• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت اور فوج پاکستان کی ضرورت کے عنوان سے میں نے 23/اپریل 1989ء کو اپنے مضمون میں جمہوریت کی ضرورت اور فوج کی مداخلت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان ووٹ کی طاقت سے ہی معرض وجود میں آیا ہے اور اُسے ووٹ کی طاقت سے چلایا جائے یعنی فوج جمہوریت کی حمایت میں کھڑی رہے اور میں نے انہی دنوں ایک اور مضمون کے ذریعے یہ بات صاف کی تھی کہ جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کو ہمیشہ کسی نہ کسی اسٹرٹیجک نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ایوب کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی گئی ،بنگالی یہ کہتے تھے کہ کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد لے جایا گیا اور ہمارا پانی کے ذریعے ملاپ بھی ختم ہوگیا اور 65ء کی جنگ میں ہمیں انڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا پھر جنرل یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاچن پر انڈیا کا قبضہ ہوا ور جنرل پرویز مشرف کے دور میں کارگل واقعہ ہوا اور بغیر تیاری کے اپنے نوجوانوں کو کارگل پر بھیج دیا ۔ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز صدیقی سے میری ایک طویل ملاقات اُن کے احتساب بیورو کے چیئرمین کی حیثیت سے ہوئی انہوں نے مشورہ مانگا تو میں نے ان سے کہا کہ جو سچ اور درست سمجھتے ہیں کریں۔ اُن کی شکایت اس وقت یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف ان کو احتساب نہیں کرنے دیتے، میں نے کہا کہ وہ پھر بھی درست کام کرنے کی کوشش کریں۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان پر اتنے زخم لگائے ہیں کہ وہ بھر کر نہیں دے رہے، اگر فاٹا میں امریکیوں کو جانے کی اجازت نہ دی جاتی تو تحریک طالبان نہ بنتی، وہاں پر امریکہ اور دوسرے ممالک پیسے دبا کر بانٹے گئے کہ پورا علاقہ شورش زدہ ہوگیا۔ اگر وہ لال مسجد پر آپریشن نہ کرتے تو پاکستان میں خودکش حملے نہ ہوتے، وہ امریکیوں سے الگ سے معاملات نہ کرتے تو ڈرون حملے نہ ہوتے اور پاکستان محفوظ رہتاسب سے بڑھ کر انہوں نے این آر او زدہ حکومت کو پاکستان پر تھونپ کر پاکستان کی پیٹھ میں چھڑا گھونپ دیا۔ دہشت گردی کی شدت میں بے تحاشا اضافہ کردیا۔ جنرل کیانی نے آتے ہی فوج کو نیوٹرل کردیا اور جنرل پرویز مشرف کے کھیل کو بگاڑ دیا۔ فوج نے انتخابات میں مداخلت نہیں کی تو نوازشریف کو 92 نشستیں مل گئیں اور پی پی پی کو اس سے زیادہ کہ اُس کو الیکشن مہم میں زیادہ وقت مل گیا تھا۔ اس کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رکھا اور حالات کتنے بھی خراب ہوئے اور ہوتے رہے انہوں نے پاکستان کے سیاسی کسٹوڈین کے کردار کو خیرباد کہہ دیا کہ یہ عوام کا کام ہے کہ وہ کیسے لوگ چنتے ہیں اور کیسے ملک چلاتے ہیں۔ لوگ جنرل کیانی کو دشنام دیتے رہے، اُن سے توقعات وابستہ کرتے رہے مگر انہوں نے یہ وتیرہ بنا لیا کہ کوئی پاکستانی اُن کو اگر خط بھیجتا ہے تو وہ وصول تک نہیں کرتے، اُسے کھولے بغیر واپس بھیج دیتے ہیں، اس طرح وہ جذباتی دباوٴ سے آزاد رہے، البتہ اُن کے دور میں یہ ہوا کہ ریمنڈڈیوس، ایبٹ آباد میں امریکیوں کا اسامہ بن لادن کو2 مئی 2011ء کو مارنا، 26 ستمبر2011ء کو سلالہ پوسٹ پر حملہ اور دیگر ایسے واقعات ہوئے جن پر اُن سے سوالات کئے جاسکتے ہیں، مگر انہوں نے کبھی اقتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا۔ اس لئے کہ وہ اس تھیوری پریقین کرچکے تھے کہ حکمرانی فوج کا کام نہیں اور یہ کام سویلین لوگوں کا ہے اور وہی اپنے نمائندوں کو چیک کریں اور ہٹائیں، مگر زرداری صاحب کی سیاست نے کوئی اپوزیشن باقی نہیں رکھی۔ اس لئے عوام لٹتے رہے اور غیرمحفوظ ہوگئے تاہم پاکستانی فوج نے میمو گیٹ کی سازش کے باوجود اقتدار کے حصول کی کوشش نہیں کی۔ اُن کو تین سال کی توسیع پر اعتراض ہوا اور اُن کی مقبولیت کو قدرے دھچکا لگا اور فوج کی چیف آف آرمی اسٹاف تک پہنچنے کی لائن میں کھڑے کئی جنرل ریٹائرڈ ہوگئے مگر پاکستان کو ان کی موجودگی سے فائدہ ضرور ہوا کہ پاکستان نے مارشل لاء کا منہ نہ دیکھا۔ پاکستان میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک فوجی سربراہ مارشل لاء نہ لگائے تو دوسرا لگا دیتا ہے۔ اس لئے اُن کی توسیع نے اس راستہ کو بھی روکا اور فوج کو سول حکومت کے تابع رکھا۔ ایبٹ آباد کا سانحہ ہوا یا سلالہ کا انہوں نے کہا کہ وہ سول حکومت کے تابع ہیں اور اُن کے حکم کے تعمیل میں تامل نہیں کریں گے مگر انہوں نے اسی سول حکومت کو مشورہ دیکر امریکہ کی سپلائی لائن سات ماہ تک بند کرائی، جس نے امریکہ کو وہ نقصان پہنچایا اور امریکی جنرلوں کی حکمت عملی کو ناکام بنایا کہ آج پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے اور اوباما انتظامیہ نے اُن سب جنرلوں کو فارغ کردیا جو پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کے حامی تھے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئی ایس آئی نے ایک یا دو نہیں بلکہ سی آئی اے اور نیٹو کی تمام ایجنسیوں کو افغانستان میں ناکام کردیا کہ وہ طالبان کے نچلے درجے کے عہدیدار کے علاوہ کئی درمیانے درجے کے عہدیدار تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ جنرل کیانی کی سربراہی میں فوج پاکستان میں لنگڑی لولی جمہوریت کے پشت پر کھڑی ہے۔
تازہ ترین