• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلانِ حج

ابھی اللہ کے دونوں نیک بندے تعمیر کے کام سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حکم ہوا’’اب تم لوگوں میں حج کے لیے اعلان کر دو، تم دیکھو گے کہ لوگ تمہارے پاس (خانۂ کعبہ کے پاس) دوڑے دوڑے آئیں گے، پیدل بھی اور دُور دراز علاقوں سے دُبلی پَتلی اونٹنیوں پر بھی۔‘‘(سورۃ الحج)حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا’’یا اللہ! اس بیابان وادی میں میری آواز کون سُنے گا؟‘‘ ربّ ِ ذوالجلال نے فرمایا’’اے ابراہیمؑ! تمہارا کام اعلان کرنا ہے، اسے تمام جہانوں میں پھیلانا میرا کام ہے۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ جبلِ ابو قیس پر چڑھے اور صدا بلند کی، جسے زمین و آسمان کی ہر چیز نے سُنا، ہر وہ رُوح جو زمین پر تھی یا عالمِ ارواح میں اور قیامت تک دنیا میں آتی رہے گی، اُن میں سے جس نے اس صدا پر’’ لبّیک‘‘ کہا وہ ضرور حج کرے گا۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ حج کی تلبیہ کی بنیاد یہی’’ندائے ابراہیمیؑ ‘‘ ہے۔(قرطبی و مظہری) مفسّرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ابتدا اسی جگہ سے فرمائی۔ روایت میں ہے کہ یہاں سب سے پہلے فرشتوں نے’’ بیتُ المعمور‘‘ کی سیدھ میں زمین پر اللہ کا گھر بنایا تھا۔

خانوادۂ ابراہیمؑ کی عظیم قربانیاں، حج کا حصّہ

بیتُ المعمور میں ہر وقت ستّر ہزار فرشتے طواف کرتے رہتے ہیں اور جو ایک بار طواف کر لیتا ہے، پھر قیامت تک اُس کا نمبر نہیں آئے گا، لیکن ہم پر اس معبودِ حقیقی کا کتنا بڑا احسان ہے کہ طواف کی سعادت بار بار حاصل کر سکتے ہیں۔ طوفانِ نوحؑ کے وقت خانۂ کعبہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا۔ پھر طویل عرصے بعد جب اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے بڑھتے گناہ دیکھے، تو ماں سے70گُنا زیادہ محبّت کرنے والے پروردگار کو رحم آ گیا اور اُس نے دوبارہ اپنے گھر کی تعمیر کا فیصلہ کیا تاکہ اُس کی مخلوق یہاں آ کر گناہوں سے پاک ہو جائے۔ اس عظیم کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں میں سے جن کا انتخاب کیا، وہ حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کے جدّ ِ امجد، حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور اُن کے صاحب زادے، حضرت اسماعیل علیہ السّلام تھے۔ حکم ہوا’’اے ابراہیمؑ! اپنے اس نومولود بچّے اور اہلیہ کو بیابان وادی میں چھوڑ آئو۔‘‘ حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور دونوں کو مُلکِ شام سے ہزاروں میل دُور، سُنسان صحرا میں کھڑے ایک بوڑھے درخت کے نیچے چھوڑ کر واپس ہو گئے۔ پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہؑ صفا و مروہ کے درمیان دوڑیں، تو اللہ نے معصوم اسماعیلؑ کے قدموں تلے آبِ زم زم جاری کر دیا، پھر قوم بنو جرہم کے کچھ لوگ بھی وہاں آباد ہو گئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام سنِ بلوغت کو بھی نہ پہنچے تھے کہ والد کو بیٹے کی قربانی کا حکم ملا۔ اس میں سُرخ رُو ہوئے، تو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم ہوا۔ پھر اللہ نے خانوادۂ ابراہیمؑ کی قربانیوں کو اپنی سب سے عظیم عبادت، حج کا حصّہ بنا کر اُنھیں ہمیشہ کے لیے اَمر کر دیا۔ صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، آبِ زم زم پینا، جَمرات پر شیطان کو کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، یہ سب خاندانِ ابراہیمؑ کی اس عظیم جدوجہد کی یاد دلاتی ہے، جو اُنہوں نے اللہ کی راہ میں کی۔

