• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بونگے اللہ سائیں کی بخشی ہوئی مخلوق ہیں۔ جو باتیں آپ کو فوراً سمجھ میں آجاتی ہیں، وہی باتیں صدیاں گزر جانے کے باوجود ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو لوگ اللہ سائیں کو پیارے ہوتے ہیں، وہ لوگ فوراً مر کیوں جاتے ہیں۔ میری ماں مجھے بہت پیاری لگتی تھیں۔ ایک رات پو پھٹنے سے پہلے وہ مرگئیں۔ لوگوں نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’’تیری ماں اللہ کو پیاری ہوگئی ہے‘‘۔ یہ بات مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آئی ہے جب تک میری ماں مجھے پیاری تھیں، تب تک وہ زندہ تھیں۔ جب وہ اللہ کو پیاری ہوئیں تب مر گئیں۔ ایسی باتیں آپ سیانوں کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ ہم بونگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ یہی بنیادی فرق ہے سمجھ دار اور ناسمجھ لوگوں کے درمیان۔ ملک اور معاشرے میں آئی ہوئی عظیم تبدیلی سے پہلے ہم بونگے ان حقائق سے واقف نہیں تھے۔ اب ہمیں ایک محاورہ، دیر آید، درست آید، سمجھ میں آنے لگا ہے۔ عظیم تبدیلی سے پہلے ہم بونگے اپنی سب سے بڑی خامی سے واقف نہیں تھے۔ عظیم تبدیلی کے بعد ہم اپنی خامی سے واقف ہوچکے ہیں۔ ہم بونگے اپنی کوتاہی کسی سے نہیں چھپاتے۔ اس کے برعکس سمجھ دار چونکہ اللہ سائیں کی بخشی ہوئی مخلوق نہیں ہوتے اس لئے وہ اپنی کمزوریاں اور کوتاہیاں کسی سے شیئر نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مگر اللہ سائیں کی بخشی ہوئی مخلوق، یعنی ہم بونگے ایسا نہیں کرتے۔

میں قطعی نہیں جانتا کہ CPEC کا کیا بنا۔ آپ سی پیک کے بارے میں جانتے ہیں نا؟ یا عظیم تبدیلی میں سی پیک کو بھلا بیٹھے ہیں؟ سی پیک مخفف ہے چائنا، پاکستان اکنامک کاریڈور کا۔ سنا تھا کہ پاکستان اور چائنا مل کر ایک زبردست شاہ راہ بنا رہے تھے۔ اس راستے کو باسٹھ ممالک سے گزرنا تھا، اور ان ممالک کو اقتصادی روابط میں جوڑنا تھا۔ تیزی سے سی پیک کے منصوبہ پر کام ہورہا تھا۔ پھر کیا ہوا؟ میں نہیں جانتا۔ پچھلے سال تک جب بھی کسی ٹیلیوژن چینل کو چلاتے تھے، اینکر صاحبان، مہمان صاحبان اور خبریں سنانے والے صاحبان سرفہرست سی پیک کی خبریں چیخ چیخ کر نثری نظم میں سناتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہی صاحبان جو سی پیک کی باتیں اور فوائد بتاتے بتاتے نڈھال ہوجاتے تھے۔ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ پاکستان اور چائنا کے مشترکہ منصوبے کا کیا بنا؟ اب کوئی شخص کیوں سی پیک کے بارے میں بات نہیں کرتا؟

بہتر برس سے بہتان تراشی والی جمہوریت ہمارے ملک میں قائم اور دائم ہے۔ ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کو نااہل، نالائق، بے ایمان، ٹھگ اور چور ڈاکوئوں کا ٹولہ کہتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے میں بونگوں کی طرف سے ایک اہم انکشاف شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ بات بکواس محسوس ہوتو بونگوں کو اللہ سائیں کی بخشی ہوئی مخلوق سمجھ کر درگزر کردیجئے گا۔ یا پھر کسی عدالت سے سوموٹو نوٹس کے لئے رجوع کیجئے گا۔ اب بونگوں کی بات ذرا غور سے سنیے گا۔ ہر آنے والی حکومت جب جانے والی حکومت کو چور ڈاکوئوں، ٹھگوں اور نالائقوں کی حکومت گنواتی ہے تب اس کے درپردہ آنے والی حکومت کا اعلامیہ کچھ اور ہوتا۔ بونگوں کی بات ہے، ذرا غور اور توجہ سے سنیے۔ حکومت آنے والی ہو، یا فارغ ہونے والی ہو، عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتی ہے۔ حکومتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے پیچھے ان کے لاشعور میں ایک قول کارفرما ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ جیسے ہم عام عوام ہوتے ہیں، عین اسی ڈھب کے حکمران ہم اپنے قیمتی ووٹ سے اقتدار میں لے آتے ہیں۔ حکمراں جب ایک دوسرے کو چور ڈاکو اور ٹھگ کہتے ہیں، تب وہ اصل میں عام آدمی کو چور ڈاکو اور ٹھگ کہتے ہیں جو اپنے ووٹ سے ان کو اقتدا رمیں لے آتے ہیں۔ آپ ہم بونگوں کی بات سمجھ رہے ہیں نا؟ ہر حکومت ہمارے ووٹ سے بنتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہمیں ہی چور ڈاکو اور ٹھگ کہتی ہے۔

کچھ کام ایسی نوعیت کے ہوتے ہیں جو کہ آپ ایک ہی وقت میں ساتھ کرسکتے ہیں۔ مثلاً نہاتے ہوئے آپ گانا گا سکتےہیں۔ لیکن کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو آپ ایک وقت میں ایک سے زیادہ نہیں کرسکتے۔ مثلاً ٹیلیوژن پر خبریں دیکھتے اور سنتے ہوئے آپ اسکرین کے نیچے اور اوپر چلنے والی پٹیاں نہیں پڑھ سکتے۔ جب آپ اسکرین پر رواں تحریر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تب آپ خبریں نہیں سن رہے ہوتے ہیں۔ اور جب آپ خبریں سن رہے ہوتے ہیں، تب آپ اسکرین پر چلنے والی پٹیاں نہیں پڑھ رہے ہوتے۔ عین اسی طرح آپ ایک وقت میں تسبیح کے دانوں کو پھراتے ہوئے ورد کرسکتے ہیں، یا تقریر کرسکتے ہیں، یا تقریر سن سکتے ہیں۔ آپ ہم بونگوں کی بات سمجھ رہے ہیں نا؟ آپ ورد اور تقریر ایک ساتھ نہیں کرسکتے۔

موجودہ دور میں مدینہ منورہ وہ مدینہ منورہ نہیں ہے جو چودہ سو برس پہلے ریاست مدینہ کہلاتا تھا۔ you can not travel back in time۔ جب عربستان میں خود عرب ریاست مدینہ نہیں بنا سکتے، تب آپ پاکستان میں ریاست مدینہ کیسے بنائیں گے؟ آپ کی یہ بات ہم بونگوں کے پلے نہیں پڑی ہے۔

تازہ ترین