• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان کا دورۂ امریکہ کامیاب رہا یا نہیں، اس کا فیصلہ تو صرف وقت ہی کرے گا لیکن فوری طور پر مسئلہ کشمیر پر ایک صحافی کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جو بات صدر ٹرمپ نے کی اُس سے بھارت سٹپٹا اُٹھا ہے بلکہ وہاں ایک طوفان برپا ہو گیا ہے۔ صد ٹرمپ کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے اور کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاید وہ کچھ لمحوں کے لیے مودی کی جپھیاں بھول گئے اور عمران خان کی تعریفیں کرنے لگے، بھارت اور امریکہ کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعاون کو بھی ایک طرف رکھ کر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہونے کی بات کر دی اور یہ بھی کہا کہ مودی نے حال ہی میں اُنہیں کشمیر کے مسئلہ پر ثالث کا رول ادا کرنے کے لیے کہا تھا۔ کل ٹرمپ کیا کہیں گے، کسی کو کچھ معلوم نہیں، امریکہ اور امریکی صدر اگلے لمحے کیسے پاکستان سے متعلق کیا رنگ اپناتے ہیں، یہ بھی کسی کو نہیں پتا لیکن کم از کم ٹرمپ کے بیان نے مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر عالمی سطح پر اس انداز میں اجاگر کیا کہ پاکستان اور کشمیری خوش جبکہ بھارت اور اس کا میڈیا پاگل سے ہو گئے۔ بھارتی میڈیا نے تو ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے دیا لیکن مودی ابھی تک خاموش ہیں۔ بھارتی حکومت نے ایک نرم سا تردیدی بیان تو جاری کیا لیکن یہ نہیں کہا کہ ٹرمپ نے جھوٹ بولا ہے۔ اسی لیے بھارتی اپوزیشن مودی کی زبان سے سننا چاہتی ہے کہ آخر سچ ہے کیا؟ ٹرمپ نے جو کہا وہ چاہے سوال کے جواب میں ہی کیوں نہ ہو، یہ وزیراعظم عمران خان کی کامیابی ہی تصور ہوگی کہ اُن کے دورۂ امریکہ کے موقع پر مسئلہ کشمیر کو اتنی اہمیت ملی۔ آگے کیا ہوتا ہے اس کا انتظار سب کو رہے گا۔

اس ملاقات میں ٹرمپ ماضی کی حکومتوں سے ناخوش نظر آئے کہ اُنہوں نے وہ نہیں کیا جو امریکہ چاہتا تھا لیکن امید ظاہر کی کہ عمران خان وہ کریں گے جو ٹرمپ یا امریکہ چاہتے ہیں۔ افغانستان کے مسئلہ کے پُرامن حل کے لیے وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا لیکن ٹرمپ کی اس بات پر کہ پاکستان نے ماضی میں وہ کچھ نہیں کیا جو امریکہ کے لیے اُسے کرنا چاہئے تھا، وزیراعظم نے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ ہو سکتا ہے یہ حکمت کا تقاضا ہوکہ اُنہوں نے ٹرمپ کو اس موقع پر یہ یاد نہیں دلایا کہ پاکستان کو کس طرح امریکہ نے بار بار استعمال کیا اور ڈو مور، ڈو مور کا تقاضا کرتا رہا۔ عمران خان نے ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اُن کی بہت تعریفیں کیں اور کہا کہ وہ صاف اور کھری بات کرتے ہیں۔ خان صاحب بھی صاف اور کھری بات کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں لیکن امریکی صدر کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق پاکستانی صحافیوں کی طرف سے پوچھے گئے سوال سے وہ کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آئے، جس پر دو پاکستانی صحافیوں طیبہ ضیاء اور متین حیدر نے اپنے وڈیو پیغامات میں حیرانی کا اظہار بھی کیا۔ بعد ازاں ایک امریکی ٹی وی کو اپنے انٹرویو کے دوران اُنہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنے کی بات کی تو پاکستان بدلے میں عافیہ صدیقی کی پاکستان منتقلی کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ اچھا ہوتا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ خان صاحب ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات میں خود اٹھاتے۔ اپنے دورۂ امریکہ کے موقع پر خان صاحب نے بڑے فخر سے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اُن کی حکومت نے آسیہ مسیح کو جیل سے نکال کر بیرونِ ملک بھجوایا۔ خان صاحب نے حافظ سعید یا اُن کی کالعدم تنظیم کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا اُن کی حکومت نے پرائیویٹ مسلح گروپوں کو ختم کر دیا ہے۔

