• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عبدالاعلیٰ درانی… بریڈفورڈ
ہماری معیشت کبھی ٹیکسوں سے بہتر نہیں ہوسکتی ٹیکسز کا نظام اتنا ظالمانہ ہے کہ ساری دنیا اس لعنت سے تنگ آئی ہوئی ہے چھوٹی سی چیز سے لے کر بڑی چیز پر ناجائز ٹیکس عائد ہیں پھر بھی شور ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سوچ کہاں سے جنم لیتی ہے ۔ اور اس کا حل کیا ہے ؟چونکہ ہمارا ہر حکمران ملک کے ساتھ مخلص ہونے کے باوجود اسلامی نظام سے مکمل بے خبر ہوتا ہے ۔ وہ آکسفورڈ کا پڑھا ہوگا یا ایچی سن کالج کالیکن اس نے اسلام کو سمجھنے کیلئے کبھی دینی مدارس کا رخ نہیں کیا ہوتا ۔ حالانکہ سیدھی بات ہے کہ بنیادی تعلیم ہی سے انسان کی زندگی کے خدو خال بنتے ہیں جب اسلام کو بنیادی تعلیم کے طور پر پڑھا ہی نہ جائے گا تو اسے سمجھا کیسے جائیگا ۔ جب اس کو سمجھا ہی نہ جائے گا تو اس پر عمل کیسے کیا جائے گا ۔ہم صرف نماز روزے کو ہی اسلام پر عمل سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام ایک پورے نظام زندگی کا نام ہے ۔ہمارے حکمران چونکہ اس طرز زندگی سے قانونی طور پر اس باغ و بہار سسٹم سے بے بہرہ ہوتے ہیں ۔بدیں وجہ وہ نہ نظام صلوٰۃ قائم کرسکتے ہیں اوراقامت نمازکو ایک پرسنلی عادت جانتے ہیں اورنظام زکوٰۃ کووہ محض خیراتی نظام سمجھتے ہیں ۔ نماز کا کوئی ذکرعملی زندگی میں نہیں اور نظام زکوٰۃ کی بجائے اسلام کے دشمنوں کے بنائے ہوئے معاشی سسٹم ’’نظام ربوٰ۔سودی نظام کوبعینہ استعمال کرتے ہیں اورورلڈ بینک سے چند ارب ڈالر کاقرضہ حاصل کرنے کو کامیابی کی معراج سمجھتے ہیں ۔اس کی خاطروہ علماء اسلام مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر سہیل حسن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اہل علم سے کام لینے کی بجائے ورلڈ بینک کے تنخواہ دار ملازموں جیسے لوگوں سے سالانہ بجٹ بنواتے ہیں ۔اب بتائیے ہم کیسے ترقی کرسکتے ہیں؟ ملک سے مہنگائی کیسے ختم ہوسکی ہے ۔غریب کیسے سکون سے جی سکتا ہے اورملک کو ٹھیک روٹ پر کیسے لیجایا جاسکتاہے ۔ نہ پہلے کوئی لے جا سکا اور نہ عمران خان لے جاسکتا ہے ۔حکمران دنیا سے نابلد، دین سے ناآشنا، اسلام و قرآن سے جاہل مطلق اوران کی سوچ صرف قیصر و کسرٰی کی ذہنی و مادی غلامی ہے انہیں نہ اسلام کا پتہ ہے نہ اس پر عمل پیرا ہیں۔ جو کسی نے بتادیااسی کوقوم کے کانوں میں گھسیڑ دیا ۔ حکمرانوں نے ملک کی اقتصادی حالت کو سدھارنے کاایک ہی راستہ سمجھ رکھا ہے اور وہ ہے ٹیکس کانظام حالانکہ اسلامی مملکت میں ٹیکس ہونا ہی نہیں چاہئے شہریوں کی جان و مال اور صحت و خوراک کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے اور یہ سارا فلاحی سسٹم نظام زکوٰۃ سے قائم ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا یاد رکھیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں یورپین حکومت ( رومن امپائر) نے ظالمانہ ٹیکیسوں کی بھرمار کررکھی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں ان کے خلاف سازش کرکے انہیں پھانسی دینے کا منصوبہ بنایا گیا جسے اللہ کریم نے ناکام بنا دیا۔ مروجہ انجیل میں محصول وصول کرنے والوں کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ارشادات جابجا ملتے ہیں لیکن انہی کی طرف نسبت کرنے والے عیسائی حکمرانوں نے وہی یہود کی طرح ٹیکسوں اور سود ی نظام سے پوری انسانیت کو جکڑ رکھا ہے اور انہی کی دیکھا دیکھی مسلمان حکمران بھی ٹیکسوں کے نظام کو ملک کی اقتصادی ابتری کا حل جانتے ہیں جو غلط ہے استعمال کی معمولی سے معمولی چیز پر بھی سیلز ٹیکس کا اندراج ہوتا ہے ۔ اس طرح کبھی بھی خوشحالی نہیں آسکتی اس کیلئے ہمیں قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا اورقرآنی سسٹم کو نافذ کرنے سے وہی دور واپس آسکتا ہے جب ایک دو ٹکے میں دن بھرکی خوراک کا انتظام ہوسکتا تھا ۔ کیونکہ قرآن کریم نے جو قانون اسلام کی اصل ہے اس نے بتایا کہ جب بھی اہل ایمان اقتدار میں آتے ہیں تو وہ نماز قائم کرواتے اور زکوٗۃ ادا کرواتے ہیں (سورہ الحج ) تو کیسے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کوئی اورراستہ بتائے اور ہم اللہ و رسول کے دشمنوں کابنایاہوا نظام اپنا کر اپنی معیشت بہتر بنانے کا راستہ اپنا سکتے ہیں ۔علامہ اقبال نے اسے سوال وجواب کی صورت میں واضح کیا۔مثلا سوال کیاکہ
پڑھ لیے میں نے علوم شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
پھر اس کاجواب دیا کہ
دست ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ تیمارت کند
کہ ہر ناہل نے مختلف ٹوٹکے تجھ پر آزما کر تیری بیماری کو بڑھا دیا ہے ماں کے پاس آ تیری تیمار داری کرے ۔
تازہ ترین