• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ، ہمیشہ ہی وزیر اعظم عمران خان کو اپنی تقریر کا آغاز اس قرانی آیت اور دعا کے ساتھ کرتے دیکھا ہے ، اور ہمیشہ ہی کپتان کو ہاری ہوئی بازی کو جیتتے دیکھا ہے ، ورلڈ کپ92 کی مثال دنیا کے سامنے ہے کہ کمزور اور شکست خوردہ ٹیم کے ساتھ کپتان نے ورلڈ کپ جیتا اور خود کپتان کے الفاظ ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں شروع میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی لیکن ہمیشہ اسے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی اور وہ کامیابی سمیٹتا رہا ، سیاست بھی کپتان کے لیے زندگی کا وہ شعبہ رہا ہے جس میں اس کی حوصلہ شکنی کی گئی لیکن اسے قدرت کی مدد حاصل رہی اور وہ کامیاب ہوتا رہا اور اسی کامیابی کے نتیجے میں دس ماہ قبل کپتان اس ملک کا وزیر اعظم بنا ۔پوری قوم اس بات کی گواہ ہے کہ ابتدائی دس ماہ میں جس قدر تنقید میڈیا میں کپتان پر کی گئی شاید اتنی کسی پر بھی نہیں ہوئی ۔کئی دفعہ تو ایسا لگا کہ شاید حکومت کسی بھی دن ختم کردی جائے یا اپوزیشن کوئی ایسا اتحاد قائم کرےجو پارلیمنٹ میں حکومتی برتری ختم کرکے اسے فارغ کردے تاہم اسی دوران کئی دوست ملکوں نے پاکستان کی معاشی مدد کرکےاقتصادی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ساتھ ہی ورلڈ بینک نے کڑی شرائط پر پاکستان کے لیے بھاری قرضہ منظور کیا ، جس کے بعد ایک بار پھر کپتان نے پاکستانی قوم پر بجٹ کے ذریعے بھاری ٹیکس لاگو کیے ، عوام کے بڑے طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے مشکل فیصلے کیے ، جس کے باعث کپتان کی عوام میں مقبولیت بھی کم ہوئی لیکن پھر بھی کپتان ڈٹا رہا اور آگے بڑھتا رہا ، صرف یہی نہیں بلکہ کپتان نے پاکستان کے دو سابقہ وزرائے اعظم سمیت ایک سابق صدر کو کرپشن کے الزام پر جیل میں ڈال دیا ،جبکہ ایک سابق وزیر اعلیٰ ، ان کے صاحبزادے سمیت درجنوں طاقتور وزراء کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا ، جس کے بعد ایک بار پھر ایسا محسوس ہوا کہ ملک میں معاشی عدم استحکام کے بعد سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہوگیا ہے لیکن کپتان پھر بھی ڈٹا رہا ۔پھر کپتان کے لیے دورہ امریکہ کا وقت آگیا ۔ آج جب اوول آفس میں کپتان امریکی صدر کے ساتھ پر اعتماد انداز میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آیا اور جس طرح امریکی صدر نے وزیر اعظم عمران خان کا استقبال کیا ،جتنی طویل پریس کانفرنس اور جتنے کھل کر میڈیا کے سوالوں کے جواب دیئے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ۔ پاکستانیوں کے لیے سب سے پر مسرت لمحہ یقیناََ وہی تھا جب امریکی صدر سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سوال کیا گیا ،جس پر کپتان نے بہترین طریقے سے اپنا موقف پیش کیا کہ ستر سال پرانے مسئلے نے خطے کے ڈیڑھ ارب لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور کپتان کی حکومت کے قیام کے دس ماہ کے دوران ان کی بھرپور کوششوں کے باوجود وہ بھارت کو مذاکرات کے لیے رضا مند نہیں کرسکے تاہم اگر امریکہ جو دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے ،کردار ادا کرے تو خطے کے ایک ارب سے زیادہ عوام امریکی صدر کےلیے دعا گو رہیں گے ۔جس پرامریکی صدر نے انکشاف کیاکہ خود بھارتی وزیر اعظم نے دو ہفتے قبل ان سے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ثالثی کی درخواست کی ہے اور وہ خوشی محسوس کریں گے اگر پاک بھارت کے درمیان موجود ستر سال پرانے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں کوئی کردار ادا کرسکیں ، امریکی صدر نے کپتان کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت بھی قبول کی ۔ مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر کے بیان اور دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرکے یقیناََامریکی صدر نے بھارتیوں کو شدید تکلیف تو پہنچائی ہوگی لیکن سب چالیں ناکام ہوجاتی ہیں جب قدرت کوئی فیصلہ کرلیتی ہے ۔گزشتہ کئی برسوں سے بھارت کے بنے جال اور کی جانے والی چالاکیاں کپتان کے ایک ہی دورے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔ کپتان کے لیے دورہ امریکہ پاکستان میں بھی سیاسی طور پرمثبت ثابت ہوگااور حکومت کو ایک نئی زندگی مل سکے گی جبکہ اپوزیشن کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔ اس وقت اپوزیشن کے تمام چوٹی کے رہنما سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ عنقریب مزید بھی ہوسکتے ہیں۔ اس وقت کپتان کی ہر کام سے پہلے کی جانے والی دعا ، اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ، قبول ہوتی نظر آرہی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کپتان ایک کامیاب وزیر اعظم بننے کا کپ بھی باآسانی جیت لیں گے لیکن ابھی چار سال باقی ہیں دیکھیں حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔

نوٹ ۔ چند ماہ قبل اپنے کالم میں کینسر کے مرض میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا صحافی ذیشان خان کی بابت لکھے گئے کالم کے نتیجے میں شوکت خانم میں ان کا کچھ علاج ہوچکا ہے جبکہ مزید علاج کے لیے معاشی مدد کی درخواست مشیر اطلاعات سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب کے پاس موجود ہے ۔امید ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر اس غریب صحافی کی مدد اس کی زندگی میں ہی کردیں گے ۔ماضی میں کینیا کے جنگلا ت میں پھنسے ہوئے ایک مجبور پاکستانی کی بیٹی پر تحریر کیے جانے والے کالم کے نتیجے میں سوڈان میں اقوام متحدہ کے پاکستانی نژاد افسر محمد شباب خان اور ان کے دوستوں کے تعاون سے اس غریب پاکستانی کی بچی کی تعلیم مکمل ہوچکی ہے اس شاندار صدقہ جاریہ پر تمام تعاون کرنے والوں کا شکر گزار ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین