• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بریگزٹ‘‘ کابارِ گراں بورس جانسن کے کاندھوں پر

برطانوی پارلیمنٹ نے 22جولائی کو گزشتہ 3برس کے دوران اپنا تیسرا قائدِ ایوان منتخب کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت برطانیہ ایک پیچیدہ سیاسی بحران سے دو چار ہے۔ یاد رہے کہ جون 2016ء میں ڈیوڈ کیمرون نے وزارتِ عظمیٰ کے عُہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ ان کے بعد تھریسا مے نے یہ منصب سنبھالا اور 3برس بعد انہوں نے بھی وزارتِ عظمیٰ کو خیربادکہہ دیا۔ اب ڈیوڈ کیمرون اور تھریسا مے کی جماعت، کنزرویٹیو پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک کُہنہ مَشق سیاست دان، بورس جانسن کو وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا ہے۔ گرچہ اس وقت برطانیہ کو ایک غیر معمولی سیاسی صُورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن اس کے باوجود سڑکوں کی بہ جائے ایوان ہی میں جمہوری انداز سے معاملات طے پا رہے ہیں۔ حُکم راں جماعت میں بغاوت کے نتیجے میں قیادت تبدیل ہوئی، لیکن عوام کے معمولاتِ زندگی متاثر ہوئے، نہ کسی نے عدالت سے رجوع کیا اور نہ ہی کسی کا میڈیا ٹرائل ہوا، جب کہ اس موقعے پر پارلیمان نے ’’شاک ایبزوربر‘‘ کا کام دیا۔ مذکورہ بالا تمام واقعات کا سبب بریگزٹ ہے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کا نتیجہ توقّعات کے برعکس نکلنے کے بعد اُس وقت کے وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہوئے ، جب کہ اُن کی جانشین، تھریسا مے نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمان کی جانب سے یورپی یونین سے کیے گئے معاہدے کو مسترد کیے جانے پر استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا، جسے ملکۂ برطانیہ نے منظور کر لیا۔

نو منتخب وزیرِ اعظم ، بورس جانسن دو مرتبہ لندن کے میئر اور وزیرِ خارجہ رہ چُکے ہیں۔ ان کا شمار برطانیہ کے مقبول ترین سیاسی رہنمائوں میں ہوتا ہے ۔ لندن کی میئر شپ کے دونوں ادوار میں انہیں عوام سے بے حد پذیرائی ملی۔ 55سالہ بورس جانس برطانیہ کے متوسّط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نیویارک میں پیدا ہوئے اور دُہری شہریت کے حامل ہیں۔ انہوں نے برطانیہ اور یورپ کے مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ نیز، اوکسفرڈ یونی ورسٹی یونین کے صدر بھی رہے۔ جانسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافی کی حیثیت سے کیا اور معروف اخبارات سے وابستہ رہے۔ علاوہ ازیں، ایک مستند تاریخ داں اور کئی کُتب کے مصنّف بھی ہیں۔ نو منتخب برطانوی وزیرِ اعظم لبرل ازم پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے مضامین میں یورپی یونین کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے انہیں ’’یورو اسکیپٹکس‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ 18برس سے رُکنِ پارلیمان ہیں ، جب کہ پہلی بار 2001ء میں پارلیمنٹ کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ جانسن، ڈیوڈ کیمرون کی خیالی کابینہ یا شیڈو کیبنٹ کے رُکن رہے اور پھر لندن کے میئر منتخب ہوئے۔ اُن کی میئر شپ کے دوران برطانوی دارالحکومت، لندن نے خاصی ترقّی کی۔ انہوں نے اس گنجان آباد شہر کے باشندوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے دن ،رات ایک کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف لندن کے باسی ہی نہیں، بلکہ یہاں آنے والے غیر مُلکی سیّاح بھی ان کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ میئر شپ کے دوران کی گئی اَن تھک محنت ہی نے ان کے لیے وزراتِ عظمیٰ کی راہ ہم وار کی۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے موقعے پر جانسن اپنی جماعت کے سربراہ اور اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون کی طرح برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف تھے۔ کیمرون کے منظرِ عام سے ہٹنے کے بعد وہ مُلکی سیاست میں بہت زیادہ فعال ہو گئے۔ انہوں نے مسز مے کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ کا منصب سنبھالا اور 2018ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے بریگزٹ کی ذمّے داری انہیں سونپی گئی ،تو انہوں نے یورپی رہنمائوں سے مذاکرات شروع کیے۔