حج ہزاروں سال سے جاری ہے

حضرت ابراہیمؑ سے آنحضرتﷺ تک یعنی تقریباً ڈھائی ہزار برس کے دَوران جتنے بھی انبیائے کرام ؑ تشریف لائے، وہ اور اُن کی اُمّتیں حج کی پابند رہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کے بعد اگرچہ عرب کے باشندے بُت پرستی میں مبتلا رہے، لیکن وہ بھی حج کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مکّہ مکرّمہ کو بھی یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ پہلے دن سے آج تک اور اِن شاء اللہ قیامت تک اس کا تقدّس، حُرمت اور مرکزی حیثیت قائم و دائم ہے اور رہے گی۔ حج کی ادائی کو ہر دَور میں سب سے اعلیٰ و افضل عبادت تصوّر کیا جاتا رہا ہے۔ بیت اللہ کے اندر 360بُتوں کی موجودگی کے باوجود، ایک اور سب سے عظیم ہستی کا تصوّر بھی موجود تھا۔ نسلِ انسانی کی ابتدا سے آج تک تمام اہل کتاب، مشرک، مرتد، کافر سب مشکل گھڑیوں، آزمائش و ابتلا میں اپنے زمینی خدائوں کو چھوڑ کر اُس اَن دیکھے ربّ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں، جو تمام عالَم کا مشکل کُشا اور پروردگار ہے۔ فرعون نے بھی ڈوبتے وقت اپنے بُتوں کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السّلام ہی کے ربّ کو پکارا تھا۔ عبدالمطلب نے ابرہہ سے یہی کہا تھا کہ’’ جس کا گھر ہے، وہ خود ہی حفاظت کرے گا۔‘‘ قومِ لوط ہو یا قوم عاد، قومِ نوح ہو یا پھر قومِ ثمود، جب عذاب نازل ہونا شروع ہوا، تو سب کو ایک اللہ ہی یاد آیا۔

حج کی فرضیت و اہمیت

حج اسلام کا پانچواں بنیادی رُکن ہے، جو ہر صاحبِ حیثیت مسلمان، عاقل، بالغ، تن درست مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ حج قولی، بدنی، قلبی و مالی عبادات کا مجموعہ ہے۔ ارشادِ باری ہے’’اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس(کعبے) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے۔‘‘(سورۂ آلِ عمران، 91)رسول اللہﷺ نے فرمایا’’لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، 1337)ربّ العالمین نے حج کی فرضیت و اہمیت کو قرآنِ پاک کی بائیس ویں سورت’’سورۃ الحج‘‘ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ حج مبرور کا بدلہ صرف جنّت ہے۔ (صحیح بخاری۔ 1773)حضرت عُمرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا’’ حج و عمرہ فقر اور گناہوں کو اِس طرح دُور کر دیتا ہے، جیسے بھٹّی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو صاف کر دیتی ہے۔‘‘ حاجی جب اپنے اہل و عیال اور گھر بار سے دُور احرام کی دو چادروں میں دیوانہ وار’’ لبّیک، اللٰھم لبّیک‘‘ کی صدائیں بلند کرتا ہوا دربارِ الٰہی میں حاضر ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں’’یہ میرے بندے، بکھرے بالوں کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں اور میری رحمت کے امیدوار ہیں۔ (پھر اللہ حاجیوں سے مخاطب ہوتے ہیں) اگر تمہارے گناہ ریت کے ذرّوں، بارش کے قطروں یا سمندر کے جھاگوں کے برابر ہوں، تب بھی میں سب معاف کر دوں گا اور تم بخشے بخشائے اپنے گھروں کو جائو گے۔‘‘ (کنزالایمان)

حج نہ کرنے کی وعید

رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ جو شخص حج کی طاقت رکھتا ہو، صاحبِ استطاعت ہو اور پھر بھی حج نہ کرے، تو اس کا یہودی ہو کر مرنا یا نصرانی ہو کر مرنا برابر ہے۔‘‘(ترمذی)امامِ غزالیؒ فرماتے ہیں کہ یہ اتنی اہم عبادت ہے کہ اس کا چھوڑنے والا گم راہی میں یہود و نصاریٰ کے برابر شمار ہوتا ہے۔اللہ کے رسولﷺ کی اس قدر شدید تنبیہ اور وعید کے بعد بھی اگر مختلف بہانوں، ٹال مٹول اور اولاد کی شادی بیاہ یا دیگر کاموں کی وجہ سے حج میں تاخیر کر دی جائے، تو یہ بدقسمتی ہی کی بات ہے۔

