہدے پر غیر مشروط لفظاً ومعناً جلد عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔
2 :دینی واسلامی علوم کی تعلیم ،نصاب کا تعین، امتحان کا انعقاد ونتائج کا اعلان حسب سابق تنظیمات مدارس کریں گی، اپنی اسناد وشہادات جاری کریں گی ۔
3 :تجویز دی گئی کہ میڑک اور انٹر میڈیٹ سطح کے عصری مضامین کا امتحان فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن لے گا اور اسلامی وعصری مضامین میں حاصل کردہ مجموعی نمبروں پر سند جاری کرے گا ۔
4 :آئندہ اجلاس ان شاء اللہ سوموار 19 اگست کو وفاقی وزارت تعلیم میں ہوگا۔
5 :اس عرصے میں پانچوں تنظیمات اپنی اپنی مجالس عاملہ سے اس کی منظوری لیں گے ۔‘‘
ہماری دانست میں تاحال دینی مدارس کے حوالے سے جملہ امور پر زبانی ،کلامی اور تحریری طور پر جو پیش رفت ہورہی ہے وہ درست سمت پر جارہی ہے اگر چہ اصل چیز عمل درآمد ہے جس کا سب کی طرح ہمیں بھی انتظار ہے ۔ تاحال کوئی چیز قابل تشویش نہیں ۔اس موقع پر ہم اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک بھر کے دینی مدارس ،دینی مدارس کے وابستگان، تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے محب وطن اور اسلام پسند پاکستانیوں کی دینی مدارس کے بارے میں حساسیت ،فکرمندی ،شعور ،بیداری ،بیدارمغزی بلاشبہ پاکستانی قوم کا خاصہ اور ہمارے لیے اثاثہ اور سرمایہ ہے ۔یہ بیداری، حساسیت اور اجتماعیت یو نہی بر قرار رہنی چاہیے اورتمام اسٹیک ہولڈرز کو دینی ترجیحات ،ملکی مفاد، نسل نو کی ضروریات اور وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیک نیتی سے درست فیصلے کرنے چاہیں اوراپنا سفر جاری رکھنا چاہیے …اللہ ہمار احامی وناصر ہو۔
تازہ ترین