گزشتہ برس دسمبر میں جب تھریسا مے نے یورپی یونین سے ہونے والا معاہدہ منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا، تو درحقیقت قیادت کی تبدیلی کی بنیاد اُسی وقت ہی رکھ دی گئی تھی۔ تاہم، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بورس جانسن نے خاتون وزیرِ اعظم اور اپنی جماعت کی سربراہ کے خلاف بغاوت میں بنیادی کردار ادا کیا، کیوں کہ اپنے لیڈر سے بے وفائی ان کی سرشت میں شامل نہیں۔ انہوں نے ایک وفا دار رُکن کی طرح ہمیشہ اپنی قائد کا ساتھ دیا۔ تاہم، جب تھریسا مے نے وسط مدّتی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ، تو شاید اُس وقت جانسن کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب پارٹی قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہو چُکی ہے۔ تب بڑے زور و شور سے یہ بھی کہا گیا کہ کنزرویٹیو پارٹی اور لیبر پارٹی دونوں کی قیادت کا معیار تسلّی بخش نہیں اور بریگزٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر برطانیہ کو نئی قیادت کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس فیصلے کے اثرات پوری دُنیا پر مرتّب ہوں گے۔ یاد رہے کہ بریگزٹ کے حامی برطانیہ کو ایک مرتبہ پھر سُپرپاورکے رُوپ میںدیکھنا چاہتے ہیں ۔ غالباً یہ سوچ قوم پرستی کی اُس لہر کا شاخسانہ ہے کہ جو امریکا سمیت پورے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ چُوں کہ جانسن یہ بھانپ چُکے تھے کہ قوم پرستی کی اس لہر کے سامنے ٹھہرنا ممکن نہ ہو گا اور یہ تھریسا مے سمیت بڑے بڑے بُرج اُلٹ دے گی، لہٰذا انہوں نے خاتون وزیرِ اعظم کی دوسری کابینہ میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ اس موقعے پر اکثر ماہرین کا خیال تھا کہ جانسن خود کو ایک متبادل قیادت کے طور پر سامنے لا رہے ہیں اور اسی لیے انہوں نے وزارت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ درحقیقت، کابینہ میں عدم شمولیت کے فیصلے سے انہیں کافی فائدہ ہوا، کیوں کہ جب کنزرویٹیو پارٹی کے ارکان نے تھریسا مے کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا، تو اُن کے سامنے بورس جانسن ایک مضبوط متبادل قائد کی شکل میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں زیادہ تگ و دو کے بغیر ہی اپنے پارٹی رہنمائوں کی حمایت حاصل ہو گئی، جو انہیں وزیرِ اعظم کے منصب تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوئی۔ دریں اثنا، جانسن نے یورپی یونین کے رہنمائوں سے روابط قائم کر کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی، تو پتا چلا کہ ایسا ممکن ہے۔ خیال رہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے فوراً بعد یورپی لیڈر شپ بہت زیادہ غم و غصّے میں تھی۔ اس موقعے پر فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے صدر، ڈونلڈ ٹسک یہی راگ الاپتے رہتے تھے کہ یونین کو بریگزٹ کسی صُورت قبول نہیں اور اس فیصلے کے منفی اثرات کے تدارک کے لیے لندن کو ایسی عبرت ناک سزا دینا ضروری ہے کہ جس کے باعث علیحدگی کے جراثیم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ نیز، یورپی یونین کے رہنما برطانیہ کو متواتر تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور ٹائم فریم کو سخت ترین کرنے کا عندیہ بھی دیتے رہے۔ تاہم، جانسن نے نہ صرف اس سخت رویّے کو برداشت کیا، بلکہ اس کڑے مرحلے سے گزرنے کے لیے تھریسا مے کو مدد بھی فراہم کی۔

