• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (انصار عباسی) نیب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، جو ایل این جی ٹرمینل کیس میں شاہد عباسی کے بعد نیب کا دوسرا ٹارگٹ ہیں، کے جوابات بھینس کے آگے بین بجانے جیسے ہیں کیونکہ بیورو کے اقدامات سے ثابت ہو گیا ہے کہ ادارے کو وہ بات سمجھ نہیں آ رہی جو مفتاح سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ نیب کے سوالات اور مفتاح کے جوابات کا جائزہ لینے پر ایک مرتبہ پھر یہ تاثر گہرا ہو جاتا ہے کہ نیب کے پاس اس موضوع کی تکنیکی معلومات کا سنگین فقدان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیب ایسے فیصلوں کے حوالے سے مفتاح کے پیچھے پڑا ہے جن کے جو ان کے آنے سے پہلے لیے گئے تھے یا بورڈ کے آزاد ارکان کی جانب سے کیے گئے تھے، اور اس میں قانون و قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور معاہدہ بھی انتہائی حد تک بہترین نرخوں پر کیا گیا تھا۔ مفتاح اسماعیل انتہائی پڑھے لکھے شخص ہیں جن کے پاس امریکی ریاست پنسلوانیا کی معروف یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بی ایس (1988ء) اور وارٹن اسکول آف بزنس سے پبلک فنانس اور پولیٹیکل اکانومی میں پی ایچ ڈی (1990ء) کی ڈگری ہے۔ شاید کئی لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوگا لیکن اپنے خاندان کے بزنس کو جوائن کرنے سے قبل وہ 1992-93ء میں ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے آئی ایم ایف میں کام کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیورو کے سوالنامے کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی طرح، مفتاح کو بھی نیب نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا خلاف ورزی کی ہے یا ان پر کرپشن، کک بیکس یا کمیشن کا کوئی کیس ہے۔ شاہد عباسی کی طرح، نیب نے مفتاح سے بھی کنسلٹنٹ کے تقرر کا سوال کیا، جسے در اصل یو ایس ایڈ نے اس وقت مقرر کیا (اور معاوضہ دیا) جب مفتاح اسماعیل نے سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کو جوائن تک نہیں کیا تھا۔ بیچارے مفتاح نے کئی مرتبہ واضح کیا کہ ان کا کنسلٹنٹ کے تقرر سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اس معاملے میں شامل ہی نہیں لیکن نیب نے اس موضوع پر سوالات ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ مفتاح سے پوچھے گئے زیادہ تر سوالات ایسے تھے جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے، نیب کے سوالات (سوائے ان کے جو متعلقہ نہیں ہیں) اور مفتاح کے جوابات کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ سوال: 2013ء میں ایل این جی ٹرمینل میں شمولیت کے سوا، کیا آپ QED کنسلٹنٹس کی ایس ایس جی سی کے کسی پروجیکٹ میں شمولیت سے واقف ہیں؟ جواب: اول تو یہ کہ جہاں تک ایل این جی ٹرمینل کا تعلق ہے تو QED کنسلٹنٹ کی خدمات یو ایس ایڈ نے ایل این جی کی درآمد کے حوالے سے اپنی تکنیکی معاونت کیلئے حاصل کی تھیں۔ دوسرے یہ کہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز (آئی ایس جی ایس) نے ایس ایس جی سی کی طرف سے ایل این جی ٹرمینل کیلئے ٹینڈر کا کام کیا۔ لہٰذا QED کنسلٹنٹ کو ایس ایس جی سی نے کبھی انگیج نہیں کیا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ QED کنسلٹنٹ نے 2012ء میں ٹینڈرنگ پراسیس کے بعد ایس ایس جی سی کے ساتھ ایک ایل او آئی پر دستخط کیے تھے جس میں انتظامیہ نے بتایا کہ انہوں نے کم سے کم بولی دی تھی، لیکن یہ سب بورڈ میں میری شمولیت سے قبل ہوا تھا۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا کوئی علم نہیں۔ جب میں نے بورڈ میں شمولیت اختیار کی تو QED کنسلٹنٹ کی خدمات یو ایس ایڈ والوں نے اپنی تکنیکی معاونت کے پروگرام کیلئے حاصل کیں، اور آئی ایس جی ایس والوں نے ٹینڈرنگ کا کام کیا۔ سوال: QED کنسلٹنٹ کے متعلق آپ کیا رینکنگ کریں گے؟ ٹھوس ریکارڈ کے ساتھ وجوہات بتائیں؟ جہاں تک ان کی رینکنگ اور ریکارڈ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یو ایس ایڈ والے موزوں ترین افراد ہوں گے کیونکہ انہوں نے QED کنسلٹنٹ کو منتخب کیا تھا اور ساتھ ہی آئی ایس جی ایس والے بھی جنہوں نے ایس ایس جی سی کی طرف سے ٹینڈرنگ کا عمل مکمل کیا۔ ذاتی طور پر میری QED والوں سے رابطہ کاری بہت محدود تھی، ان کی زیادہ تر بات چیت آئی ایس جی ایس والوں کے ساتھ تھی جنہوں نے ٹینڈر کا کام کیا تھا۔ ایک شخص جس سے میری بورڈ میں ملاقات ہوئی تھی اس کا نام فلپ نٹمن تھا جو بورڈ کو بریفنگ دینے آیا تھا اور بظاہر اس کے پاس بہت معلومات تھیں۔ سوال: کیا آپ نے کبھی انٹرنیشنل کنسلٹنٹ کو مسابقتی بولی کے ذریعے منتخب کرنے کی بجائے QED کنسلٹنٹ کو ایل این جی ٹرمینل ون کی بولی کیلئے انٹرنیشنل کنسلٹنٹ منتخب کرنے کی وجوہات پر سوالات اٹھائے؟ جواب: جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، یو ایس ایڈ تکنیکی ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہا تھا اور اس ادارے نے ہی QED کو تکنیکی کنسلٹنٹ کے طور پر منتخب کیا تھا۔ ٹینڈرنگ کا کام آئی ایس جی ایس نے کیا۔ مزید برآں، یہ سب بورڈ میں میری شمولیت سے قبل ہوا تھا۔ لہٰذا، اس سوال کا جواب دینے کیلئے میں موزوں شخص نہیں ہوں کیونکہ میرے پاس ذاتی حیثیت سے اس کی کوئی معلومات نہیں۔ کیا QED کنسلٹنٹ کو پی پی آر اے قواعد کے مطابق منتخب کیا گیا تھا؟ متعلقہ قواعد کا حوالہ پیش کریں۔ جواب: جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، ٹینڈرنگ کا کام آئی ایس جی ایس نے کیا تھا۔ مزید برآں، QED کنسلٹنٹ کو یو ایس ایڈ نے اپنی ترقیاتی امدادی پروجیکٹ کے طور پر منتخب کیا تھا۔ یہ سب بورڈ میں میری شمولیت سے قبل ہوا تھا۔ لہٰذا، اس سوال کا جواب دینے کیلئے میں موزوں شخص نہیں ہوں کیونکہ میرے پاس ذاتی حیثیت سے اس کی کوئی معلومات نہیں۔ سوال: پی پی آر اے قواعد کے مطابق بولی اور نیلامی کے ذریعے بین الاقوامی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے یو ایس ایڈ کے ذریعے QED کنسلٹنٹ کو منتخب کرنے کے کیا فوائد حاصل ہوئے؟ جواب: جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں، میں اس معاملے پر تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ ایس ایس جی سی نے براہِ راست QED یا یو ایس ایڈ سے رابطہ نہیں کیا گیا۔ ٹینڈرنگ کا کام آئی ایس جی ایس نے کیا جبکہ انہیں تکنیکی معاونت یو ایس ایڈ نے فراہم کی جس نے QED کنسلٹنٹ کو منتخب کیا۔ یہ سب بورڈ میں میری شمولیت سے قبل ہوا تھا۔ سوال: کیا آپ نے کبھی ایل این ٹرمینل ون کے قیام کیلئے نیلامی کا پورا عمل ایس ایس جی سی ایل کی بجائے آئی ایس جی ایس کو دینے پر سوالات اٹھائے، حالانکہ ایس ایس جی سی ایل پروکیورنگ ایجنسی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ QED کا پہلے بھی پروکیورمنٹ کے معاملے پر ایس ایس جی سی کے ساتھ معاملہ ہو چکا ہے؟ جواب: مجھے نہیں معلوم کہ اس معاملے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں کیونکہ یہ سب بورڈ میں میری شمولی سے قبل ہوا تھا۔ یہ حکومت پاکستان کا فیصلہ تھا جو میری جوائننگ سے قبل ہوا تھا۔ سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ 2013ء سے قبل ایل این جی کی ناکامی کا ذمہ دار ایس ایس جی سی ایل تھا؟ اگر ہاں، تو مختصراً حالات و واقعات کا ذکر کریں۔ جواب: 2013ء سے قبل، ماضی میں مختلف اوقات میں ایل این جی درآمد کرنے کی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہیں ہوئیں۔ میرے خیال میں اس ناکامی کی وجہ ہو سکتی ہے کہ ایل این جی کو بنڈل پروجیکٹ (سب کام ایک ساتھ) کے تحت درآمد کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں (یعنی کہ ایل این جی سپلائی کنٹریکٹ، ٹرمینل سیٹ اپ، ساتھ ہی مارکیٹنگ) اور یہی وجہ ہے کہ یہ پروجیکٹس کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک ہی موقع پر بڑا اور پیچیدہ کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایل این جی ٹرمینل کے قیام اور ایل این جی کے حصول کیلئے بولی / نیلامی کے حوالے سے ایس ایس جی سی ایل مکمل طور پر نا اہل / نا تجربہ کار تھا، حقیقت کی بات یہ ہے کہ ایس ایس جی سی ایل / پی ایس او نے آئل / ایل پی جی ریفائنریاں اور گیس پائپ لائنیں بچھانے کیلئے بہتر نتائج فراہم کیے ہیں۔ جواب: میں جانتا ہوں کہ ایس ایس جی سی نے ماضی میں کئی مواقع پر ایل این جی ٹرمینل لگانے کی کوششیں کیں جو ثمر آور ثابت نہیں ہوئیں۔ اس مرتبہ حکومت نے یہ پراسیس آئی ایس جی ایس کے توسط سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا لیکن اس میں آئی ایس جی ایس کے ساتھ ایس ایس جی سی کی انتظامیہ بھی شامل تھی۔ تاہم، اس نے بھی پروجیکٹ پر دوبارہ کوشش کی اور حکمت عملی میں تبدیلی کی (یعنی کہ سب کام ایک ساتھ کرنے کی بجائے ٹرمینل کو علیحدہ علیحدہ قائم کیا جائے)۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کوشش کامیاب رہی۔ سوال: کیا ای ای ٹی پی ایل کو دیا گیا ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ پی پی آر اے قواعد کے مطابق تھا؟ کیا آپ نے چیئرمین ایس ایس جی سی بورڈ / بطور رکن اس بات کی تسلی کر لی تھی؟ جواب: چونکہ آئی ایس جی ایس ٹینڈرنگ کا کام کر رہی تھی، بنیادی طور پر ان کا کام اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ہر مرحلے پر پی پی آر کے قواعد پر عمل کیا جا رہا ہے۔ دوسرے، بورڈ انتظامیہ کی سفارشات اور مشوروں پر عمل کرتا ہے۔ میں اور دیگر بورڈ ممبران نے خصوصی طور پر ایس ایس جی سی کے ایم ڈی اور آئی ایس جی ایس کے ایم ڈی سے سوال کیا تھا کہ کیا پی پی آر اے کے تمام مطلوبہ معیارات کے مطابق کام کیا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہاں۔ مزید برآں، کئی مواقع پر یو ایس ایڈ کے تکنیکی ایڈوائزر یعنی QED کنسلٹنٹ نے آئی ایس جی ایس کی ہدایت پر رپورٹس تیار کرکے ایس ایس جی سی کے بورڈ کو پیش کیں، اور ان رپورٹس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پی پی آر اے کے قواعد پر عمل ہوا ہے۔ یہ رپورٹس مختلف وکلاء کی قانونی آراء کی بنیاد پر تیار کی گئی تھیں۔ 