کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے سابق سفارتکارعبد الباسط نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے کشمیر کے ذکر پر بھارت میں کہرام مچ گیا ہوگا،تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ باہمی اعتماد کا خسارہ دوراور تعلقات کی بہتری میں 5سے 10سال لگ جائیں گے،تجزیہ کار کامران بخاری نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو بعض اوقات اپنے کہے کی وضاحت کرنا پڑتی ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات بہت سارے پہلوئوں پر بات کررہے تھے بہت سارے سوالات ظاہر ہے امریکا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں نارتھ کوریا ،چائنا اس حوالے سے بھی بات ہوئی اور جب بات ہوئی پاکستان کے حوالے سے تو اس بات کو تسلیم کرتے نظر آئے کہ پاکستان اہم کر دار ادا کررہا ہے افغانستا ن میں ۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مہم میں بھی کہتے تھے کہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی بھی خطے کی پولیس کا کام کریں شام کے حوالے سے بھی ان کی یہ رائے ہوتی تھی اب وہ افغانستان کے حوالے بھی بات کرتے نظر آئے نکلنا چاہتے ہیں وہاں سے پاکستان سے تعاون چاہئے کشمیر کے حوالے سے جو رپورٹ سامنے آئی وہ یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے بھی ثالثی کا کر دار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ماہر پاک امریکا تعلقات معید یوسف نے کہا کہ جو ابھی ملاقات ہورہی ہے بس یہ میک اور بریک ہے عموماً یہ ہوتا ہے ایسے دوروں میں کہ پہلے سے بہت سی تیاری ہوئی ہوتی ہے آپ کو پتہ ہوتا ہے دونوں اطراف کو کہ کیا چیز نکلی ہیں کونسا معاہدہ ہے کونسا ایم او یو ہے اس طرح کی کوئی چیز اس دورے میں نہیں ہے یہ دورہ ٹرمپ صاحب نے خودشروع کیا ہے امریکی کی بیوروکریسی نے اس کو جو ہے وہ تیار نہیں کیا دورے کو تو اس لئے یہ جو عمران خان صاحب اور ٹرمپ صاحب کی میٹنگ ہے ابھی تو خیر وہ ایک گروپ سیٹنگ میں میٹنگ ہوگی اس کے بعد ان کی علیحدہ ون آن ون میٹنگ ہے وہ جو چالیس پچاس منٹ گھنٹہ ہے میرا خیال ہے وہ اہم ہے۔ میں یہ آپ کو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پھر آہستہ آہستہ اگلے کچھ ہفتوں میں معاملات کی سمت آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگی لیکن میں ایک اور بات آپ کو کہہ دوں آپ کے توسط سے اور آپ کے میڈیا کے دوستوں کو اس دورے کو آج سے تین دن بعد اس طرح ناپئے گا کہ وہ کوئی ٹرافی تو لے کر نہیں آئے نہ ورلڈ کپ جیتے نہ CSFملا اس دورے کی وہ نوعیت نہیں ہے نہ ہی وہ مانگ ہے نہ ہی وہاں بات جائے گی اس دورے کو آپ کے جج کرنا ہے کہ لہجہ کیا ہے اس دورے کے بعد آگے بات کرنے کی آگے اور صلح کرنے کی بات ہورہی ہے کہ نہیں اور افغانستان پر امریکہ کا کیا موقف ہے ۔سابق سفارتکار عبد الباسط نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پچھلے دو ڈھائی سالوں میں یہ ثابت کیا ہے جو روایتی سفارتکاری ہے اس پر وہ کوئی یقین نہیں رکھتے چاہے وہ نارتھ کوریا کا معاملہ ہو ایران کا معاملہ ہو وہ مقبوضہ بیت المقدس کا معاملہ ہو تو انہوں نے ہمیشہ اپنی فطرت کو فالو کیا ہے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ جو سب سے بنیادی اور بڑا چیلنج میں سمجھتاہوں ہمارے وزیرا عظم کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ ایک نئے سرے سے باہمی تعلقات قائم کرنا ہے صدر ٹرمپ کے ساتھ اور یہ اعتماد پر مبنی رشتہ ہو گا اگر ہمارے وزیر اعظم اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو میں آپ کو یقین سے بتاسکتا ہوں کہ یہاں پر کمی نہیں ہے وائٹ ہائوس میں بھی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں بھی جو کہ ہمارے اس تعلقات کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔سابق سفارتکار عبد الباسط نے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس کو crediblityنہیں دوں گا اس چیز کو frankly speakingبلکہ آج تو انڈیا میں ایک کہرام سا مچ گیا ہوگا کہ صدر ٹرمپ نے یہ بات کشمیر کا ذکر ہی کیوں کیا اس میڈیا کی گفتگو میںi am gladeکہ ہمارے کسی جرنلسٹ نے یہ سوال پوچھا اور اس نے صحیح کیا کہ اس نے کشمیر کے بار ے میں پوچھا لیکن i can assureکہ بھارت میں نئی دہلی میں اس وقت بے چینی ہوگی کہ صدر ٹرمپ نے جموں اور کشمیر کا ذکر کیوں کیا پھر وہ بھی ثالثی کہ contextمیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے نقطہ نظر میں بڑی مثبت چیز ہوئی ہے۔تجزیہ کارمشرف زیدی نے کہا کہ دیکھئے دونوں لیڈران اپنے اپنے ملکوں میں بہت اہم ہیں اور ان کے پاس بہت ساری طاقت ہیں جو وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات کررہے ہیں ہوں گے ان طاقت کا استعمال کرتے ہوئے وہ خود مختار ہوکر فیصلے کر سکتے ہیں لیکن ان کی کچھ حدود ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی اور عمران خان کی بھی جو سب سے اہم limitationہے وہgeographyہے اور وہ تسلسل ہے جس کے تحت پچھلے پندرہ بیس سال سے ہندوستان امریکہ کے رفتہ رفتہ زیادہ قریب ہوا ہے اور پاکستان رفتہ رفتہ الجھتا بھی رہا ہے اور دور بھی ہوتا رہا ہے اب اس چیز کو قربت ہے دونوں کے درمیان اس کی بنیاد ہمیشہ سیکیورٹی relationshipرہی ہے وہ سیکیورٹی relationshipٹھیک کرنے میں شاید پانچ دس سال آرام سے لگ جائیں۔معید پیرزادہ نے کہا کہ یہ تو بالکل واضح ہے ابھی معاملات وہاں پہنچے ہیں کہ ایک امن پراسیس کا انعقاد ہونے والا ہے ابھی شروع نہیں ہوا ہے اور جہاں پر بات روکی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کہتے ہیں کہ ہم افغان حکومت سے بات نہیں کریں گے اب کوئی فارمولا نکالا گیا اس میں بھی رپورٹ ہوئی کہ اچھا چلیں صرف حکومت نہیں اور لوگ ہوں گے تو پاکستان سے جو اس وقت ڈیمانڈ ہے وہ یہ ہے کہ آپ طالبان کو یہ بات باوور کرائیں قائل کریں کہ وہ بات کریں افغانستان کی حکومت سے ڈیلی گیشن سے افغان سے اور کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی طرف معاملہ لے کر جائیں۔ ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ڈیل جلد از جلدان کے ساتھ ہو کوئی پاور شیئرنگ ارینجمنٹ ہو۔ امریکا کا موقف یہ ہے کہ جو فیصلہ ہوگا پاور شیئرنگ ہوگی کیسے ہوگی طالبان کو کیا ملے گا نہیں ملے گا انسانی حقوق کا کیا ہوگا خواتین کے حقوق کا کیا ہوگا یہ تمام باتیں طالبان افغان وفد حل کرے یہ امریکہ نہیں حل کرے گا۔ ظاہر یہی بات ہے امریکا شامل ہوگا امریکا سب سے بڑا کھلاڑی ہے لیکن ان چیزوں کا فیصلہ ابھی جو بات چیت ہو رہی ہے اس میں نہیں ہونا پاکستان کی ڈیمانڈ یہ ہے کہ آپ طالبان کو قائل کریں کہ وہ سنجیدگی سے بات کریں افغان حکومت اور وفد سے اور فیصلہ کریں کہ ان کو کیا چاہیے کیا give and take ہے الیکشن ہونا ہے یا نہیں ہونا کب ہونا ہے کیسے ہونا ہے یہ اب ہمیں نظر آئے گا اگلے تین چار پانچ ہفتے میں اگر اس دورے کے بعد کوئی آپ کو ایسی چیز نظر آتی ہے کہ شاید معاملات بہتر ہوں تو پھر آپ کو یہ بات سمجھ آئی گی کہ شاید فائدہ ہورہا ہے لیکن طالبان نے ابھی تک کوئی ایسی لچک نہیں دکھائی اس لئے یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ طالبان یہ بات مانیں گے اور معاملات آگے چلیں گے۔