• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی، سیاسی جدوجہد اور مذاکرات کے ذریعے وجود میں آیا لیکن بدقسمتی سے قیام کے بعد کے زیادہ تر فیصلے مشاورت اور مذاکرات کی بجائے جذباتی اور وقتی جوش و جذبے اور مفاد و ضرورت کے تحت کئے گئے جس کے باعث ہر فیصلے میں متنازع پہلو اجاگر ہوتے رہے جو رفتہ رفتہ مسائل کے پہاڑ بنتے گئے۔ آج پوری دنیا ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے اور ہم ابھی تک تقسیم کے ایسے عمل کا شکار ہیں جس کا حاصل جمع کچھ بھی نہیں۔ سرکار نے گزشتہ پانچ سالوں میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے منصوبوں اور گیس و پٹرول سمیت قدرتی وسائل کو زیر استعمال لانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کی محرومی کا ازالہ مزید صوبوں کے قیام سے مشروط کر دیا ہے اور عوام اس اعلان کو اس طرح خوشخبری قرار دے رہے ہیں جیسے الگ صوبے کا اعلان ہوتے ہی دودھ کی نہروں اور سونے کی کانوں کا ٹھیکہ ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔
صوبوں کی مزید تقسیم کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے تاریخی بنیادوں پر قائم ہیں۔ پٹھان، بلوچ، پنجابی، سندھی تاریخی اکائیاں ہیں۔ یہ تمام لوگ خاص تاریخ، ثقافت اور تمدن کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی یہ اکائیاں موجود تھیں اور پاکستان کا دستور بھی انہیں تسلیم کرتا ہے۔ اب اگر ان اکائیوں کو تقسیم کرنا ہے تو اس کے لئے کوئی طریقہ کار طے کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان کا کوئی صوبہ بھی ایسا نہیں جس میں مکمل طور پر صرف ایک زبان اور ثقافت کے لوگ رہتے ہوں۔ خیبر پختونخواہ میں سرائیکی، ہندکو، شنا اور پشتو بولنے والے لوگ بستے ہیں۔ سندھ میں سندھی، سرائیکی اور اردو بولی جاتی ہے۔ بلوچستان کے لوگ بلوچی، براہوی، فارسی اور پشتو زبان بولتے ہیں۔ پنجاب ہی وہ واحد صوبہ ہے جہاں بولی جانے والی مختلف زبانیں اور لہجے تفہیم کے حوالے سے ایک دوسرے سے گہری مطابقت رکھتے ہیں۔ شاہ حسین اور بلھے شاہ کی شاعری پر جنوبی پنجاب کی لفظالی اور لہجے (Dialect) کا رنگ غالب ہے۔ اسی طرح خواجہ غلام فرید کی شاعری میں بالائی پنجاب کی لفظالی نظر آتی ہے۔ اس طرح لسانی حوالے سے ہم ایک ایسی وحدت ہیں جسے کسی طور جدا نہیں کیا جا سکتا۔ براہوی بولنے والا شاید پشتو نہ سمجھ سکے مگر سیالکوٹ اور رحیم یار خاں کے رہائشی اپنی اپنی زبان اور لہجے میں بات کرتے ہوئے آزادانہ مکالمہ کر سکتے ہیں۔ تقسیم برصغیر کے سلسلے میں بھی پاکستان کی لسانی، تہذیبی اور ثقافتی اکائیاں متاثر ہوئیں۔ بین الملکی اور بین الصوبائی ہجرت اور نقل مکانی کی صورت میں مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں آپس میں گڈ مڈ ہو گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔ افغانستان کی جنگ کے باعث پٹھان چاروں صوبوں میں آباد ہوئے۔ دہشت گردی کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور فاٹا کے لوگ پنجاب اور دیگر صوبوں میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس طرح دیکھا جائے تو آج لسانی، تہذیبی اور ثقافتی اکائیاں اپنی اصل اور خالص صورت میں موجود نہیں۔ بہرحال مزید صوبوں کے قیام کے حوالے سے سب سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ اس تقسیم کی بنیاد کیا ہونی چاہئے:
-1 زبان و ثقافت کی بنیادوں پر ۔-2 انتظامی بنیادوں پر
دوسری بات یہ کہ یہ بنیاد صرف پنجاب کے لئے نہیں ہونی چاہئے بلکہ پورے پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کرنا چاہئے۔ جنوبی پنجاب کے علاوہ ہزارہ، پشتون اور سندھ میں بھی الگ صوبے کا مطالبہ موجود ہے یعنی یہ ایشو پنجاب کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے اس لئے ضروری ہے کہ دانش وروں اور سیاست دانوں پر مشتمل ایک ایسا غیر جانبدار کمیشن قائم کیا جائے جو باہمی سوچ بچار اور پاکستان کی تاریخی، تہذیبی اور لسانی اکائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی فارمولا طے کرے چاہے وہ لسانی بنیادوں پر ہو یا انتظامی بنیادوں پر۔ جس بنیاد پر اتفاق ہو اس کی رہنمائی میں مزید صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے ورنہ صرف پنجاب کو تقسیم کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مسائل کا نقطہٴ آغاز ثابت ہوگا اور ہزارہ، کراچی اور پشتون زیادہ گرم جوشی سے حرکت میں آ جائینگے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بار بار کے شور شرابے سے بچنے کیلئے جامع فارمولا طے کیا جائے۔ جلد بازی میں کئے گئے فیصلے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے ابھی سے ان کا سدّباب ضروری ہے۔ اگر پنجاب کی آبادی کو بنیاد بنا کر تقسیم کا جواز تلاش کیا جا رہا ہے تو یو پی کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ اگر رحیم یار خاں سے لاہور کوسوں دور ہے تو ژوب سے کوئٹہ، گھوٹکی سے کراچی اور ڈیرہ اسمٰعیل خاں سے پشاور اس سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ نئے صوبوں کی تقسیم سے پہلے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیوں کہ نئے صوبوں کے قیام کے بعد این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم بھی نئے سرے سے کرنی پڑے گی جو کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرا پانی کی تقسیم کا مسئلہ بہت نازک ہے۔ اسی طرح قرضوں کی ذمہ داری اور اثاثہ جات کی تقسیم بھی اپنی جگہ بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ یہ صوبے صرف وزیراعلیٰ اور گورنر کی اسامی کی گنجائش کے لئے نہیں ہوں گے بلکہ ان میں ایک پورا سیکرٹریٹ اور دیگر شعبہ جات بھی بنیں گے۔ اس وقت صوبوں کی تقسیم دراصل ایک پنڈورا بکس کھولنے کے مترادف ہو گا۔ اس کیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی سوچنا ہو گا۔ اگر مسئلہ پسماندگی کا ہے تو کراچی جیسے وسائل رکھنے والے ترقی یافتہ شہر میں بھی کچھ علاقے ابھی تک بہت پسماندہ ہیں۔ تو کیا شہروں کو بھی تقسیم کیا جائے گا؟ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکز سے جو اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں انہیں ضلع، تحصیل اور لوکل سطح تک منتقل کیا جائے تا کہ لوگوں کے مسائل ان کے اپنے علاقوں میں حل ہو جائیں اور انہیں اس مقصد کے لئے صوبائی اور وفاقی دارالحکومت کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔
نئے صوبوں کے قیام کو الیکشن کے حوالے سے نعرہ بنانے کی بجائے قومی سطح کا ایک اہم معاملہ سمجھا جائے اور اس مقصد کیلئے ایک ایسے غیر جانبدار کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی سفارشات ایسے حقائق پر مبنی ہوں جنہیں رد کرنا کسی بھی فریق کے لئے مشکل ہو اور کسی علاقے کے لوگوں کو حق تلفی کا احساس نہ ہو۔ ورنہ آج کچھ لوگوں کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگوں کو ناراض کرنے کا خدشہ بھی موجود ہے جو لسانی اور ثقافتی سطح پر تقسیم کے خلاف ہیں۔ دوسرے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پنجاب کی مزید تقسیم سے سینیٹ میں تمام قومیتوں کی نمائندگی مساوی نہیں رہے گی جو سینیٹ کے قیام کا اصل مقصد ہے۔ مثلاً پنجاب کو اگر تین حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے تو اسی علاقے کی نمائندگی سینیٹ میں تین گنا ہو جائے گی جو سینیٹ کی بنیادی تشکیل اور مقاصدکے برعکس ہو گی۔ صوبوں کی مزید تقسیم کا دائرہ کار صرف پنجاب تک محدود نہیں ہونا چاہئے ورنہ پنجابیوں کو ایک دفعہ پھر تقسیم پنجاب کا درد سہنا پڑے گا اور اس تقسیم کے نتیجے کے طور پر کئی تعصبات اور نفرتوں کی فصل بھی کاٹنی پڑے گی۔ اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ تقسیم انتظامی بنیادوں پر ہو نفرت، تعصب اور لسانی بنیادوں پر نہیں۔ علاقوں کی تقسیم کاغذ پر لکیر کھینچنے کے مترادف نہیں ہوتی۔ اس سے لوگوں کے جذبات، احساسات اور افکار بندھے ہوتے ہیں۔ اگر تقسیم ناگزیر ہے تو یہ تمام صوبوں میں اس صورت میں عمل میں آنی چاہئے جس طرح ایک باپ اپنی حویلی کو تین بیٹوں میں تقسیم کر دیتا ہے لیکن حویلی کا بڑا دروازہ وہی رہتا ہے۔
تازہ ترین