• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاری خوفناک منظرنامے سے ہر طرف ہیجان اور پریشانی ہے کہ آئے روز بڑھتی جاتی ہے لیکن معاندانہ سیاسی بیانیے اور ٹاک شوز پہ جاری بے ہنگم شور شرابے میں ملک و قوم کو درپیش بڑے بڑے مسئلوں سے نظریں اوجھل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کوئی نشاندہی بھی کرے تو مصیبت کو دعوت دے۔ ایسے میں ملک بھر سے چوٹی کے دانشوروں، سول سوسائٹی کے حساس نمائندوں، چیدہ چیدہ صحافیوں اور متین سیاستدانوں نے باہمی تفصیلی مشاورت سے جاری ہمہ طرفہ بحران اور اس کے ممکنہ تباہ کُن اثرات کا جائزہ لیا۔ پانچ سو سے زائد ان اکابرین کے مطابق پاکستان کو اس وقت جو بحران درپیش ہے اُس کے چند مظاہر درج ذیل ہیں۔ اوّل:پاکستان کی معیشت بہت نحیف ہے اور ایک پائیدار صنعتی و تکنیکی بنیاد سے محروم لیکن اُس پر مفت خور بالائی ڈھانچوں کا اتنا زیادہ بوجھ ہے کہ دست نگری کی معیشت سے اُٹھائے نہیں اُٹھتا اور نت نئے نئے قرضوں پر انحصار سے ملک کی تقدیر بیرونی مالیاتی اداروں کے پاس رہن ہو گئی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کے اٹھارہویں نسخے سے اصل مرض کا مداوا ہونے والا نہیں، تاآنکہ ایک مقروض اور دست نگر معیشت کو پیداواری معیشت میں بدلا جائے اور اس کی ترقی کا محور مفت خور اشرافیہ کی بجائے عوام الناس ہوں۔ دوم: گزشتہ عشرے میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جو ’’جمہوری عبور‘‘ آگے بڑھا تھا، اس کا پہیہ جنرل ضیا الحق کے 1985 والے ماڈل کی جانب چل پڑا ہے اور ایک عجیب الخلقت (Hybrid) سیاسی ڈھانچہ اُبھر کر سامنے آیا ہے جو غیرمنتخب نوکر شاہانہ قوتوں کا شاخسانہ ہے اور جس میں کسی اور کی گنجائش نہیں۔ سوم:آئینی حکمرانی، پارلیمانی کنٹرول، نظامِ عدل کی شفافیت، اداروں کی غیرجانبداری اور آئین کی فرمانبرداری تحلیل ہو کر رہ گئی ہے۔ آئین کی دفعہ 184 کا دائرہ اتنا پھیلتا چلا گیا ہے کہ انتظامیہ کا مجاز دائرئہ عمل مخدوش ہو گیا ہے۔ سول سروس کی ایسی پسپائی ہوئی ہے کہ سلامتی کے اداروں پر کارِ سرکار کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر عوام کے انسانی، شہری، معاشی اور سماجی حقوق پامال ہو کر رہ گئے ہیں۔ چہارم:حقِ اظہار اور میڈیا کی آزادی قصۂ پارینہ ہوئی، سنسرشپ کے غیرمرئی شکنجے میں یا تو خود سنسرشپ کا چلن ہے یا پھر جو پیا چاہے، نہیں تو نشریات ہوا ہی میں مفقود یا پھر عبرت کی نشانیاں باقیوں کو مصلحت کی راہ سجھاتی نظر آتی ہیں۔ ہزاروں میڈیا ورکرز دربدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور اور وہ جو نعرئہ مستانہ سے باز نہیں وہ دیکھنے سُننے والوں سے دُور اپنے کلام پہ فدا ہو گئیں۔ حقوق کی بازیابی کی تحریکیں دشنام کی نذر ہوئیں۔ ایسے میں سیاسی حزبِ اختلاف کیوں کر بچ پاتی۔ منتخبہ احتساب کا رولر ایسا چلا کہ جو راہ میں آڑے آیا کچل کر رکھ دیا گیا۔ بھلا کرپٹ لوگوں کا جمہوریت سے کیا واسطہ؟ اُلٹا جمہوریت کے لیے آہ و فغاں پر کرپشن کی مالا جپنے کی تہمت! پھر کوئی پردئہ غیب سے اُٹھائے گئے گم شدہ لوگوں کا ماتم کیسے کرے اور کس سے شکایت۔ احتجاج کی جو آوازیں قبائلی علاقوں یا پھر بلوچستان میں اُٹھیں وہ ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ پنجم: اٹھارہویں ترمیم کی رکاوٹیں توڑتے ہوئے مرکزی راج کے ہاتھوں صوبائی خود مختاری تحلیل ہوئی اور اس طرح کے پنجاب اور پختونخواریموٹ کنٹرول پہ، بلوچستان پتلی بازوں کے حوالے اور سندھ گھیرے میں ہے۔ جو محرومی چھوٹے صوبوں میں پھیلی تھی، وہ اب پنجاب میں بیگانگی کی صورت پھیل کر نسلی تفریق سے بالا ہو گئی ہے۔ اب چھوٹے صوبے پنجاب کو گالی دینے سے رہے کہ پنجاب خود مشقِ ستم ہے۔ ششم:چار دہائیوں سے جاری مہم جویانہ خارجہ و سلامتی کی پالیسیوں کے نتیجے میں عالمی تنہائی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ عالمی فورمز پہ ناطقہ بند ہوا جاتا ہے اور فنانشل ٹاسک فورس کا بھورا شکنجہ کالے میں بدلنے کے لیے بے چین۔ ہمارے فوجی جوانوں اور عوام کی بے بہا قربانیوں کے باوجود دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کا عفریت مرنے کو نہیں کہ کسی میں جرات نہیں کہ اس کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرنے پہ تیار ہو۔

