• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرد مہری اور بے اعتمادی پر مبنی موجودہ تعلقات کے پس منظر میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے وائٹ ہائوس میں وزیراعظم عمران خان کے فیصلہ کن مذاکرات پیرکی رات کو ہونا طے ہیں جن کی تفصیلات اور نتائج کے بارے میں فی الحال نیک توقعات کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے لیکن اتوار کو امریکہ کے سہ روزہ دورے کے پہلے روز وزیراعظم نے واشنگٹن میں امریکی اور پاکستانی نثراد تاجروں کے وفود سے ملاقاتوں میں پاکستان کی معیشت اور اس کی بحالی کے لئے سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنی حکومت کے پالیسی فریم ورک اور سازگار ماحول کو نہایت خوش اسلوبی سے اجاگر کیا جسے وہاں کی بزنس کمیونٹی نے اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے توانائی، سیاحت، تدریسی شعبے، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ اور اسٹیل کی صنعت میں سرمایہ لگانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ یہی وزیراعظم کے دورے کا ایک بڑا مقصد بھی ہے جس میں انہیں کامیابی ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم سے ورلڈ بینک کے صدر اور آئی ایم ایف کے قائم مقام مینجنگ ڈائریکٹر نے بھی ملاقاتیں کیں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے 6ارب 20کروڑ ڈالر کے مالیاتی پیکیج کے حوالے سے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ عمران خان نے واشنگٹن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے ایک بڑے جلسہ سے بھی خطاب کیا۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے وزیراعظم کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی توقع ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر سے باہمی تعلقات، سرمایہ کاری، فوجی تعاون، ایف اے ٹی ایف اور دیگر معاملات پر وزیراعظم کی بات چیت کی توقع ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں فاصلہ پیدا ہو گیا تھا لیکن یہ فاصلہ اب ختم ہو رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہم کچھ لینے کے لئے امریکہ نہیں آئے ہمارا مقصد خطے میں امن و خوشحالی کیلئے امریکہ کی مدد کرنا ہے۔ مغربی تجزیہ کار بھی وزیراعظم کے دورے کو بہت اہمیت دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان سے تعلقات معمول پر لانے کے لئے اسے معاشی امداد بھی دے سکتا ہے جو اس وقت پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے مذاکرات میں جو معاملات زیر بحث آ سکتے ہیں ان میں انسداد دہشت گردی، دفاع، توانائی، افغان امن عمل اور دو طرفہ تجارت جیسے مسائل شامل ہیں۔ جہاں تک باہمی تعلقات کا تعلق ہے ان میں بہتری اسی وقت آ سکتی ہے جب امریکہ ہمیں اپنی نظر سے دیکھے بھارت یا افغانستان کی نظر سے نہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت اتار چڑھائو آتے رہے۔ یہ امریکہ تھا جس نے جموں و کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دلانے کے لئے سلامتی کونسل سے قرارداد منظور کرائی اور یہ پاکستان تھا جس نے سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں چین سے امریکہ کے تعلقات استوار کرائے لیکن افغانستان میں روس کو شکست دینے کے بعد امریکہ نے پاکستان سے منہ موڑ لیا۔ آج وہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بیش بہا قربانیاں دے کر جنگ جیتی، امریکہ انسداد دہشت گردی میں نئی دہلی اور کابل کے ایما پر پاکستان کو تنقید کا ہدف بناتا رہتا ہے، اسے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے کیلئے اپنی قرارداد کا بھی پاس نہیں۔ یہ اس کی بھارت نوازی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارتی وزیر دفاع بڑی ڈھٹائی سے للکارتا ہے کہ مودی سرکار کو مذاکرات کے بغیر بھی یعنی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے جسے وہ جاری رکھے ہوئے ہے، کشمیر کا مسئلہ حل کرنا آتا ہے اس لئے کشمیریوں کو آزادی نہیں ملے گی جبکہ کشمیریوں کی حمایت پاکستان کی سیاسی اخلاقی اور سفارتی ذمہ داری ہے۔ امریکہ کو سلامتی کونسل کی قرارداد کا محرک ہونے کے ناتے بھارت پر دبائو ڈال کر اس قرارداد پر عمل درآمد کرانا چاہئے۔ توقع ہے کہ عمران خان سے بات چیت میں کئی دوسرے مسائل کے ساتھ تنازع کشمیر بھی زیر بحث آئے گا اور وزیراعظم عمران خان کا دورہ پاک امریکہ تعلقات بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

تازہ ترین