5؍ نومبر 2013ء اور 12؍ نومبر 2013ء کی ان رپورٹس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ ان سفارشات، مشوروں اور آراء کی روشنی میں بورڈ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پی پی آر اے کے قواعد پر عمل کیا گیا تھا۔ سوال: کیا آپ جانتے ہیں کہ QED کنسلٹنٹ نے 2012ء میں تکنیکی بنیادوں پر ای وی ٹی ایل / اینگرو کو مسترد کر دیا تھا جبکہ 2013-14ء میں تکنیکی بنیادوں پر ای ای ٹی پی ایل کو اہل قرار دیا تھا؟ کیسے؟ جواب: مجھے اس کا علم نہیں۔ تاہم، اس میں کوئی بات غیر معمولی نہیں کیونکہ ان کی نا اہلی اُس مخصوص ٹینڈر میں موجود حقائق اور اس مخصوص بولی کی بنیاد پر کی گئی ہوگی۔ نا اہلیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس مخصوص ٹینڈر کی کسی ایک شرط پر عمل نہیں کیا گیا ہوگا۔ نتیجتاً اگلے ٹینڈر میں اینگرو والوں نے اپنی بولی کو بہتر بنا کر پیش کیا ہوگا اور وہ کامیاب رہے۔ باوجود اس کے، یہ محض قیاس آرائی ہے۔ میرے پاس اینگرو کی سابقہ نا اہلیت کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں۔ سوال: بولی دینے والے دیگر اداروں کو نا اہل قرار دے کر ای ای ٹی پی ایل کو ایل این جی ٹرمینل ون کیلئے منتخب کیا جانا قومی مفاد ہے؟ جواب: قانونی پہلو دیکھیں تو میری سوجھ بوجھ یہ کہتی ہے کہ پی پی آر اے قواعد اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ دیگر بولیاں ناکام ہونے کے باوجود کسی ایک بولی پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے اگر نظریاتی نقطہ نظر دیکھا جائے تو ایک سے زیادہ بولیاں بہتر سمجھی جاتی ہیں کیونکہ ان میں مسابقتی قیمت پیدا ہوتی ہے۔ قیمتیں ایجاد کرنے کیلئے نیلامی / بولی کا عمل ضروری ہے۔ جتنے زیادہ بولی دہندگان ہوں گے اتنا اچھا ہے، لیکن اگر بولی دہندگان دو ہوں تو اقتصادی نظریہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں مسابقتی قیمت ملتی ہے۔ بولی کے موقع پر کوئی فریق نہیں جانتا کہ باقی دیگر کو اہل قرار دیا جائے گا یا نا اہل اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہترین قیمت پیش کریں بصورت دیگر وہ ٹھیکہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ سوال: ایل این جی ٹرمینل کے قیام کیلئے بین الاقوامی بولی دہندگان کو شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ جواب: ٹینڈر کا کام آئی ایس جی ایس نے کیا تھا اور یہ سب میری بورڈ میں شمولیت سے قبل ہوا تھا۔ لیکن جہاں تک میری سوجھ بوجھ ہے اس کے مطابق انٹرنیشنل بولی دہندگان کو نیلامی کے عمل میں شرکت کی اجازت تھی۔ سوال: کیا آپ جانتے ہیں کہ ایس ایس جی سی کے پاس پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) پر اپنا ایل پی جی ٹرمینل موجود تھا؟ کیا آپ نے کبھی اُن وجوہات کا پوچھا کہ ریٹروفٹنگ کے بعد اینگرو کا ٹرمینل قبول کرنے کی بجائے پہلے سے موجود ٹرمینل کو فعال کیوں نہیں کیا جا رہا یا اس کی ریٹرو فٹنگ کیوں نہیں کی جا رہی؟ جواب: جس وقت ہم اینگرو کی بولی پر غور کر رہے تھے، مجھے انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ ایس ایس جی سی کا پہلے ہی ایل پی جی ٹرمینل قائم ہے۔ تاہم، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں ٹرمینل کی ریٹرو فٹنگ کیلئے ٹینڈر جاری کیا گیا تھا جو ناکام رہا تھا۔ آئی ایس جی ایس کی ہدایت پر QED کنسلٹنٹ کی جانب سے تیار کردہ کمرشل رپورٹ میں اینگرو کی تجاویز اور 4GasAsia کی ٹرمینل کی ریٹرو فٹنگ کے متعلق سابقہ تجاویز کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے ذریعے، ڈائریکٹرز کو آگاہ کیا گیا کہ فور گیس ایشیا کی جانب سے موصول ہونے والی بولی اینگرو کے مقابلے میں ری گیسی فکیشن کے ایک ایم ایم سی ایف ڈی کی قیمت سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی کمرشل تضادات تھے۔ فور گیس ایشیا 30؍ سال پرانی چیز کی پیشکش کر رہا تھا جبکہ اینگرو نے 9؍ سال پرانے ایف ایس آر یو کی پیشکش کی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایس ایس جی سی کا ایل پی جی ریٹرو فٹنگ پروجیکٹ تکنیکی اور مالی لحاظ سے غیر موزوں تھا جس سے پاکستان کو اس کے واحد وقف شدہ ایل پی جی امپورٹ ٹرمینل کا نقصان اٹھانا پڑتا۔ قیمتوں کا فرق بھی بہت زیادہ تھا۔ فور گیس ایشیا کی پیشکش 0.78؍ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی جبکہ اینگرو کی پیشکش 0.66؍ ڈالرز فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔ اس کے علاوہ بھی دیکھیں تو پرانے ٹرمینل کو تبدیل کرنے کے نتیجے میں ایس ایس جی سی کا ایک موجود اثاثہ کم ہو جاتا۔ اور کمرشل رپورٹ کی بنیاد پر میری سوجھ بوجھ یہ کہتی ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں پیسے کی بچت نہیں ہوتی بلکہ یہ زیادہ مہنگا ثابت ہوتا۔ سوال: آپ کے دور میں ایل این جی کی سرگرمیاں کیا تھیں اور ان میں آپ نے کیا کردار ادا کیا؟ جواب: جب میں نے بورڈ میں شمولیت اختیار کی، ملک بحران کا شکار تھا کیونکہ پنجاب میں گیس کی زبردست قلت تھی۔ چونکہ ہماری اپنی گیس فیلڈز کے ذخائر کم ہو رہے تھے اسلئے یہ قلت پاکستان بھر میں پھیلنے کا امکان تھا۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے دور میں، کئی ناکام کوششوں کے بعد، ایس ایس جی سی پہلی مرتبہ ایل این جی ٹرمینل لگانے میں کامیاب رہی، اور وہ بھی حکومت پاکستان کی کسی بھی ضمانت یا سرمایہ کاری کے بغیر۔ ہم نے کراچی سے ساوان تک گیس پائپ لائن بچھائی تاکہ ملک کے بالائی حصوں تک گیس فراہم کی جا سکے۔ اگرچہ یہ تمام کنٹری بیوشنز کرنے کے معاملے میں؛ میں واحد رکن تھا، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی چھوٹی سی کوشش کے ذریعے بھرپور مدد پیش کی۔ سوال: ایل ایس اے کے تحت مختلف مد میں اینگرو کو ادا کی جانے والی مختلف رقوم کی منظوری کس نے دی؟ بورڈ آف ایس ایس جی سی ایل کے حوالے سے دیکھیں تو اس معاملے میں آپ کا کیا کردار رہا؟ جواب: قیمتوں کا تعین آئی ایس جی ایس کی جانب سے منعقد کیے گئے بڈنگ پراسیس کے ذریعے طے کیا گیا۔ ایس ایس جی سی نے آئی ایس جی ایس کے بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ان قیمتوں کی منظوری دی۔ بورڈ کو QED کنسلٹنٹ کی 23؍ جنوری 2013ء کی رپورٹ کے توسط سے آگاہ کیا گیا کہ ابتدائی ایل ایس اے اور پہلے جمع کرائی گئی تکنیکی تجاویز میں کوئی نمایاں یا بڑی تبدیلی نہیں ہے۔ ایک وکیل نے بھی اس معاملے میں قانونی رائے پیش کی، جس کا حوالہ QED کی رپورٹ میں دیا گیا تھا۔ ایس ایس جی سی کے بورڈ کی فیصلہ سازی میں میرا کردار یہ تھا کہ میں چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز تھا۔ لہٰذا میں نے بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ تاہم، بورڈ کے تمام فیصلے ووٹوں کی بنیاد پر کیے جاتے تھے، اور ہر ڈائریکٹر کی طرح میرا بھی ایک ہی ووٹ ہوتا تھا۔ سوال: یہ بتائیں کہ ایل این جی ٹرمینل ون کیلئے کیپسٹی چارجز کی مد میں پہلے سال کیلئے یومیہ 2؍ لاکھ 72؍ ہزار 479؍ ڈالرز جبکہ باقی 14؍ سال کیلئے یومیہ 2؍ لاکھ 28؍ ہزار 16؍ ڈالرز وصول کرنے کی وجہ کیا تھی؟ اس رقم کا کیسے تقسیم (بریک ڈائون) کریں گے؟ جواب: کمرشل ریٹس کا تعین بولی کے عمل کے ذریعے طے کیا گیا تھا جو آئی ایس جی ایس نے کرائی تھی۔ ایس ایس جی سی نے آئی ایس جی ایس کے بورڈ کی سفارشات اور یو ایس ایڈ کے منتخب کردہ کیو ای ڈی کنسلٹنٹ کی تیار کردہ رپورٹ کی روشنی میں ان نرخوں کی منظوری دی۔ جیسا بوڈ نے اسے دیکھا کہ جس وقت ہمیں 200؍ ای م ایم سی ایف ڈی یا 1.5؍ ملین ٹن سالانہ کو گیسی فائی کرنے کا ٹھیکہ ملا تو پہلے سال کیلئے فی ایم ایم سی ایف کے نرخ 1.24؍ ڈالرز تھے جبکہ آئندہ دو سال کیلئے جب ہم نے مقدار دوگنا کردی تو یہ نرخ 0.66؍ ڈالرز تھے۔ بعد میں جب ہماری پائپ لائن بچھ گئی اور ہم 600؍ ام ایم سی ایف ڈی یا ساڑھے چار ملین ٹن گیس کی ترسیل کر سکتے تھے یہ قیمتیں / ریٹس کم ہو کر 0.48؍ ڈالرز ہوگئے۔ یہ دنیا میں سستے ترین نرخ ہیں۔ ان نرخوں کا بھارت میں نرخوں (Dahej) کے ساتھ تقابل کیا جائے تو یہ 10؍ ملین ٹن سالانہ کیلئے 0.58؍ ڈالرز اور بھارت (کوچی) میں پانچ ایم ٹی پی اے کیلئے ایک ڈالر جبکہ بنگلادیش میں ساڑھے تین ایم پی ٹی اے کیلئے 0.48؍ ڈالرز ہیں۔ انڈونیشیا، چین، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں یہ نرخ ان سے بھی زیادہ ہیں۔ خالصتاً پس منظر کی بات کریں تو کیپسٹی چارجز انفرا اسٹرکچر کے کئی پروجیکٹس میں ٹیرف کا معیاری حصہ ہوتے ہیں۔ یہ خصوصاً اس وقت ہوتا ہے جب خریدار ایک ہو (یعنی اس کیس میں ایس ایس جی سی یا واپڈا ہے جیسا کہ آئی پی پیز کے کیس میں ہوتا ہے) اور سرمایہ کار اپنی اضافی صلاحیت کو کہیں اور استعمال نہیں کر پاتا۔ کوئی بھی سرمایہ کار اس وقت تک 100؍ ملین ڈالرز کا سرمایہ نہیں لگائے گا جب تک اسے یہ ٹیرف کے کچھ حصے کا یقین نہ ہو جائے۔ یہ خدمات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی قیمت ہوتی ہے۔ یہ آئی پی پیز کو کی جانے والی کیپسٹی پیمنٹ، ٹیلی کام کمپنیوں کے لائن رینٹ اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے فکسڈ چارجز جیسی ہی ہوتی ہیں۔ سوال: کیا ایس ایس جی سی بورڈ نے لیز کیلئے ایف ایس آر یو کی گیس قیمتوں کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں چیک کرانے کی کوشش کی؟ جواب: QED کنسلٹنٹ نے عالمی مارکیٹ میں یہ نرخ چیک کرنے کی مشق کی، اور اس کی تفصیلات بورڈ کو پیش کی گئی رپورٹ میں درج ہیں۔ بورڈ کو بتایا گیا کہ مارکیٹ کے تجزیے کے مطابق، جن نرخوں کا کوٹیشن دیا گیا تھا وہ معقول ہیں۔ سوال: ایس ایس جی سی بورڈ نے پی ایس او سے اطمینان کے خط کو مشروط کرتے ہوئے ایل این جی فروخت کے معاہدے (ایل ایس اے) کی منظوری دی، جو اب تک موصول نہیں ہوا ۔۔ ایس ایس جی سی بورڈ کی لازمی شرط کو پورا کیے بغیر ایل این جی ٹرمینل ون کو فعال بنانے کی اجازت دینے کی وجوہات کیا تھیں؟ جواب: ایس ایس جی سی نے 28؍ جنوری 2014ء کو اپنے اجلاس میں چار شرائط پر ایل ایس اے کی منظوری دی۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ پی ایس او اطمینان کا ایک خط جاری کرے جس میں یہ بات شامل ہو کہ ایل این جی کی درآمد میں ناکامی کی صورت میں ایس ایس جی سی کو کیپسٹی پیمنٹ کا بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ پی ایس او نے ایس ایس جی سی کو 28؍ اپریل 2014ء کو اطمینان کا خط (لیٹرآف کمفرٹ) جاری کیا جس میں انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ قطر گیس کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایل ایس اے کی شرائط ذہن میں رکھی جائیں گی۔ 