• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے رگِ جاں میں یہ وصف مستور ہو کر رہ گئی ہے کہ ہم برسراقتدار حکومت کے جانے اور نئی نویلی کے آنے کیلئے بے تاب و بے قرار ہو جاتے ہیں۔ ضیاء صاحب کی آمریت سے بیزار عوام نے 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے آنے پر جشن منایا پھر 1990ء میں ان کی حکومت کے جانے پر کوئی ماتم کرنے والا دستیاب نہ تھا۔ جنہوں نے 1990ء میں میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت پر اسی تناسب سے بھنگڑے پائے تھے۔1993ء میں ان کا بوریا بستر گول ہونے پر کوئی آنکھ تر نہ ملی، یہی عمل دہراتے دہراتے پرویزی آمریت نے وطن عزیز کے درو بام پر دستک دی تو ہم نے انہیں سات نکات سمیت فرطِ جذبات سے گلے لگایا اور میاں صاحب کی سعودی عرب روانگی پر مٹھائیاں تقسیم کیں، میاں صاحب کے بہت پیارے جو اب پھر ان پر وارے جا رہے ہیں، ”جانے والے نے یہ بھی نہ سوچا، ہم اکیلے ہی رہ جائیں گے“ کہتے ہوئے آمریت کی چھتری تلے پناہ گزیں ہو گئے۔ پھر جنرل صاحب کی روشن خیالی وبال جان بن گئی، پیپلز پارٹی و اتحادیوں کے آنے سے ملک میں بادِ نو بہار کا گمان ہوا، لیکن آج پھر وہی بے خوابی کہ نئی صبح طلوع ہو!!
ہم نے ہر آنے والے کو خوش آمدید کہا اور جانے والے پر تبرا بھیجا، نقشہٴ مشہود میں بھی ماضی کا عکس نظر آتا ہے، جو منظر نامہ پرویز مشرف کے جانے اور میاں صاحب اور بی بی محترمہ کے وطن آنے پر بنا تھا، لگ رہا ہے کہ جیسے اسے نظر لگ گئی ہو بقول حضرت حالی #
سماں کل کا رہ رہ کے آتا ہے یاد
ابھی کیا تھا، اور کیا سے کیا ہو گیا
عوام جو آنے والے کیلئے دروبام اور جانے والے کو لعن طعن کرتے ہیں تو وجہ اس کی ظاہر و باہر ہے کہ عوام تو بڑے ارمانوں سے حکمرانوں کا استقبال کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک ماں بڑی چاہت سے نئی نویلی بہو کو لاتی ہے لیکن پھر وہی درد سر بن جاتی ہے۔ اب اس میں قصور نو وارد کا ہوتا ہے یا اس ماں کے انتخاب کا جو خود بھی کبھی بہو تھی …!! اس کا فیصلہ بالکل اسی طرح آج تک نہ ہوسکا جس طرح یہ معمہ حل طلب ہے کہ نااہل سیاستدانوں کو برسراقتدار لانے والے عوام قصور وار ہیں یا ان کے ارمانوں کا خون کرنے والے حکمران !!؟ اور یا پھر یہ پاکستانی خاک سے تراشیدہ اس مزاج کا حصہ ہے جو ساس بہو کی سرشت میں جاگزیں ہے۔
بہرصورت بعض دانا یہ بھی سمجھے ہیں کہ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اس میں ایک تو ساس کی طرح متلون مزاج اس اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے جسے برسراقتدار حکومت کی کوئی ادائے دلربائی جب مشکوک نظر آجاتی ہے تو پھر وہ ساس کی طرح دوسری دلہن یہ کہتے ہوئے لا کر ہی دم لیتی ہے۔
تو ہے ہر جائی، تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی
ہم جیسے کج فہم البتہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا تو بہرکیف اپنی طاقت کے باوصف یہ ”استحقاق“ ہی ہے کہ وہ ”ملکی سلامتی“ کیلئے جب چاہیں ووٹوں کے ذریعے آنے والی حکومت کو چلتا کر دے، ہاں یہ اور بات ہے کہ سب طاقتور ایسے بھی نہیں ہوتے پھر پانچوں انگلیاں بھی برابر نہیں۔ موجودہ حکومت کو دیکھئے کہ اس نے بار بار ”کو دیتا“ کیلئے حالات پیدا کر دیئے بلکہ بسااوقات سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے روبرو جا کھڑی ہوئی لیکن صابرین کا ”صبر“ تاریخ میں سنہرے حروف سے ہی لکھا جائے گا کہ اس نے اس کا جواب محض یہ کہہ کر دیا۔
چاک ہو پردہٴ وحشت، مجھے منظور نہیں
ورثہ یہ ہاتھ، گریباں سے کچھ دور نہیں
اور تو اور اب کے بار اسٹیبلشمنٹ نے روایتی و دیرینہ حلیفوں تک کو گھاس نہیں ڈالی۔ راولپنڈی کے بطل جلیل شیخ رشید صاحب کا تو ذکر ہی کیا، کہ جب سے مسلم لیگ (ن) کی گاڑی ان سے چھوٹ گئی ہے، جرنیلوں کی جیپوں و توپوں کو بلاتے بلاتے ان کا حلق مبارک جیسے جرنیلی سڑک بن کر رہ گیا ہو … اسٹیبلشمنٹ نے تو عمران خان اور دفاع پاکستان وغیرہ وغیرہ تک کو لفٹ نہیں کرائی، یہاں تک کہ جس کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں کی شہرت، شرمسار دم دبائے بھاگتی نظر آئی، اس مقرر اعظم کی زلفوں کے پیچ و خم بھی اسٹیبلشمنٹ کو زیر دام نہ لا سکے۔ حالانکہ اسلام آباد سے پنڈی کو پیغام محبت پہنچاتے ہوئے ان کا دعویٰ کیا خواب تھا!
ادائے مطلبِ دل، ہم سے سیکھ جائے کوئی
انہیں سنا ہی دیا حال، داستاں کی طرح
گزشتہ سے پیوستہ حالات کے پیش نظر بعض نقادوں کی یہ رائے بھی بنتی ہے کہ یہ حکمرانوں کے کرتوت ہی ہوتے ہیں جس کے سبب وہ عوام جنہوں نے سیاستدانوں کو عزت و احترام سے اقتدار کے سنگھانس تک پہنچایا ہوا ہوتا ہے وہ انہیں بے آبرو کرواکر کوچہٴ اقتدار سے نکالنے کیلئے نکل پڑتے ہیں۔
جہاں تک جانے والے حکمرانوں کی یاد کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر آنے والا پچھلے کے گناہ بخشوا دیتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک کفن چور سے لوگ بڑے پریشان تھے، اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا نہ صرف کفن چوری کرتا بلکہ وہ لاش کی بے حرمتی بھی کرنے لگا۔ جس پر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ”خدا بخشے اس کے باپ کو وہ تو صرف کفن چوری کرتا تھا یہ تو لاش کی بے حرمتی بھی کرتا ہے“…!
بعض اصحاب کہتے ہیں کہ کسی حکومت کیلئے صورتحال ناپسندیدہ بنانے میں ایک سے زائد عوامل کار فرما ہوتے ہیں اور چونکہ اصل ہدف جمہوریت ہوتی ہے اس لئے سیاسی حکومت آتے ہی یہ اپنا اپنا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں، وہ اس ڈرامے میں ایک لیکن اہم کردار میڈیا کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں، جس کے گدی نشین ایسی فضا بنا دیتے ہیں کہ سیاسی حکومت کو عوام کے بجائے اپنی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ایسے عالم میں باہم مربوط تمام عوامل سیاسی حکومت کو بالکل اسی طرح عضو معطل بنا کر رکھتے ہیں جیسا کہ موجودہ حکومت اپاہج اور اس کی جمہوریت لولی لنگڑی بنا دی گئی ہے۔ یہ ان عوامل کا کرشمہ ہی ہے کہ حکومت کے منبع و مرکز صدر زرداری ایک موقع پر اعصابی طور پر چاروں شانے ایسے چت ہو گئے تھے کہ ان کے لبوں پر صرف حضرت داغ دہلوی کا شعر، ہی ورد کرتا ہوا جھول رہا تھا۔
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ# جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا
جب استاد صدر زرداری صاحب دبئی کے اسپتال جا پہنچے تھے تو جیالوں سمیت کسی کو یقین ہی نہ تھا کہ صدر صاحب واپس آئیں گے!! اگر باخبر صحافی حامد میر واپسی کی خبر بروقت نہ دیتے تو پیٹریاٹ قسم کے جیالوں نے تو اگلی فلائٹ پکڑنے کا پورا پورا اہتمام کر ہی لیا تھا۔
نہ جانے نخلستان کی کھجوروں نے توانائی بخشی یا کسی نے جان بخشی کی یا پھر امریکہ سے کوئی ٹانک آیا کہ صدر صاحب واپس آئے تو جوہر مزید نکھر چکے تھے۔ آسیب کا خوف تو ہر سیاسی حکمران کو لاحق رہا ہے اور صدر صاحب بھی اسی سے آزاد نہیں ہو سکے لیکن یہ تو بہرکیف ماننا پڑے گا کہ صدر زرداری کی حکمت کے سامنے وہ تمام بقراط زیرو ہو گئے جو گلا پھاڑ پھاڑ کر مسلسل 5 سال تک یہ کہتے رہے کہ آئندہ 48 گھنٹے بہت اہم ہیں، حکومت کے دن گنے جا چکے۔
تازہ ترین