حج صرف اللہ کے لیے

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا’’ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور اس حج میں نہ کوئی فحش بات ہو اور نہ فسق (حکم عدولی) ہو، تو وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے، جیسا اُس دن تھا، جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔(مشکوٰۃ)اس حدیثِ پاکؐ میں تین باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ حج میں کوئی دنیاوی غرض یا ریاکاری شامل نہ ہو، صرف اللہ کے لیے کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ حج کے دنوں میں لغو، بے ہودہ باتوں، گالم گلوچ سے پرہیز کیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی نافرمانی اور حکم عدولی نہ کی جائے۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے قریب میری اُمّت کے امیر لوگ حج محض سیر و تفریح کے ارادے سے کریں گے، متوسّط طبقہ تجارت کی غرض سے کرے گا ۔ علماء ریا و شہرت کی وجہ سے حج کریں گے اور غرباء بھیک مانگنے کی غرض سے جائیں گے۔‘‘ (کنزالعمال)دوسری حدیث میں ہے کہ’’ سلاطین اور بادشاہ تفریح کی نیّت سے حج کریں گے اور غنی لوگ تجارت کی غرض سے، جب کہ فقراء بھیک کے لیے اور علماء شہرت کے لیے حج پر جائیں گے۔ (اتحاف۔ فضائلِ حج، ص9)

مناسکِ حج، آگاہی و تیاری

رسول اللہﷺ نے فرمایا’’مجھ سے حج کے مسائل سیکھ لو۔‘‘ اس حکم کی روشنی میں عازمین پر لازم ہے کہ وہ مناسکِ حج کی تربیت لے کر حرمین شریفین روانہ ہوں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ مناسب تربیت نہ ہونے کی بناء پر بہت سے افراد کو حج کی ادائی میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ فرض و واجبات میں کمی یا کوتاہی تک کا احتمال رہتا ہے۔لہٰذا، جانے سے پہلے حج و عُمرے پر کسی مستند عالم کی کتاب کا مطالعہ ضرور کر لینا چاہیے۔

چند اہم فقہی معلومات

حج کی تین اقسام ہیں۔ حجِ افراد، حجِ قران اور حجِ تمتع۔ پاکستانیوں کی اکثریت حجِ تمتع سے مستفید ہوتی ہے۔ حجِ تمتع میں میقات سے پہلے عُمرے کا احرام باندھا جاتا ہے۔ پھر عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول کر عام کپڑے پہن لیے جاتے ہیں۔ 8 ذی الحجہ کو حدودِ حرم میں حج کی نیّت سے دوبارہ احرام باندھا جاتا ہے، جسے10ذی الحجہ کو رمی، قربانی اور حلق کے بعد اُتار کر ،عام کپڑے پہن کر طوافِ زیارت کے لیے جایا جاتا ہے۔8ذی الحجہ سے13ذی الحجہ تک کے دن و رات’’ ایّامِ حج‘‘ کہلاتے ہیں۔حج کے تین فرض ہیں(1) 8ذی الحجہ کو حدودِ حرم میں حج کا احرام باندھنا، نیّت کرنا اور تلبیہ پڑھنا (2) 9ذی الحجہ کو حدودِ عرفات میں وقوف کرنا (3) ایّامِ تشریق (10، 11، 12ذی الحجہ) میں طوافِ زیارت کرنا۔ ان میں سے کوئی ایک فرض بھی رہ گیا، تو حج نہیں ہو گا۔اسی طرح حج کے سات واجبات ہیں(1)ایّامِ تشریق میں منیٰ میں قیام (2) 10ذی الحجہ کی رات مزدلفہ میں قیام اور وقوفِ مزدلفہ (3) 10ذی الحجہ کی رمی کے بعد قربانی (4) قربانی کے بعد حلق یا قصر (5) ایّامِ تشریق میں رمی یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا (6) طوافِ زیارت کے بعد صفا و مروہ کی سعی (7) طوافِ وداع۔ کسی ایک بھی واجب کے چھوٹ جانے کی صورت میں مکّہ مکرّمہ میں فدیہ یعنی قربانی دینی ہو گی۔نبی کریمﷺ نے مکّہ مکرّمہ کے چاروں جانب ایسے مقامات متعیّن فرما دیئے ہیں، جہاں سے حج کے لیے احرام باندھ کر گزرنا ضروری ہے۔ان مقامات کو’’ میقات‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی بغیر احرام کے میقات سے گزر کر مکّہ مکرّمہ پہنچ جائے، تو اُس پر دَم(یعنی قربانی کرنا) واجب ہو جاتا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، چین، افغانستان اور یمن سے مکّہ مکرّمہ جانے والوں کا میقات’’ یلملم‘‘ ہے، جو مکّہ مکرّمہ سے92کلومیٹر پر واقع ہے۔احرام دو اَن سِلی سفید چادروں کا نام ہے، جو حج یا عُمرے پر جانے والے مَرد استعمال کرتے ہیں۔ ایک چادر تہبند کی طرح باندھ لی جاتی ہے، جب کہ دوسری کو اوپر کے حصّے میں اس طرح ڈالتے ہیں کہ سَر اور منہ کُھلا رہے۔ احرام کی یہ دو چادریں، حاجی کو کفن کی یاد دلاتی رہتی ہیں اور اس پر خوفِ خدا طاری رہتا ہے۔ عام سِلے ہوئے کسی بھی رنگ کے کپڑے عورتوں کا احرام ہے۔البتہ، خواتین سَر کے بال کسی رومال سے چُھپا لیں۔ مَرد و عورت دونوں کے لیے حالتِ احرام میں بال کاٹنا، ناخن تراشنا، دستانے پہننا، خُوش بُو لگانا، خُوش بُودار صابن کا استعمال، حدودِ حرم میں درخت، پھول، پودے توڑنا، گری ہوئی چیزیں اٹھانا، شکار کرنا، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ کرنا، ازدواجی تعلقات، بوس و کنار، نکاح کرنا، کروانا یا نکاح کا پیغام دینا منع ہے۔کچھ پابندیاں صرف مَردوں کے لیے مخصوص ہیں، جیسے سلے ہوئے کپڑے پہننا، سَر یا چہرہ ڈھانپنا، موزے پہننا، ٹخنے ڈھکے جوتے پہننا،( مَردوں کو دو پٹّی کی چپل استعمال کرنی چاہیے، جس سے پنجے کی اوپری اُبھری ہوئی ہڈی کُھلی رہتی ہے)۔نیز، احرام کا اضافی سیٹ ضرور ساتھ ہونا چاہیے تاکہ احرام کی چادریں میلی یا ناپاک ہونے کی صورت میں تبدیل کی جا سکیں۔ نیز، خواتین بھی حالتِ احرام میں اپنے کپڑے تبدیل کر سکتی ہیں۔ رقم یا ضروری کاغذات کے پیش نظر گلے میں بیگ اور کمر پر بیلٹ بھی باندھ سکتے ہیں۔ گھڑی، چشمہ اور خواتین بند جوتا پہن سکتی ہیں۔خواتین محرم کے بغیر حج پر نہیں جا سکتیں۔ خواتین کے عام کپڑے ہی اُن کا احرام ہے، لیکن سر کے بال کسی کپڑے، رومال یا اسکارف سے ڈھانپ لیں۔ احرام کی نیّت سے پہلے خواتین وہی سب کام کریں گی، جو مرد کرتے ہیں۔ یعنی غسل کرنا، بال، ناخن وغیرہ کاٹنا، نیّت کرنا، تلبیہ پڑھنا( آہستہ آواز میں)، ناخن پالش لگی ہونے کی صورت میں غسل یا وضو نہیں ہو گا۔ حائضہ عورت بھی سب کام کر سکتی ہے، لیکن نماز نہیں پڑھ سکتی۔ علاوہ ازیں، مسجد الحرام اور مسجدِ نبویؐ میں داخل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی طواف کر سکتی ہے۔ ایسی خواتین مکّہ یا مدینہ میں اپنی قیام گاہ میں رہ کر زبانی ذکر و اذکار، تلبیہ و تلاوت، دُرود و دعائیں کر سکتی ہیں۔وہ غسل بھی کر سکتی ہیں، لیکن یہ طہارت کا نہیں، نظافت کا غسل ہوگا۔ تاہم، ایّامِ حج میں حائضہ خواتین یہ افعال انجام دے سکتی ہیں: احرام کی نیّت، تلبیہ، درود، دعائیں، مِنیٰ، عرفات، مزدلفہ میں قیام، جمرات کی رَمی، قربانی، بال کٹوانا، البتہ طوافِ زیارت کے لیے پاکی تک مکّہ مکرّمہ ہی میں رُکنا ہوگا۔ نیز، خواتین ایّام روکنے کی ادویہ بھی استعمال کر سکتی ہیں۔’’لبّیک، اللٰھم لبّیک، لبّیک لا شریک لک لبّیک، اِن الحمدَ والنّعمۃ لک والمُلک، لا شریک لک‘‘اسے تلبیہ کہا جاتا ہے۔ تلبیہ مرد بلند آواز سے اور خواتین آہستہ پڑھیں۔