28؍ اپریل 2014ء سے پی ایس او کی جانب سے یہ خط جاری کیے جانے کے دن تک اور 30؍ اپریل 2014ء کو معاہدے پر دستخط ہونے تک کوئی بورڈ میٹنگ نہیں ہوئی تھی۔ ممکنہ طور پر انتظامیہ نے یہ سمجھ لیا کہ اس خط بورڈ کی درخواست کے عین مطابق تھا۔ سوال: سہ فریقی معاہدے کی پوزیشن کیا تھی اور اس پر کیوں دستخط نہیں ہوئے؟ جواب: مذکورہ معاہدے پر 6؍ جون 2016ء کو دستخط ہوئے تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاہدے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مذاکرات پر طویل وقت صرف ہوا، اور اس کے علاوہ، تین سرکاری ادارے تھے جن میں سے ہر ایک گردشی قرضوں میں الجھا ہوا تھا اور اپنے اپنے نقدی بہائو (کیش فلوز) کے مسائل سے نبرد آزما تھا، جبکہ وزارت خود بھی ان تینوں اداروں کے درمیان ڈیڈلاک ختم کرنے میں مصروف تھی۔ لہٰذا، تاخیر ناگزیر تھی۔ سوال: ایل این جی ٹرمینل ون کو شروع کرنے کی تاریخ 31؍ مارچ 2014ء کس نے طے کی اور ایس ایس جی سی ایل نے ایل این جی کی درآمد اور آر ایل این جی کے استعمال کے تناظر میں اس ڈیڈلائن پر عمل کو یقینی بنانے اور آر ایل این جی کی ٹرانسپورٹیشن کیلئے کیا اقدامات کیے تھے؟ جواب: مجھے نہیں معلوم کہ کون سی تاریخ کو ’’شروع کرنے کی تاریخ‘‘ (Commencement Date) کہا جا رہا ہے۔ دستخط کی تاریخ 30؍ اپریل 2014ء تھی اور ایل ایس اے کی شق نمبر 8.1؍ کے مطابق طے شدہ شروعات کی کمرشل تاریخ یکم نومبر 2014ء تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کس نے یہ تاریخ طے کی تھی۔ آر ایل این جی کی ٹرانسپورٹیشن کیلئے انفرا اسٹرکچر پہلے ہی ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل کی پائپ لائنوں کی صورت میں موجود تھا۔ جہاں تک دیگر انتظامات کا تعلق ہے تو ایل این جی کی امپورٹ کیلئے مذاکرات پی ایس او کی ذمہ داری تھے، اور یہ مارکیٹنگ کا ذمہ ایس این جی پی ایل کا تھا۔ سوال: کیپسٹی چارجز / ری گیسی فکیشن چارجز کے حوالے سے ای ای ٹی پی ایل کی جانب سے ایس ایس جی سی کو میسرز پاک عرب فرٹیلائزرس کی کچھ شروعاتی کارگوز کا بتائیں؟ یہ چارجز کس نے اور کیسے ادا کیں اور ریکوری کب ہوئی؟ جواب: مجھے ذاتی طور پر اس معاملے کا علم نہیں۔ تاہم، چونکہ ای ای ٹی پی ایل کا کنٹریکٹ ایس ایس جی سی کے ساتھ تھا، اسلئے ایس ایس جی سی پر یقینی طور پر کنٹریکٹ کے تحت یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ری گیسی فکیشن کے تمام چارجز ادا کرے۔ سہ فریقی معاہدے پر مذاکرات مکمل اور دستخط ہونے سے قبل ہی ابتدائی چند کارگوز پہنچ گئیں اور مجھے بتایا گیا تھا کہ پاک عرب فرٹیلائزرس اور ایس ایس جی سی کے درمیان کوئی تنازع ہے کیونکہ اوگرا نے اب تک قابل عمل ٹیرف کا اعلان نہیں کیا تھا۔ لیکن مجھے اس معاملے کی تفصیلات کا علم نہیں۔ تاہم، مجھے بتایا گیا کہ یہ معاملہ اب حل ہو گیا ہے اور پاک عرب والے ایس ایس جی سی کو اقساط کی شکل میں رقم ادا کر رہے ہیں اور صرف چار قسطیں باقی رہ گئی ہیں۔ سوال: آر ایل این جی کی ٹرانسپورٹیشن اور مقامی گیس کی ٹرانسپورٹیشن ایس ایس جی سی ایل کی ایک ہی پائپ لائنوں سے ہوتی تھی؟ گیس پریشر کی وجہ سے پائپ لائنوں اور کنوئوں پر ان کے اثرات کیا تھے کیونکہ آر ایل این جی اور سی این جی مختلف درجہ حرارت پر گرم ہوتی ہیں؟ جواب: مجھے نہیں معلوم کہ پائپ لائنوں یا کنوئوں کی صحت پر کوئی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر اس میں کوئی تکنیکی مسئلہ تھا تو مجھے کسی تکنیکی معلومات رکھنے والے عہدیدار یا انتظامیہ نے یہ نہیں بتایا تھا۔ سوال: ایل ایس اے پر مذاکرات اور ایس ایس جی سی کے بورڈ میں فیصلہ سازی کے حوالے سے اُس وقت کے وزیر برائے وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل (مسٹر شاہد خاقان عباسی) اور اُس وقت کے سیکریٹریز وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل (مسٹر عابد سعید اور مسٹر ارشد مرزا) کے کردار کے متعلق بتائیں؟ جواب: بورڈ کے فیصلے بورڈ میٹنگز میں ہوتے ہیں جن میں طے شدہ مینجمنٹ اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ ہر ڈائریکٹر کا ایک ووٹ ہوتا ہے اور یہ ہر ڈائریکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اپنی لازمی خدمات انجام دے۔ ایس ایس جی سی کے معاملے میں، بورڈ کے ڈائریکٹرز کی اکثریت کو حکومت پاکستان نامزد کرتی ہے کیونکہ ایس ایس جی سی پاکستان میں تیل اور گیس کے انفرا اسٹرکچر کا ایک اسٹریٹجک حصہ ہے۔ یہ تمام معاملات وزارت پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز دیکھتی ہے۔ میرے دور میں، مسٹر شاہد عباسی وزیر تھے جبکہ عابد سعید اور ارشد مرزا سیکریٹریز تھے۔ یہ ان کا کام تھا کہ حکومت پاکستان کی پالیسی تیار کریں۔ حکومت کے کئی دیگر ایڈیشنل سیکریٹریز بشمول ایڈیشنل سیکریٹری پٹرولیم ایس ایس جی سی بورڈ کیلئے کام کرتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر علم نہیں کہ ایل ایس اے کے مذاکرات میں ان متذکرہ افراد کی براہِ راست کوئی مداخلت تھی۔ سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایل این جی کی درآمد کا مقصد حاصل کرلیا گیا اور کیسے؟ جواب: ایل این جی ٹرمینل ون کے کمرشل آپریشنز کی وجہ سے ملکی گیس سپلائی کی ابتر صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملی اور گیس کی مارکیٹ میں ضرورت کو پورا کیا جا سکا۔ اگر ایل این جی ٹرمینل ون فعال نہ ہوتا تو 18؍ گھنٹے کی گیس لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رہتا۔ تاہم، پروجیکٹ کی کامیابی کی وجہ سے مسئلے کو حل کرنے میں نمایاں مدد ملی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو تمام مقاصد پورے ہوئے لیکن اس سوال کا جواب وزارت بہتر انداز سے دے سکتی ہے۔ دوسری جانب اس اسکینڈل کے حوالے سے نیب کے ایک ریٹائرڈ افسر، جو نیب کے معاملات سے آگاہ ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ دونوں حضرات بہت پہنچی ہوئی چیز ہیں، لوگ ان کے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں، ہمیں ان کے معاملات سمجھ نہیں آتے تو اُن کے بارے میں کنسلٹنسی لے لیتے ہیں، نیب ایسے لوگوں پر بہت سوچ سمجھ کر ہاتھ ڈالتا ہے، اگر ایسی چیزیں ہمارے پاس نہ ہوتیں تو ہم یہ اقدامات نہ کرتے، ادارہ آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا ہے، ادارے کا عزم ہے کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک و صاف کیا جائے، ادارے میں قابل افسران کام کرتے ہیں جو اِن تمام معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

تازہ ترین