• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے اندرونی حالات اس وقت امن و امان کی پریشان کن صورتحال، معیشت کی بری صورتحال، گورننس اور بدانتظامی کی وجہ سے وفاق اور صوبوں میں عوام کی پریشانیوں اور کرپشن میں اضافہ سمیت کئی وجوہ کی بناء پر خاصے پریشان کن نظر آرہے ہیں جبکہ پاکستان میں عوام کا خیال ہے کہ 2013ء شاید عام انتخابات کا انعقاد بھی ہوجائے اور انہیں چند سال کے لئے نئے چہروں کے ساتھ نئی حکومت بھی مل جائے کیونکہ وہ بظاہر موجودہ حکومت کی کارکردگی کے کسی بھی پہلو سے مطمئن نظر نہیں آتے بلکہ وہ حکومتی اداروں اور حکمرانوں سے بے زار نظر آتے ہیں۔
کچھ معتبر حلقوں کے خیال میں تین چار ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ چھ ہفتوں میں شاید انتخابات کے انعقاد کا سال بدل جائے ۔ اس حوالے سے عوام تو اپنی جگہ پر پریشان ہیں مگر سب سے زیادہ پاکستان میں سرمایہ کار اور بزنس مین پریشان ہیں، جن کی اکثریت نہ صرف حکومت کی مالیاتی اور کاروباری پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہے بلکہ توانائی کے بحران ،مہنگائی اور غربت میں مسلسل اضافہ کے ذمہ دار بھی حکومتی پالیسیوں اور حکمرانوں کو قرار دے رہے ہیں۔
دوسری طرف بیرون ملک پاکستان کے اچھے معاشی مستقبل اور قومی سلامتی کے حوالے سے اچھے دنوں کی خبریں آرہی ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ سال رواں کی آخری سہ ماہی سے حالات میں بہتری کے اشارے ملنا شروع ہوجائیں گے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ توجہ امریکی حکام کی نئی پالیسیوں کو حاصل ہورہی ہے جس کا مقصد2014ء میں پاکستان اور افغانستان دونوں کے حالات میں بہتری لانا ہے تاہم اس سے قبل آئی ایم ایف سے پاکستان کو سرٹیفکیٹ آف ٹرسٹ (اعتماد سازی کا سرٹیفکیٹ )مل جائیگا لیکن ہمارے خیال میں اس بار صرف اس دستاویز سے کام نہیں چلے گا بلکہ پاکستان کی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لئے امریکی رویے میں تبدیلی کے ساتھ معاشی طور پر سپورٹ بڑھانے کی حکمت عملی بھی سامنے آنے والی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان میں معتبر ترین حکام سے لے کر عام آدمی تک یہی سوچ رہا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے، خدا خیر کرے ہمارے نزدیک بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پاکستان کے حالات میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں اس لئے آئی آر آئی کے سروے پر ہر سطح پر بحث جاری ہے۔ قارئین کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سروے امریکی مفادات اور پالیسیوں کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ2008ء کے انتخابات سے قبل اس ادارے کے سروے میں صدر جنرل پرویز مشرف سے جب امریکی مفادات پورے ہوگئے اور انہیں اس کی مزید ضرورت نہ رہی تو ان کی حامی جماعت مسلم لیگ (ق) کے بارے میں یہ معلومات پبلک کو دی گئی تھیں کہ وہ الیکشن ہار رہی ہے اور پیپلز پارٹی الیکشن جیت رہی ہے، پھر واقعی ایسا ہی ہوا، گو کہ اس پارٹی کو اپنی وزیر اعظم مسز بینظیر بھٹو کی جان کی قربانی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا اب اس ادارے کے سروے میں پیپلز پارٹی کو غیر مقبول قرار دے کر مسلم لیگ(ن) کو ز یادہ مقبول جماعت ظاہر کیا جارہا ہے ہوسکتا ہے یہ باتیں ٹھیک بھی ہوں مگر اس سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ میاں نواز شریف یا ان کے دیگر کلیدی رہنما اس امریکی بریف پر پورا کرنے پر تیار ہوجائیں گے جس کے تحت بھارت کو پاکستان کے راستے افغانستان ا ور پھر سینٹرل ایشیا تک رسائی ،پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی نگرانی اقوام متحدہ کے امریکی ماہرین کے سپرد کرنے یا بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے اور پاک بھارت تجارت کو مسئلہ کشمیر سے الگ کرنے ، افغانستان میں2014ء کے بعد بھی امریکی فوجوں کی کم از کم پچاس فیصد موجودگی برقرار رہنے اور پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو امریکی مفادات اور ضروریات کے تابع رکھنا ہوگا۔
اب یہ امتحان میاں نواز شریف کا ہے وہ امریکی مفادات اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں کیا سوچتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اب بال ان کی کورٹ میں ہے اور پاکستان کے عوام اور بزنس کمیونٹی کی اکثریت کو بھی امید ہے کہ اگر الیکشن ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی باری آسکتی ہے۔ اس لئے اب معتبر حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ ”میاں صاحب آرہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ا ستفسار کیا جاتا ہے کہ کیا ان کے معاملات اعتماد سازی کے حوالے عسکری قائدین سے ٹھیک ہوگئے ہیں اور پھر وہ کچھ حالیہ باہمی ملاقاتوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں پرامن انتخابات کے انعقاد کیلئے بہتر اقدامات کرنا ہے اس لئے کہ معاشی حالات میں بہتری کیلئے جمہوری اداروں کا برقرار رہنا ضروری ہے اس کیلئے ملک کو متوازن اور فہم و فراست والے قائدین کی ضرورت ہے جس کے پاس صرف پاکستان کا پرچم ہو اور انہیں پاکستان اور عوام کا درد بھی ہو۔ بیان بازی کی سیاست کرنے والوں کے لئے اب ایوان اور عوام میں شاید کوئی جگہ نہ رہے اور روانی سے انگریزی بولنے والے نظام کو فعال بنانے کے لئے سرگرم ہوجائیں۔
تازہ ترین