عُمرے کے فرائض و واجبات

عُمرے میں دو امور کی پابندی فرض ہے(1) میقات سے پہلے احرام باندھنا، نیّت کرنا اور تلبیہ پڑھنا (2) بیت اللہ کا طواف۔ ایک فرض بھی چُھوٹ گیا، تو عُمرہ نہیں ہو گا۔اسی طرح دو باتوں کا اہتمام کرنا واجب ہے(1) صفا و مروہ کی سعی کرنا (2) حلق یا قصر کروانا، تاہم حلق کروانا افضل ہے۔ واجب چُھوٹ گیا، تو مکّہ مکرّمہ ہی میں دَم یعنی جانور کی قربانی کرنی ہو گی۔

سفرِ حج کا آغاز

سفرِ حج پر روانگی سے پہلے جملہ معاملات درست کریں۔ کسی سے ناراضی ہو، تو صلح صفائی کی راہ نکالنی چاہیے، وصیّت تحریر کریں، روانگی والے دن جسم کی صفائی اور غسل کے بعد احرام باندھیں۔ دو رکعت نفل پڑھیں، چلتے وقت کچھ خیرات کریں۔ جہاز میں بیٹھنے کے بعد میقات کے اعلان سے پہلے کسی بھی وقت عُمرے کی نیّت کریں۔ تلبیہ پڑھیں۔ اب آپ پر احرام کی پابندیاں لازم ہو گئیں۔ مرد ہر وقت سَر اور چہرہ کُھلا رکھیں گے۔ خواتین سَر کے بال چُھپائیں گی۔ بدن کے کسی بھی حصّے کے بال ٹوٹنے نہ پائیں۔ وضو کرتے وقت بھی چہرے پر آہستہ ہاتھ پھیریں تاکہ داڑھی کے بال نہ ٹوٹیں۔ راستے بھر تلبیہ و تسبیحات پڑھتے رہیں۔ مکّہ مکرّمہ پہنچ کر قیام گاہ پر سامان رکھنے کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے باوضو حرم شریف کی طرف آئیں۔ مسجد میں داخل ہونے کی دُعا پڑھتے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوں۔ نظریں جھکائے، اللہ کی حمد پڑھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ بیت اللہ پر نظر پڑے، تو تین بار ’’اللہ اکبر، لاالٰہ اِلا اللہ‘‘ کہیں اور دُعا مانگیں۔ پہلی نظر کے وقت جو دُعا مانگی جائے، وہ اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرماتے ہیں۔