آنے والوں دن فیصلہ کریں گے کہ پاکستان سے امریکہ کیا چاہتا ہے اور کیا حکومت وہ سب کچھ کر سکتی ہے جس کا امریکہ تقاضا کرتا ہے۔ اگرچہ افغانستان اس وقت امریکہ کی سب سے اہم ترجیح ہے اور وہ پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور مستقل امن معاہدے کیلئے تیار کرے لیکن مذہبی آزادی کے نام پر امریکہ پاکستان میں نہ صرف Blasphemy Law (قانونِ تحفظ ِ ناموسِ رسالت) کا خاتمہ چاہتا ہے بلکہ آئین پاکستان کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے پر بھی ناخوش ہے اور اس آئینی شق کے خاتمے کا بھی خواہشمند ہے۔ ہمیں امریکہ سمیت ہر ملک سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں لیکن امید ہے وزیراعظم پاکستان امریکہ یا یورپ کے کسی ایسے مطالبے پر توجہ نہیں دیں گے جس کا تعلق مسلمانوں کے ایمان سے ہے۔

جس وقت ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان وائٹ ہاوس میں ملاقات ہو رہی تھی تو وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور نعیم الحق کو جیو نیوز پر اس ملاقات کے حوالے سے بات کرتے سنا۔ نعیم الحق صاحب نے درست کہا کہ اس ملاقات کا سب سے اہم موضوع افغانستان میں امن کے قیام اور پاکستان کا اس سلسلے میں کلیدی کردار ہے۔ اس کے بعد نعیم الحق نے کہا کہ امریکہ دہشت گردی اور پاکستان میں ایسے گروپوں جو دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں، کے بارے میں بھی بات کرے گا تاکہ حکومت اُن گروپوں کے خلاف مزید سخت اقدامات کرے۔ اُنہوں نے بتایاکہ ہماری حکومت نے پہلے ہی بہت اہم اقدامات کیے ہیں اور پچھلے دنوں حافظ سعید کو بھی گرفتار کیا ہے اور مدارس یاجو بھی اس قسم کے سنٹرز ہیں، اُن پر اب حکومت کا کنٹرول بھی ہے اور جو مدارس کا نصاب ہے، ہم اُس کو بہتر کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ نعیم الحق کو سن کر میں حیران ہوا کہ کس آسانی سے وہ وہی زبان بول رہے ہیں جو امریکہ اور بھارت کی زبان ہے۔ ٹھیک ہے، حافظ سعید کو بین الاقوامی فیصلوں جس کا پاکستان پابند ہے، کے تناظر میں گرفتار کیا گیا اور اُن کی تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت اور اُس کے مشیر اگر غیروں کی زبان بولتے ہیں تو یہ بھی بتا دیں کہ حافظ سعید اور اُن کی کالعدم تنظیم نے کون کون سی دہشت گردی کی؟ ذرا حکومت یہ بھی بتائے کہ ممبئی حملوں میں حافظ سعید کی شمولیت کے بھارت نے پاکستان کو کیا ثبوت دیئے؟ ٹرمپ نے اپنے حالیہ ٹویٹ میں حافظ سعید کو نام نہاد دہشت گرد لکھا لیکن نعیم الحق صاحب تو بہت آگے نکل گئے۔ ٹھیک ہے، حافظ سعید کی وزیراعظم کے دورۂ امریکہ سے پہلے گرفتاری دورے کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی تھی لیکن نعیم الحق ذرا یہ بتا دیں کہ حافظ سعید اور اُن کی کالعدم تنظیم نے ملک کے اندر کون کون سی دہشت گردی کی؟ عمران خان کے ماضی میں حافظ سعید کے بارے میں کیا خیالات تھے؟ کابینہ کے اراکین بالخصوص شیخ رشید اورشہریار آفریدی اس بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ کیا سیلاب زدگان اور زلزلہ متاثرین کی مدد، غریبوں کے لیے اسکولوں، اسپتالوں کا جال بچھانا اور بلوچستان اور تھر جیسے علاقوں میں پانی کے کنوئوں، گھروں کی تعمیر اور دوسرے فلاحی کام کرنا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے؟ کم ازکم امریکہ اور بھارت کی زبان تو نہ بولیں۔ اگر مدرسوں سے متعلق اصلاحات کا تعلق امریکہ سے ہے اور یہ کام بھی حکومت امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ہی کر رہی ہے تو پھر یہ تو بڑے خطرے کی بات ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین