• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مانچسٹر کی ڈائری…خوشید حمید
مانچسٹر کے مقامی انگریزی اخبارنے گذشتہ روز اپنی ایک رپورٹ میں گریٹر مانچسٹر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ بظاہر تو اخبار نے گذشتہ سال قتل ہونے والے ایک بارہ سالہ مسلمان لڑکے یوسف مکی کے قتل کے بعد آنے والے مانچسٹر کراؤن کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن ساتھ ہی اخبار نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاپرواہی اور بے حسی کو بھی تحقیقی رپورٹ میںبیان کر دیا ہے ۔یادرہے کہ یوسف مکی جس کے والدین اس ملک میں سیاسی پناہ پرآئے تھے ، گذشتہ سال قتل ہوا لیکن عدالت نے ا س کے قاتلوں کو قتل کے جرم سے بری الذمہ قرار دے دیا ۔ اخبار کا کہنا ہے کہ یوسف مکی کے قتل کیس میں منشیات کی ڈیل بھی شامل ہے۔یہ اطلاع دیتے ہوئے اخبارنے کیس کے حوالے سے بہت سے اہم انکشافات کئے ہیں کہ الٹرنکم جیسے امیر علاقے میںجہاں امیر والدین یہ جاننے میں ناکام رہے ہیں کہ یہاں بچوں کے ذریعے سے منشیات بیچی جا رہی ہیں وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس طرف توجہ نہیں دے سکے یا جان بوجھ کر اس طرف توجہ نہیں دی گئی ۔دو روز قبل مانچسٹر کراؤن کورٹ نے یوسف مکی کے کیس کا ٹرائل کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیا ہے کہ جس رات یوسف مکی کا قتل ہوا اس رات منشیات کی ڈیل بھی ہوتی رہی تھی -قتل کرنے والے لڑکے جن کا نام قانونی وجوہات کی بناءپر ظاہر نہیں کیا جا سکتا’ اس ڈرگ ڈیل کا حصہ بھی تھے۔ پہلا لڑکا جس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے قتل کے حوالے سے تفتیشی افسر کے سامنے جھوٹ بول کر مقتول کو انصاف کی فراہمی میں رکارٹ ڈالی اورپولیس کا وقت ضائع کیا ’اسے کیس سے مکمل طور پرکلئیر کر دیا گیا۔ اسے ایک دوسرے لڑکے کے ساتھ مل کر مقتول کو لوٹنے کی سازش کرنے کے الزام سے بھی کلیر کر دیا گیا۔ جس علاقے میں یوسف کو قتل کیا گیا وہاں ٹین ایج کے نوجوانوں میں منشیات جن میں زیادہ تر چرس شامل ہے کا استعمال عام ہے اور ٹرائل کے دوران پہلے لڑکے نے یہ اعتراف بھی کیاکہ وہ چرس کا استعمال کرتا ہے جبکہ اس کے علاوہ وہ مزید سٹرانک نشہ آور چیزیں بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ منشیات وہ خرید کراستعمال کرتا ہے۔ یہ علم بھی ہوا ہے کہ دو پی سی کی یہ ڈرگ نئی ہے جومشہور ٹی وی سیریز کی ایکٹر کی بیٹی کی موت کا سبب بھی بنی کیونکہ اس نے اس کی ضرورت سے زیادہ مقدار لے لی تھی اور جب وہ 2017 ءمیںپرفارم کرنے کے لئے سٹیج پر آئی تو زیادہ مقدار میں یہ ڈرگ لینے کی وجہ سے اسی جگہ پر سٹیج پر ہی انتقال کر گئی۔ تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ منشیات سکول کے بچوں میں استعمال ہو رہی ہیں جبکہ والدین کو اس بارے میں علم نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کر رہے ہیں ۔کلاس اے منشیات سے انسان کو نشہ تو ہوتا ہے لیکن اس سے نیوزیا ’ قے اور سرکا درد بھی ہوتا ہے۔جنوبی مانچسٹر میں کلاس بی منشیات کا استعمال بھی ہوتا ہے جس سے منشیات استعمال کرنے والا وقتی طور پر آرام ’ راحت اور خوشی محسوس کرتا ہے لیکن اس سے ”پینک اٹیک “ اور یاداشت ختم ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے ۔تاہم چرس اور ویڈ بھی ایسے نشے ہیں جو وقتی طور پر بندے کر پرسکون بناتے ہیں لیکن ان کے اثرات بہت برے ہوتے ہیں ۔ یوسف مکی کے کیس کی سماعت کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک ملزم کے والدین ہر گز نہیں جانتے تھے کہ ان کا بیٹا منشیات کا استعمال کر تاہے۔جس رات یوسف مکی کا قتل ہوا اس رات دونوں ملزمان جن کی عمر ابھی محض اٹھارہ سال ہوئی ہے منشیات کے نشے میں تھے ’جس کی قیمت آٹھ اونس کی پینتالیس پونڈ ہے ۔دونوں ملزم ایک ریسٹورینٹ میں دیر تک منشیات کا استعمال کرتے رہے اور پھر وہ گاڑی چلا کر ہولمز چیپل میں منشیات لینے گئے ۔انہیں اس مقصد کے لئے مانچسٹر ائرپورٹ کے قریب ایک کنٹری سائیڈ کا پوسٹ کوڈ ٹیکسٹ کیا گیا۔قتل کرنے سے پہلے انہوں نے اس ڈرگ کاکھلا استعمال کیا - پہلے لڑکے نے گو اعتراف کیا کہ اس نے پندرہ سال کی عمر سے ڈرگز کا استعمال شروع کیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے قتل کے جرم سے بری کر دیا گیا۔ یہ علم بھی ہوا ہے کہ جس رات یوسف مکی کا قتل ہوا’ اسی سہ پہر کو یوسف دونوں ملزمان کے ساتھ ہیل بارن ’ بوتھ کے کار پارک میں گاڑی میں بیٹھ کر منشیات استعمال کرتا رہا ۔موت کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یوسف مکی نے بھی منشیات پی رکھی تھیں جبکہ اسی طرح کی منشیات کے اثرات پہلے لڑکے کے خون میں بھی ملے ۔آلٹر نکم کے علاقے میں منشیات گھروں کی پارٹیوںمیں کھلے عام استعمال ہو رہی ہیں۔ قتل سے ایک سال قبل یوسف مکی نے ہیل بارن میں ایک پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کی جس میں پہلے لڑکے کے پاس سے چاقو برآمد ہوا تھا۔ایسی پارٹیاں ساؤتھ مانچسٹر کے دیہاتی علاقے میں عام ہیں۔یہ الگ بات کہ کبھی پولیس نے ایسی پارٹیوں میں چھاپے نہیں مارے اخبار نے اسے پولیس کی نااہلی اور بے حسی سے تعبیر کیا ہے کہ ایک ایسا غیرقانونی کام ہو رہا ہے لیکن پولیس شاید اس لئے چھاپہ نہیں مارتی کہ یہ امیر لوگوں کی پارٹیاں ہوتی ہیں ؟ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں اور نابالغ بچوں میں یہ منشیات عام استعمال ہوتی ہیں جبکہ والدین اس معاملے میں یاتو مکمل طور پر یا تو بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر بے خبر رہتے ہیں ۔تاہم یہاں کسی حد تک اخبار نے والدین کے بری الذمہ قرار دیا ہے کہ یہ پارٹیاں عام طور پر اس وقت ہوتی ہیں جب والدین موجود نہیں ہوتے۔ منشیات کے حوالے سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس قدر مہنگی منشیات بچے کہاں سے لیتے ہیں ؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امیرزادوں کو پیسے کی کمی نہیں ہوتی اور انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں یہ منشیات آسانی سے مل بھی جاتی ہیں۔ یقینا یہ رپورٹ پورے نظام کو ہلانے کے لئے کافی ہے ۔ انتظامیہ کے بڑے اس معاملے پر انگشت بدنداں ہیں۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے کہ پولیس نفری میں کمی کے باعث پولیس کی کارکردگی پہلے ہی بہت ناقص ہے ۔ پولیس کئی کئی گھنٹے جائے وقوعہ پر نہیں پہنچ سکتی۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مانچسٹر کے دیہاتی علاقوں کے ساتھ مانچسٹر سٹی سنٹر میں بھی منشیات کی بو عام ہے۔ پولیس کے گشت کرنے والے افسروں کے پاس سے بھی اگر کوئی چرس پیتے ہوئے گزر جائے تووہ اسے نہیں پوچھتے۔ان حالات میں گیند تو اب پولیس کے کورٹ میں ہے کہ ان کے پاس ان سوالوں کے کیا جواب ہیں۔ تاہم سوال اپنی جگہ پر موجود ہیں اور اس سے کئی اداروں کے سربراہوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں - ایک ایسی نشہ آورچیز جس پر اس ملک میں مکمل پابندی ہے اور جس کو اپنے پاس رکھنا ایک فوجداری مقدمہ ہے ’ وہ کھلے عام مارکیٹ میں بکیں گی تو سوال تو اٹھیں گے ہی ؟۔
تازہ ترین