’’بریگزٹ‘‘  کابارِ گراں بورس جانسن کے کاندھوں پر
ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے بوجھل دل ، نم آنکھوں کے ساتھ وزارتِ عظمی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے

اپنے دونوں پیش رَو وزرائے اعظم کی طرح جانسن کا منشور بھی ایک نکاتی ہے، جس کے نفاذ میں کیمرون اور تھریسا مے دونوں ناکام رہے۔ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحد گی۔ گرچہ سابق خاتون برطانوی وزیرِ اعظم پر آج بھی تنقید کی جارہی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ تھریسا مے نے بریگزٹ کے لیے اَن تھک محنت کی اور اپنے 3سالہ دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں انہوں نے ایک بار بھی اپنے وعدے سے انحراف نہیں کیا۔ حتیٰ کہ یورپی یونین سے معاہدے پر معترض پارٹی رہنما اور ارکانِ پارلیمان بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہوگئے کہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے تھریسا مے نے اپنی تمام تر توانائیاں برطانیہ کے انخلاء پر صَرف کیں۔ اپنے ایک نکاتی منشور پر عمل درآمد کی خاطر انہوں نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں، اپوزیشن، عوام کے ایک طبقے اور یورپی یونین کی بے تحاشا تنقید برداشت کی، لیکن وہ اپنے اس مؤقف پر ڈٹی رہیں کہ برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور وہ ہر صورت اس فیصلے کا احترام کریں گی۔ پھر اس موقعے پر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر دوبارہ ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ بھی کیا گیا، کیوں کہ ’’ری مین‘‘ اور ’’ایگزٹ‘‘ کے درمیان محض ایک فی صد سے کچھ زاید ووٹوں کا فرق تھا۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے تھریسا مے نے بریگزٹ کی مخالفت کی تھی، لیکن وزیرِ اعظم بننے کے بعد انہوں نے برطانیہ کے انخلاء کو اپنا مطمحِ نظر بنا لیا۔ سابق خاتون وزیرِ اعظم کے ارادے کی پختگی کی وجہ سے ماہرین اُن کا موازنہ آئرن لیڈی اور سابق برطانوی وزیرِ اعظم، مارگریٹ تھیچر سے کرتے ہیں۔

وزارتِ عظمیٰ کے عُہدے کے لیے بورس جانسن کا مقابلہ اپنی ہی جماعت، کنزرویٹیو پارٹی کے امیدوار، جیریمی ہنٹ سے تھا، جو 2015ء سے برطانوی پارلیمنٹ کے رُکن ہیں۔ جیریمی کا تعلیمی پس منظر جانسن سے مماثلت رکھتا ہے اور انہوں نے بھی اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ رُکنِ پارلیمان منتخب ہونے کے بعد انہوں نے مختلف وزارتیں سنبھالیں۔ البتہ جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد انہیں وزارتِ خارجہ کا قلم دان سونپا گیا، جب کہ اس سے قبل وہ وزیرِ صحت کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ جیریمی سب سے طویل عرصے تک وزیرِ صحت رہے اور اس دوران بریگزٹ کے سلسلے میں یورپی ممالک سے مستقل رابطے میں بھی رہے۔ بورس جانسن کی طرح جیریمی نے بھی بریگزٹ کی مخالفت کی تھی، لیکن کیمرون کے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے بھرپور انداز میں تھریسامے کا ساتھ دیا۔ ابتدا میں جیریمی کا مؤقف تھا کہ برطانیہ کو باقاعدہ معاہدے کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے، لیکن جب تھریسا مے یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کروانے میں ناکام ہو گئیں، تو اُن کی رائے بدل گئی اور انہوں نے یہ مؤقف اپنایا کہ معاہدے کے بغیر بھی برطانیہ بہت ترقّی کرے گا۔

نو منتخب برطانوی وزیرِ اعظم کو بھی وہی چیلنج در پیش ہو گا، جس سے اُن کی پیش رَو نمٹنے میں ناکام رہیں، کیوں کہ اس وقت بھی برطانوی معاشرے میں بریگزٹ کے معاملے پر خاصی تقسیم پائی جاتی ہے۔ البتہ برطانوی عوام دو معاملات پر یک زباں ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ مساوی بنیادوں پر اپنی معیشت میں تارکینِ وطن کو شریک نہیں کرنا چاہتے۔ نیز، وہ اب بھی اس اَمر پر یقینِ کامل رکھتے ہیں کہ ان کے ٹیکسز سے ہونے والی آمدنی پر صرف انہی کا حق ہے اور کسی بھی قسم کے اتحاد کے نام پر اسے دوسری اقوام کے باشندوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ دوم یہ کہ اُن کی قوم پرستی شدّت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ البتہ اس جذبے کی شدّت و نوعیت دوسری عالم گیر جنگ سے پہلے پائے جانے والے نیشنل ازم جیسی نہیں، کیوں کہ برطانوی باشندے دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی ابھی تک فراموش نہیں کر پائے۔ تاہم، اُن میں برطانیہ کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کی خواہش ضرور انگڑائی لے رہی ہے۔ اس ضمن میں ماہرین جرمنی کی روز افزوں ترقّی و طاقت کا ذکر کرتے ہیں، جس میں جرمن چانسلر، مِرکل نے مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی چانسلر شپ کے اوّلین برسوں میں جرمنی کو معاشی طور پر اس قدر مضبوط کر دیا کہ باقی یورپی ممالک احساسِ کم تری میں مبتلا ہو گئے اور پھر مِرکل کے کفایت شعاری پر مبنی لیکچرز بھی برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کے رہنمائوں اور عوام پرگراں گزرتے تھے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں جرمنی سے درآمد شُدہ مصنوعات ہی کو اعلیٰ معیار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بی ایم ڈبلیو کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جو ایک اسٹیٹس سمبل بن چُکی ہے۔ تاہم، تجارت کے اعتبار سے برطانیہ باقی تمام یورپی ممالک پر حاوی ہے اور یہ اس کے لیےایک منافع بخش عمل ہے، جب کہ اس کے برعکس جرمنی وہ واحد یورپی مُلک ہے کہ جسے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ بعض ناقدین یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ آیا بریگزٹ کا سبب جرمنی ہے یا برطانیہ میں مقیم وہ 30لاکھ یورپی تارکینِ وطن کہ جو اس کی فلاح و بہبود کی مشہور پالیسی سے استفادہ کر رہے ہیں۔

قصّہ مختصر، اگر ’’ہارڈ بریگزٹ‘‘ یعنی کسی معاہدے کے بغیر ہی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی ہوتی ہے، تو پھر نو منتخب وزیرِ اعظم کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ بریگزٹ واقعی برطانیہ کے لیے خوش حالی کا راستہ ہے۔ یہ کہنا جتنا آسان ہے، اس پر عمل اتنا ہی مشکل ، کیوں کہ سنگل مارکیٹ کے فواید سے محروم ہونے کے بعد برطانوی قیادت کو اپنے اقتصادی امور پر بہت زیادہ توجّہ دینا ہو گی، جب کہ گزشتہ 3برس کے دوران برطانوی حُکّام کی زیادہ تر توجّہ صرف بریگزٹ ہی پر مرکوز رہی۔ لہٰذا، نو منتخب وزیرِ اعظم، بورس جانسن کو بریگزٹ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے ساتھ معیشت کو بھی اوّلین ترجیح دینا پڑے گی۔

تازہ ترین