حالات کی اس ستم ظریفی پہ سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے دردِ دل بانٹتے ہوئے، تمام جمہوری، انسانی اور عوامی قوتوں سے اتفاقِ رائے پیدا کرنے اور ایک مشترکہ لائحۂ عمل ترتیب دینے کی ترغیب دی ہے۔ عوامی حقوق، جمہوری بالادستی اور سماجی سلامتی کے عہد نامے میں کہا گیا ہے کہ:

(1) عوام کے اقتدارِ اعلیٰ، شہری، انسانی و معاشی حقوق کا دفاع و فروغ، بالخصوص حقِ اظہار اور اختلافِ رائے کا احترام۔(2) ایک آئینی، جمہوری، وفاقی اور عوامی حکمرانی (پیپلز پبلک) کا کوئی متبادل نہیں۔ اقتدارِ اعلیٰ کی مالک ایک مقتدر پارلیمنٹ، خودمختار صوبائی اسمبلیاں، بااختیار مقامی حکومتیں، خودمختار (مطلق العنان نہیں) عدلیہ اور ایک آزاد و مہذب میڈیا اور اچھی انتظامیہ اس کے لازمی اجزا ہیں۔ ریاست کے تمام ادارے عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کی مظہر پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوں اور منتخب حکومت کو غریب عوام کا محافظ اور عوامی مینڈیٹ کے تابع ہونا ہوگا۔(3) طاقت کی تکون یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی واضح آئینی تقسیم کو ایسے قائم رکھنا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی رہے جس کی کہ کوئی ادارہ پامالی نہ کرے۔ (4) ریاست کے تمام اداروں کو تمام آئینی، انسانی، شہری اور معاشی حقوق کو نہ صرف احترام بلکہ دفاع کرنا چاہیے۔ کسی شہری یا گروہ سے اُس کے مذہب، فقہ، نظریے، قومیت اور جنس کی بنیاد پر تفریق یا امتیازی سلوک نہ برتا جائے کہ سب شہری برابر ہیں۔ عورتوں کے ساتھ کیے جانے والے پدرشاہانہ اور ظالمانہ سلوک کا خاتمہ کرتے ہوئے اُن کے مساوی انسانی حقوق کا تحفظ۔ حقِ اظہار، اختلافِ رائے کا احترام، میڈیا پر ہر قسم کی سنسرشپ کا خاتمہ، گمشدہ شہریوں کی باریابی، شہریوں کی اپنے حقوق کے لیے کی جانے والی پُرامن تحریکوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ۔ فاٹا کے عوام کے تمام جائز حقوق و مطالبات کو پورا کیا جائے اور اُن کے کارکنوں اور رہنمائوں کو رہا کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے اور ناراض عناصر کو قومی دھارے میں لایا جائے۔(5) بلاامتیاز احتساب کو ایک آزاد، غیرجانبدار اور منصفانہ ادارے کے ذریعے صاف و شفاف احتسابی عمل کو یقینی بنایا جائے تاکہ احتساب کو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا آلہ نہ بنایا جا سکے۔(6) پاکستان ایک ترقی یافتہ، پائیدار، پیداواری صنعتی و زرعی اور خود انحصار بنیاد پر سامراجی دست نگری اور بیرونی قرضوں کی محتاجی سے خلاصی پا سکتا ہے۔ معاشی ترقی کا محور عوام ہوں اور اُن کی تمام تر سماجی ضروریات۔

(7) پاکستان کو ایک نیشنل سیکورٹی کی ریاست کی بجائے عوامی ترقی و سلامتی کی ریاست بنایا جائے جو خطے میں امن و سلامتی اور علاقائی ترقی کی علمبردار ہو۔ ایک ایسے بیانیے کی ترویج جو صلح جوئی، انسانی بھائی چارے، فراخ دلی، عدل و انصاف اور پائیدار انسانی و سماجی ترقی کا داعی ہو۔

سول سوسائٹی کی دُہائی تو بروقت ہے۔ کوئی ہے جو اس کی آواز سنے اور اس کا دردِ دل بانٹے۔

تازہ ترین