طواف کا طریقہ

طواف ہمیشہ حجرِ اسود سے شروع اور اُسی پر مکمل ہوتا ہے۔ حجرِ اسود کے سامنے اِس طرح کھڑے ہوں کہ اُس کا کونا دائیں طرف اور آپ کا چہرہ بیت اللہ کی طرف ہو۔ اب طواف کی نیّت کریں ’’اے اللہ! مَیں تیری رضا کے لیے عُمرے کے طواف کے سات چکروں کی نیّت کرتا/ کرتی ہوں۔ اسے میرے لیے آسان فرما دے اور قبول فرما لے۔‘‘ نیّت کرنے کے بعد اپنا سیدھا مونڈھا کھول لیں، احرام کی چادر دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈال لیں، اسے’’اضطباع‘‘ کہتے ہیں۔ طواف کے سات چکروں میں مونڈھا کُھلا رکھنا سنّت ہے۔ اب حجرِ اسود کا استقبال کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور پھر چھوڑ دیں۔ اب حجرِ اسود کا استلام کریں، کیوں کہ آپ احرام میں ہیں اور حجرِ اسود پر خُوش بُو لگی ہوتی ہے، اس لیے اُس کی طرف ہتھیلیوں سے چُھونے کا اشارہ کرتے ہوئے تکبیر کہیں ’’بسم اللہ، اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘ اور پھر ہتھیلیوں کو چوم لیں۔ طواف کے ساتوں چکروں کی ابتدا حجر اسود پر استلام سے ہو گی اور ساتوں چکر اُسی پر مکمل ہوں گے۔ شروع کے تین چکروں میں مرد پہلوان کی طرح اکڑ اکڑ کر چلیں گے، یہ’’ رمل‘‘ کہلاتا ہے۔ بعد کے چار چکر عام رفتار سے چلیں۔ خواتین رمل نہیں کریں گی۔ دَورانِ طواف تیسرا اور چوتھا کلمہ پڑھنا مسنون ہے، طواف کے دوران کتاب دیکھ کر پڑھنے کی بجائے جو دعائیں یاد ہیں، اُنہیں دُہرائیں۔ ساتویں چکر کے اختتام پر آٹھویں مرتبہ حجرِ اسود کا استلام کریں۔ کُھلے ہوئے مونڈھے کو ڈھک لیں۔ اب عُمرے کا پہلا کام یعنی طواف مکمل ہو گیا۔

طواف کے بعد تین کام

طواف عُمرے کا ہو یا حج کا یا پھر نفلی، تین امور سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ پہلا کام ملتزم پر حاضری اور دُعا، مگر ملتزم پر خُوش بُو لگی ہوتی ہے اور حالتِ احرام میں خُوش بُو منع ہے، لہٰذا دُور سے کھڑے ہو کر دُعائیں کریں۔ یہ دعائوں کی قبولیت کا خاص وقت ہے۔ دوسرا کام’’ مقامِ ابراہیمؑ‘‘ کے قریب یا اُس کی سیدھ میں جہاں بھی جگہ ملے، دو رکعت’’تحت الطوائف‘‘ پڑھیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔ تاہم،مکروہ وقت کا خیال رکھیں۔ تیسرا کام آبِ زم زم پئیں اور دُعا کریں، یہ دُعا کی قبولیت کا وقت ہے۔

صفا و مروہ کی سعی

سعی کے لیے جانے سے پہلے نویں مرتبہ حجرِ اسود کا استلام کریں۔ صفا پر قبلہ رُخ کھڑے ہو کر تین مرتبہ’’ اللہ اکبر‘‘ کہیں، دُعائیں کریں، یہ بھی دُعا کی قبولیت کی خاص جگہ ہے۔ دُعا کے بعد نیّت کریں’’اے اللہ! مَیں تیری رضا کے لیے صفا و مروہ کے سات چکر لگانے کی نیّت کرتا/ کرتی ہوں۔ اسے میرے لیے آسان فرما اور قبول فرما۔‘‘ اب مروہ کی جانب بڑھیں۔ درمیان میں سبز ٹیوب لائٹس لگی ہوئی ہیں، اس سبز حصّے میں مرد تیز تیز یعنی ذرا دوڑ کر چلیں، جب کہ خواتین عام رفتار سے۔ مروہ پہنچ کر ایک چکر مکمل ہو گیا۔ مروہ پر بھی قبلہ رُخ کھڑے ہو کر حمد و ثناء اور دُعائیں کریں۔ اب صفا کی جانب چلیں۔ صفا پر دوسرا چکر مکمل ہو گیا۔ اس طرح ساتواں چکر مروہ پر مکمل ہو گا۔ ہر چکر میں صفا و مروہ پر دُعائیں کریں۔ دورانِ سعی تکبیر و تحلیل کہتے رہیں۔ ساتوں چکر مکمل ہونے پر مروہ پر دعائیں کریں۔ حلق یعنی سر منڈوائیں۔ خواتین کے لیے بال کٹوانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام بال کھول کر لٹکا لیں اور تمام بالوں میں سے ایک ایک پور کے برابر بال کٹوا لیں یا خود کاٹ لیں۔ کسی نامحرم سے نہ کٹوائیں۔ بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہو گیا اور احرام کی پابندیاں بھی ختم ہو گئیں۔ غسل کر کے عام کپڑے پہن لیں۔ اب 8ذی الحجہ تک تمام نمازیں حرم شریف میں باجماعت پڑھیں، جہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔

مناسکِ حج ترتیب وار

8ذی الحجہ: حج کا پہلا دن، اسے’’ یوم الترویہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ مکّہ مکرّمہ سے حج کا احرام باندھیں۔ دو رکعت نفل ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھنا افضل ہے۔ حج کی نیّت کریں’’اے اللہ! مَیں تیری رضا کے لیے حج کی نیّت کرتا/ کرتی ہوں، اسے میرے لیے آسان کر دے اور قبول فرما لے۔‘‘ پھر تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں۔ مرد با آوازِ بلند اور خواتین آہستہ پڑھیں۔ اب احرام کی پابندیاں لازم ہو گئیں۔ درود شریف اور تلبیہ پڑھتے ہوئے مِنیٰ کی جانب جائیں گے۔ منیٰ کے خیموں میں قیام کے دَوران پانچ نمازیں ادا کرنا سنّت ہے۔ عازمینِ حج ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور اگلے دن فجر کی نماز ادا کریں گے۔ مِنیٰ میں قیام کے دَوران کثرت سے تلبیہ پڑھیں۔ تلاوت و تسبیحات اور ذکر و اذکار کریں۔ بے مقصد، لایعنی اور فضول دنیاوی باتوں سے پرہیز کریں۔ منیٰ میں جمرات کے قریب بائیں جانب مسجدِ خیف ہے۔ روایت میں ہے کہ اس مسجد میں70انبیاء کرامؑ مدفون ہیں، لہٰذا موقع ملے تو وہاں کسی وقت کی نماز ضرور پڑھنی چاہیے۔

9ذی الحجہ: حج کا دوسرا دن، اسے’’ یومِ عرفہ‘‘ کہتے ہیں۔ نمازِ فجر کے بعد تلبیہ پڑھتے ہوئے میدانِ عرفات کو روانہ ہوں۔ مِنیٰ سے عرفات کا فاصلہ بارہ کلو میٹر ہے۔ میدانِ عرفات میں مسجدِ نمرہ ہے، اس میں امام صاحب ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھائیں گے۔ پہلے ظہر کے فرض اس کے فوری بعد عصر کے فرض پڑھے جاتے ہیں۔ امام صاحب ظہر اور عصر کی قصر نمازیں پڑھائیں گے، تو جو لوگ مسجدِ نمرہ میں نماز پڑھیں گے، اُنہیں امام صاحب کی اقتدا میں اسی طرح نمازیں پڑھنی ہیں۔ البتہ، جو لوگ اپنے خیموں میں نماز پڑھیں گے، وہ حنفی مسلک کے مطابق ظہر کے وقت ظہر کی چار اور عصر کے وقت عصر کی چار رکعتیں پڑھیں گے۔ اسی روز وقوفِ عرفات ہوگا، جو حج کا سب سے بڑا رُکن ہے۔ وقوفِ عرفات کا وقت زوال کے بعد سے غروبِ آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد کُھلے آسمان کے نیچے قبلہ رُخ ہو کر کھڑے ہو جائیں۔ توبہ، استغفار اور ذکر اذکار کریں۔ اس وقت اللہ کی رحمت کا نزول موسلا دھار بارش کی طرح ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پہلے آسمان پر حاجیوں کی دُعائیں سُنتے اور اُنہیں قبول فرماتے ہیں۔ چناں چہ میدانِ عرفات میں وقوفِ اعظم کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ مغرب کی نماز پڑھے بغیر میدانِ عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوں گے۔ اس کا فاصلہ عرفات سے7کلومیٹر منیٰ کی جانب ہے۔ وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کریں گے۔ رات مزدلفہ میں عبادت کرتے گزاریں۔ اس دوران یہاں سے ستّر کنکریاں رمی کے لیے بھی اکھٹی کر لیں ،جنہیں دھونے یا پاک کرنے کی ضرورت نہیں ۔ کوشش کی جائے کہ اس رات زیادہ سے زیادہ عبادت ہو۔

10ذی الحجہ: حج کا تیسرا دن، مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد وقوفِ مزدلفہ کریں۔ اس کا وقت صبحِ صادق سے طلوعِ آفتاب تک ہے۔ یہ قبولیتِ دُعا کا بہت خاص وقت ہے۔ وقوفِ مزدلفہ کے بعد اپنے معلّم کی ہدایت کے مطابق تلبیہ پڑھتے ہوئے مِنیٰ روانہ ہوں گے۔ مزدلفہ سے مِنیٰ کا فاصلہ5کلومیٹر ہے۔ منیٰ پہنچ کر پہلا کام یہ ہے کہ آج صرف بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنی ہیں۔ اس بڑے شیطان کو’’ جمرۃ الکبریٰ‘‘ اور’’ جمرہ عقبہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ساتوں کنکریوں میں سے ہر کنکری پر الگ الگ’’ بسم اللہ، اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘ کہہ کر شیطان کو ماریں۔ وہاں گری ہوئی کنکری نہ اٹھائیں۔نیز، ہر کنکری شیطان کو لگ کر حوض میں گرنی چاہیے۔ اگر کوئی نہیں لگی، تو اس کی جگہ دوسری کنکری ماریں۔ اس کے بعد حج کی قربانی کا مرحلہ ہے۔ قربانی خود کریں یا بینکس کے ذریعے کروائیں۔ تاہم،قربانی کی تصدیق کے بعد ہی حلق یا قصر کروانا چاہیے۔ اس کے بعد غسل کریں۔ معمول کے کپڑے پہنیں، خُوش بُو وغیرہ لگا کر طوافِ زیارت کے لیے بیت اللہ شریف روانہ ہو جائیں۔ 10ذی الحجہ کو طوافِ زیارت کرنا افضل ہے۔ 12ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب سے پہلے تک طوافِ زیارت لازم ہے۔ یہ حج کا ایک لازمی رُکن ہے۔ وقوفِ عرفات یا طوافِ زیارت کے بغیر حج مکمل نہیں ہو گا۔ طوافِ زیارت میں سعی بھی کرنی ہے، ان سے فارغ ہو کر مِنیٰ واپس پہنچیں، کیوں کہ رات مِنیٰ میں قیام کرنا ہے۔ ایّامِ تشریق کے تینوں دنوں میں راتیں مِنیٰ میں گزارنا واجب ہے۔ تینوں دن، تینوں شیطانوں یعنی چھوٹے شیطان، درمیانی اور بڑے شیطان کو سات، سات کنکریاں مارنی ہیں۔ عموماً حاجی 12ذی الحجہ کو کنکریاں مارنے کے بعد مِنیٰ سے واپس ہو جاتے ہیں، لیکن حضور نبی کریمﷺ نے13ذی الحجہ کی رات مِنیٰ میں قیام فرمایا تھا اور دوسرے دن رَمی کر کے واپس لَوٹے تھے۔ مِنیٰ سے واپسی پر جب تک مکّہ مکرّمہ میں قیام رہے، مسجد الحرام میں تکبیرِ اولیٰ سے با جماعت نماز کا اہتمام کریں۔ تہجّد کی نماز اور قرآنِ کریم کی تلاوت کی پابندی کریں۔ نفلی عُمرے بھی کریں، لیکن زیادہ سے زیادہ نفلی طواف کریں۔ علماء فرماتے ہیں کہ عُمروں کی کثرت کے مقابلے میں، طواف کی کثرت زیادہ افضل ہے۔ خانۂ کعبہ پر ہر بار نظر ڈالنے سے بیس نیکیاں ملتی ہیں۔ حج کے بعد مکّہ مکرّمہ سے روانگی کے وقت ’’طوافِ وداع‘‘ کریں، جس میں احرام ہے نہ اضطباع۔ رمل ہے اور نہ صفا ومروہ کی سعی۔یہ نفلی طواف کی طرح سادہ طریقے سے عام کپڑوں میں ہو گا۔ باہر سے آنے والوں کے لیے طوافِ وداع واجب ہے اور حج سے پہلے یا بعد میں رسول اللہﷺ کے روضۂ اقدس پر حاضری اور سلام بھی لازم ہے۔

تازہ ترین