• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہرکراچی میں لوگ چاہے جتنے مرتے رہیں.... کاروبار بے شک ٹھپ ہوتا رہے.. .. ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان ہوتا رہے....روشنیوں کے شہر کو چاہے شہرِ قاتل بنا دیا جائے..... عوام خوف و ہراس کی زندگی گزارتے رہیں.... ہر طرف خون و آگ کا کھیل کھیلنے والے بے شک کھلے عام دندناتے پھریں.... حکمران ہیں کہ اُن پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں۔ اس حد تک انسان دشمنی، ایسی سردمہری، یہ گندی سیاست، اتنی خود غرضی ، ایسی بے شرمی نہ کبھی پہلے دیکھی نہ سنی۔یہ سب اگر پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟؟ ایسی حکمرانی کا جمہوریت کے نام پر اگر دفاع کیا جائے تواس نظام سے گھن نہ آئے تو کوئی کیا کرے۔ سو سو افراد کے مبینہ قاتل بآسانی جیلوں سے رہا ہو رہے ہیں۔ کسی قاتل، کسی بھتہ خور، کسی دہشتگرد، کسی ٹارگٹ کلر کو نشان عبرت نہیں بنایا جا رہا۔ ایسے حالات میں جب 15-15 اور 20-20افراد کو روز موت کی نیند سلا دیا جاتا ہو اور مسئلہ کو سلجھانے کی بجائے اگر تمام تو توجہ لوٹ مار اور جعلی بھرتیوں پر ہی رہے تولوگ بیچارے کیا کریں۔ سپریم کورٹ کہہ کہہ کر تھک گئی کہ پولیس کو غیر سیاسی کر کے اہل افسران کو کراچی کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے ذمہ داری دی جائے، یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ کراچی میں برسر اقتدار تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں چھپے جرائم پیشہ افراد کو بلا امتیاز پکڑے اور سزا دلوائے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مگر ایسا کرنے کے لیے سندھ کے تینوں وزرائے اعلیٰ سمیت کسی کو بھی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی حلیف جماعتیں یہ کام کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ڈمی وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اسی بات پر خوش ہیں کہ انہیں وزیراعلیٰ کہلوانے اور اس دفتر میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ سندھ کے با اختیار ڈیفیکٹو وزرائے اعلیٰ اور صدر زرداری کے انتہائی قریبی اویس ٹپی اور فریال تالپور کے پاس کاروباری مصروفیات اور سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے کراچی کے حالات پر غور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں۔ تینوں اپنے اپنے شغل میں مصروف ہیں اور یہی حالت صدر صاحب کے ماتحت چلنے والی وفاقی حکومت کی ہے۔ آئینی اور قانونی طور پر تمام تر اختیارات رکھنے والے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حیثیت قائم علی شاہ سے مختلف نہیں۔ یہ بیچارے بھی بس اشاروں پر ناچنا جانتے ہیں۔ اگر ڈمی وزیر اعظم اور ڈمی وزیراعلیٰ کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ یہ بیچارے کچھ نہ کچھ ضرور کرگزرتے مگر ان دونوں ڈمیوں کی مثال تواس طاقت ور افسانوی بادشاہوں کی سی ہے جن کی جان پنجرے میں بند طوطے میں ہوتی ہے۔اور ہمارے ان طوطوں کی گردن صدر صاحب کی گرفت میں ہے۔ اپنے ذاتی فوائد اور سیاسی مستقبل کے لیے شاہ صاحب اور راجہ صاحب وہی کچھ کر رہے ہیں جس کا اُن کو حکم دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مستقبل کو بچانے اورعوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ان میں سے کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی مسقتبل کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں تو یہ بھی احساس نہیں کہ ربّ العالمین روز حشر ان کی بادشاہی کے دور میں ایک ایک قتل پر ان سے جواب طلبی کرے گا۔ یہاں تو حضرت عمر جیسے اسلامی تاریخ کے قابل فخر خلیفہ کو اس بات کا خوف تھا کہ اُن کے دور میں دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاسا مرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کے لیے جواب دہ ہوں گے۔ مگر ہمارے بادشاہ اس قدر بے خوف ہیں کہ وہ شاید یہ بھی بھول گئے کہ اُن کو بھی مرنا ہے۔ اس احساس سے مکمل عاری کہ اُن کو کیا کرنا چاہیے اور اُن کی کیا ذمہ داریاں ہیں تا کہ کراچی میں قتل و غارت کو روکا جا سکے، وفاقی اور سندھ حکومت کی تمامتر توجہ غیر قانونی بھرتیوں پر ہے۔ الیکشن کمیشن نے نوکریوں پر پابندی لگا دی مگر یہ پرانی تاریخوں پر ہزاروں جیالوں کو بھرتی کروانے میں مصروف ہیں۔ سندھ میں محکمہ اوقاف کے ایک اعلیٰ افسر کو پولیس کے ذریعے گھر سے اٹھوایا گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تا کہ اس سے غیر قانونی بھرتیاں کروائی جا سکیں۔ پیپکو جو قوم کا سالانہ چار سو ارب روپیہ سے زیادہ ہڑپ کر رہا ہے میں بھی ساڑھے سات ہزار غیر قانونی بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ سندھ کے ایکسائز اور ٹیکسیشن کے ادارے میں بھی چھپ چھپا کر غیر قانونی بھرتیاں جاری ہیں۔وہاں کے تقریباً تمام وزراء اور مشیر اس کام میں مصروف ہیں اور یہی حال کئی وفاقی وزارتوں اور محکموں کا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ریلوے میں صرف پشاور میں 80 ڈرائیورز کو بھرتی کیا جا رہا ہے جب کہ وہاں سے صرف تین ٹرینیں چلتی ہیں۔ سندھ کے وزراء بھی جیالوں اور قریبی عزیزوں کو بھرتی کرنے میں مصروف ہیں۔وفاقی حکومت نے دنیا کے کئی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں سے 42 کمرشل قونصلرز کو فوری واپس بلا کر اپنے چہیتوں کو بھجوانے کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ چہیتوں کو ہر حال میں بیرون ملک ان پر کشش حکومتی عہدوں پر تعینات کیا جا سکے، حکومت نے تحریری امتحان کے پاسنگ مارکس کو ماضی کے برعکس ساٹھ فیصد سے کم کر کے چالیس فیصد کر دیا۔ تحریری امتحان کے رزلٹ کا اعلان کیے بغیر امیدواروں سے انٹر ویو بھی کر لیے گئے تاکہ اپنی مرضی کا میرٹ بنا کر چہیتوں کو ہی بیرون ملک ان اہم عہدوں پر فائز کیا جا سکے، اس سے پہلے کہ حکومت اپنا وقت پورا کر لے۔ اگر وزیراعظم کے داماد کو ورلڈ بینک میں اہم ترین عہدے کے لیے بغیر میرٹ پر بھجوایا جا سکتا ہے تو آخر وزیروں، مشیروں اور ممبران پارلیمنٹ کے بھی بیٹے، بیٹیاں اور داماد ہیں۔ اُنہیں بھی توکچھ نہ کچھ دینا ہے۔ نجانے پھر کس کو موقع ملے اس لیے جوجس کے لیے ممکن ہے، وہ سب کچھ کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا خمیازہ پاکستان یا پاکستان کے لوگوں کو کیسے بھگتنا پڑے گا اس بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں۔
تازہ ترین