• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی دنیاکے گزرے ہوئے ماہ و سال میں بتدریج پستی کی جانب رواں دواں سیاسی منظر نامے کے دوران ہر منزل پر میر تقی میر کا یہ شعر بار بار یاد آتا رہا:

جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں

بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

اپنی دنیا کی تخصیص اس لئے کی گئی ہے جو جسے ہم ’دنیا‘ کہتے ہیں وہ چند عزیزوں ، دوستوں اور قریب ترین سماجوں تک محدود ہوتی ہے: کرہ ارض پر اربوں انسانوں اور سینکڑوں معاشروں کے احساسات اور جذبات کو جاننے کا کون دعویٰ کر سکتا ہے۔ میں اپنے آپ سے متعلقہ ملکوں اور سماجوں کے بارے میں ہی محسوساتی سطح پر رد عمل کا اظہار کر سکتا ہوں۔ اسی لئے مجھے جی ایم سید کی بہت اعلیٰ تحریر ’جیسا میں نے دیکھا‘ کا سر ورق بھی بہت پسند آیا تھا۔ اپنے ماہ و سال کی بھی تحدید اس لئے کردی ہے کہ شاید ہم سے پہلے تاریخ میں کہیں زیادہ بربادیاں ہوئی ہیں جس میں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانا بھی شامل رہا ہے۔ بہر حال ہمارے عہد کے تسلیم شدہ معیار کے سیاق و سباق میں امریکہ میں چالیس سال اور پاکستان میں پینتالیس سالوں سے محض نفرت کی سیاست ہو رہی ہے۔ یہ نفرت کبھی نسل پرستی اور کبھی مذہبی اور فرقہ پرستی کا روپ دھار لیتی ہے۔

ویسے آجکل امریکی میڈیا میر تقی میر کا شعر بار بار دہراتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ایک ہفتے میں چار ترقی پسند رنگدار کانگریس کی ممبران خواتین کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی ہے اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ میڈیا کی روح رواں موجودہ نسل شاید پہلی مرتبہ یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے وگرنہ امریکہ میں تو غلامی بھی کئی سو سال جاری رہی۔ اب حالیہ نسل پر یہ واضح ہورہا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ سفید فام قوم پرستی کا جھنڈا اٹھائے امریکہ کی گوری اقلیت کی سیاسی اجارہ داری قائم رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں: امریکہ میں تیس سال سے کم عمر کے لوگوں میں سفید فام اقلیت میں ہیں جس کا مطلب ہے کہ چند انتخابات کے بعد گوروں کی سیاسی اجارہ داری ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گی۔ ماضی کے چالیس سالوں کو دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ 1980 میں شروع ہونے والے ریگن عہد سے ہی ریپبلکن پارٹی مذکورہ خطرے کو بھانپتے ہوئے سفید فام قوم پرستی کا جھنڈا اٹھا چکی تھی۔

رونلڈ ریگن اور اس کے بعد آنے والے ریپبلکن پارٹی کے کرتا دھرتا بظاہر تو معاشی فلاحی پروگراموں کو ختم کرکے سرمایہ دارانہ منڈیوں کو آزادی دلا رہے تھے لیکن ان کا اصل نشانہ سیاہ فام اور دوسری اقلیتیں تھیں۔ ریگن کے اشتہاروں میں ایک کالی خاتون کو ویلفیئر کوئین (فلاحی نظام کی پروردہ کالی ملکہ) کا بار بار دکھایا جانا اسی سیاسی سفید قوم پرستی کا آغاز تھا ۔ گوری سیاسی اجارہ داری کو قائم و دائم رکھنے کا سارا کھیل پس پردہ ہو رہا تھا جس کو ٹرمپ نے واشگاف انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی کو نہیں بگاڑا بلکہ اس پارٹی نے اسے جنم دیا ہے ۔ بہرحال اب امریکہ میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست موسلا دھار بارش کی طرح برس رہی ہے اور دیکھنا ہے کہ اس میں کون اپنا دامن تر ہونے سے بچا سکتا ہے۔

پاکستان میں نفرت کی سیاست کا آغاز ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا تھا جب انہوں نے قدامت پرستوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مذہبی جنون اور فرقہ پرستی کا دروازہ کھول دیا تھا۔ ضیاالحق بھی اسی ماحول اور اسی نظریاتی سیاست کے پروردہ تھے۔ اس دور سے جو نفرت کی سیاست کی آبیاری کی گئی اس میں پہلے غیر مذاہب اور پھر اقلیتی مسلمان فرقے کونوں کھدروں میں دھکیل دئیے گئے۔ نوے کی دہائی تک تمام اقلیتوں کو ـ’کھڈے لائن‘ لگایا جا چکا تھا۔ اگر غور کریں تو اس عہد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا معاشی فلسفہ ایک ہی تھا لہٰذا ایک دوسرے سے نفرت کی سیاست ہی اقتدار میں آنے کاممکنہ راستہ تھا۔ جب ان دونوں کو اپنی خود کش سیاست کا احساس ہو گیا تو نفرت کی سیاست کرنےوالوں کو نیا نعرہ چاہئے تھا: چونکہ دوسرے مذہب اور اقلیتی فرقے پہلے ہی زیر زمین دھکیلے جا چکے تھے اس لئے ’کرپشن‘ ختم کرنے کا نیا مسلک تخلیق کیا گیا۔ اگر اس نئے مسلک کے اقوال زریں کا مطالعہ کریں اور ان کے تحت بننے والی حکومت کی کارکردگی پر غور کریں تو صاف نظر آجائے گا کہ اس میں سیاست دانوں کے خلاف نفرت ابھارنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت کو دیکھیں تو نفرت کی سیاست کے استعمال کا رجحان اور بھی واضح ہو جائے گا۔ کسی بھی وجہ سے نریندر مودی کے سابقہ دور حکومت میں معیشت تیزی سے (کم از کم 7.3 فیصد سالانہ) ترقی کر رہی تھی ۔ وہ اپنی معاشی کامیابی کے ایجنڈے پر بھی الیکشن لڑ سکتے تھے لیکن انہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیادوں پر انتخابی مہم استوار کی۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی معاشی کامیابیوں کے نعرے پر ووٹ لینے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن وہ بھی اقلیتوں کے خلاف نفرت کے علم بردار ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ شاید مودی اور ٹرمپ نفرت کی سیاست کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ نام نہاد معاشی ترقی کا عوام کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا اور ان کے ادوار میں صرف امیر طبقہ ہی فیضیاب ہوا ہے۔ خیر یہ ایک دوسری بحث ہے لیکن اس کالم میں صرف یہی کہنا ہے کہ ہماری دنیا میں صرف نفرت کی سیاست میں ہی اقتدار میں آنے کامنتر پوشیدہ ہے۔ یہ وہ ڈھال ہے جس کے پیچھے ہر نوع کا نامعقول اور انسان کش نظریہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔

تازہ ترین