• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی امداد نہیں چاہئے، امداد مانگنے سے نفرت ہے، آپ بھکاری بن جاتے ہیں، پرانی حکومتیں غلامی کررہی تھیں، برابری کی سطح پر دوستی کا خواہشمند ہوں،عمران خان

واشنگٹن(ایجنسیاں‘جنگ نیوز)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں امریکی امدادنہیں چاہئے ‘امریکا سمیت کسی بھی ملک سے امدادمانگنے سے نفرت ہے کیوں کہ ایساکرکے آپ بھکاری بن جاتے ہیں ‘پاکستان میں سابقہ حکومتیں امریکا کی غلامی کررہی تھیں‘میں واشنگٹن سے برابری کی سطح پر دوستی کا خواہشمند ہوں‘پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے ‘کسی کو بھی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ‘ہمارے پاس دنیا کی سب سے پیشہ وارانہ فوج ہےجو ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ‘سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کی اطلاع آئی ایس آئی نے دی ‘پاکستان کو بتائے بغیر اسامہ کے خلاف امریکی آپریشن میری زندگی کا توہین آمیز لمحہ تھا ‘ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی دینے پر بات ہوسکتی ہے ‘امریکا سے وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کروں گا‘چند ماہ قبل طالبان نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت افغان صدر اشرف غنی نہیں چاہتے تھے کہ میں ملاقات کروں‘افغان صدارتی انتخابات میں طالبان کی شرکت ضروری ہے اس وقت پاکستان کے امریکا کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں‘دونوں ملکوں کا افغان مسئلہ پر یکساں موقف ہے ‘ افغان جنگ میں پہلا موقع ہے کہ امریکا اور پاکستان ایک صفحے پر ہیں‘ صدر ٹرمپ نے ہمارے دل جیت لیے ہیں‘وہ صاف گوانسان ہیں ‘ لفظوں کی ہیراپھیری نہیں کرتے ‘ہماری حکومت کی ترجیح تمام ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم کرنا ہے‘ پاکستان بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ تنازعہ کشمیر ہے‘ خطہ کی ترقی کےلئے امن ناگزیر ہے‘جوہری جنگ مسئلے کا حل نہیں ‘بھارت جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار ترک کردے گا‘ افغانستان میں امن کیلئے مکمل تعاون کر رہے ہیں‘سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، میرا مقابلہ ان سے تھا جنہیں سپریم کورٹ نے سسیلین مافیا قرار دیا‘امریکا اورایران کے درمیان مصالحت کیلئے تیارہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک ” انسٹی ٹیوٹ آف پیس“ میں خطاب اور امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپنی جدوجہد کے بارے میں شرکاءکو بتایا کہ اسپورٹس کے بعد میں نے سماجی کام شروع کیا‘بعد میں احساس ہوا کہ صرف سماجی کاموں سے ملکی حالات نہیں بدلے جا سکتے، ملکی حالات بدلنے کیلئے سیاست میں آنا ضروری ہے‘ہمارے ملک کی تنزلی کی بنیادی وجہ بدعنوانی ہے، حکمران طبقہ کی کرپشن نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا‘ اقتدار میں آنے کے بعد کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، سب سے پہلا مسئلہ مشکل اقتصادی صورتحال تھی‘سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا‘ ملک کو اس وقت بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے، ادارے مستحکم ہوں تو کالے دھن کو سفید نہیں کیا جا سکتا، اداروں کو اپنے پاؤ ں پر کھڑا کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔عمران خان کا کہناتھاکہ جب صدر ٹرمپ نے مجھے ملاقات کی دعوت دی تھی تو میں تھوڑا پریشان تھا‘ امریکی صدر سے ملاقات خوشگوار تجربہ رہا، جس طرح امریکی صدر نے ہماری مہمان نوازی کی وہ قابل تعریف ہے‘آپ چاہیں یا نہ چاہیں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں‘میرا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ افغان مسئلہ طاقت کی بجائے مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے‘امریکی عوام کو افغان تاریخ کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ افغان مسئلہ کا کوئی آسان حل ممکن نہیں تاہم مل کر پائیدار حل نکال سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب صدرٹرمپ سے ملاقات اور افغان صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ چند ماہ قبل طالبان نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت افغان صدر اشرف غنی نہیں چاہتے تھے کہ میں ملاقات کروں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے اور طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے‘عمران خان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی کیونکہ وہ مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال بن چکی تھی۔دریں اثناءامریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کو انٹریو میں عمران خان نے بتایاکہ بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں‘بھارت جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار ترک کردے گا‘پاکستان نہیں چاہتا کہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی بڑھے‘اس سے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خطے کا امن اور معیشت متاثر ہونے کا خطرہ ہے‘ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے امریکا اور ایران کے درمیان مصالحت کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے‘امریکا واحد ملک ہے جو پاکستان اور بھارت میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔عمران خان کا کہناتھاکہ پاکستانی مسلح افواج پیشہ ور اور ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘پاکستان کا انتہائی جامع اور موثر جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکا سے شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے‘جب اینکر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اکیلے فیصلہ نہیں لے سکتے جس پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ہے‘وزیر اعظم کے لیے اکیلے فیصلہ لینا مشکل ہوتا ہے۔عمران خان نے دعویٰ کیاکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی جانب سے دی گئی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی تھی۔اگر آپ سی آئی اے سے پوچھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی نے ابتدا میں اسامہ کی موجودگی کا ٹیلی فونک لنک امریکا کو فراہم کیا تھا‘ہم امریکا کو اپنا اتحادی سمجھتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ ہم خود اسامہ بن لادن کو پکڑتے لیکن امریکا نے ہماری سرزمین میں گھس کر ایک آدمی کو قتل کر دیا۔وزیراعظم نے امریکی صدرسے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ صدر ٹرمپ صاف گو انسان لگے جو لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں کرتے۔

تازہ ترین