• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا ولولہ۔ ایسا جوش واشنگٹن میں کسی نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔

پاکستان کے بعض صدور۔ وزرائے اعظم کے ساتھ مجھے بھی امریکہ کے دورے پر جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ پاکستانی برادری سے خطاب قریباً ہر صدر وزیر اعظم کرتے رہے ہیں۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں کبھی تمتماتے چہرے۔ سبز پرچم۔ بچے۔ بڑے نوجوان۔ مائیں بہنیں یکجا نہیں ہوئی ہوں گی۔ یہ نہ تو پٹواری ہیں۔ نہ اسکول ٹیچر۔ نہ ہی کسی اور سرکاری دفتر کے ملازم۔ نہ کسی سیاسی وڈیرے کے ہاری۔ نہ کسی سرمایہ دار پارٹی سربراہ کے سیاسی غلام۔ یہ سب با شعور سمندر پار پاکستانی ہیں۔ جمہوری ملکوں میں رہتے ہیں۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ زندگی کی آسانیاں ہیں۔ ایک سسٹم ہے۔ جس کے تحت شہر گائوں مقامی حکومتیں۔ ریاستی حکومتیں۔ وفاقی حکومتیں چل رہی ہیں۔ کسی کو یہ جرأت تو کیا خیال بھی نہیں آتا کہ اسے کسی چھوٹے سے چھوٹے قانون کو بھی توڑنا ہے۔بچوں کی پرورش بھی مروجہ قوانین کے تحت ہوتی ہے۔ کوئی وزیر۔ سفیر۔ ایم این اے۔ ایم پی اے کسی غیر قانونی کام کی سرپرستی نہیں کرتا۔ سب ٹیکس دیتے ہیں۔ سب دستاویزی معیشت کے قائل ہیں۔ سب کے اخراجات اپنی آمدنی کے اندر رہتے ہیں۔

یہ اپنے گھروں سے دس ہزار میل دور تلاش معاش میں آئے ہیں۔ انہیں اپنے وطن میں اگر میرٹ پر باعزت روزگار مل جاتا تو یہ اتنی دور پردیس نہ آتے۔ ان کی ڈگری کی اگر وہیں قدر ہوتی تو ان اجنبی گلی کوچوں میں کیوں گھومتے۔

میں انہیں 70کی دہائی سے دیکھ رہا ہوں۔ کبھی انہوں نے اپنی امیدیں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ کیں اور انتظار میں رہے کہ ملک میں حالات سنور جائیں تو وہ واپس اپنے شہروں میں چلے جائیں جہاں ان کے بزرگوں کی قبریں ہیں۔ جہاں وہ گلیاں ہیں۔ نکڑ ہیں۔ جہاں ان کا بچپن گزرا وہ اپنے محبوب رہنمائوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ایئرپورٹوں پرپہنچتے رہے۔

انہوں نے پھر مسلم لیگ (ن) سے بھی اسی طرح کی توقعات وابستہ کیں۔ ان کے خیر مقدم بھی اسی طرح کرتے رہے۔ اپنے ملک سے کوئی بھی وزیر آتا تو یہ ان کو لئے لئے پھرتے۔ گھماتے۔ شاپنگ کراتے کہ انہیں گلہ نہ ہو کہ وطن سے دور آیا، ہم وطنوں نے ان کی خدمت نہیں کی۔

یہ اپنے لیڈروں کے کہنے پر ان ملکوں میں اپنی پارٹی کی شاخیں قائم کرتے رہے۔ حالانکہ یہاں ان کی پہچان صرف اور صرف سبز پاسپورٹ تھا۔ یہ اپنے ملک کے رفاہی اداروں میں بھی عطیات دیتے رہے۔ بعض نے اپنے علاقے میں معیاری اور مفت تعلیم کے لئے اسکول بھی تعمیر کروائے ہیں۔ بعض نے اسپتال بھی قائم کئے ہیں۔ انڈس اسپتال۔ شوکت خانم اسپتال اور ایسے دوسرے اسپتالوں میں ہزاروں لاکھوں ڈالر کے عطیات بھی دیتے ہیں۔ یہ جن ملکوں میں رہتے ہیں وہاں زندگی کی جو آسانیاں دیکھتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے دیس میں بھی ان کے رشتے داروں،دوستوں احباب اور ان کے خاندانوں کو ایسی ہی ٹرانسپورٹ ملے۔ ایسی ہی فرض شناس پولیس ملے۔ ایسے ہی معیاری تعلیمی ادارے نصیب ہوں۔

ان ترقی یافتہ ملکوں میں رہتے ہوئے ان کا سیاسی،سماجی شعور بہت روشن ہوگیا ہے۔

اس اتوار کو وہ عمران خان سے بھی ایسی ہی توقعات لے کر دور دراز ریاستوں اور شہروں سے پہنچے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ سب پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہوں۔ ان کے گھر والوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے ہوں۔ یہ عمران خان کو پہلے باریاں لینے والے لیڈروں سے مختلف دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے اتنی بڑی تعداد میں نہ جانے کہاں کہاں سے لانگ ڈرائیو کرکے آئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ بند ہوجائے۔ غیر قانونی بھرتیاں ختم ہوجائیں۔ قانون کی حکمرانی ہو۔ میرٹ کا راج ہو۔ ملک کو ہزاروں ارب روپے کے قرضوں سے نجات ملے۔

یہ سمندر پار پاکستانی۔ پاکستان سے دور ہیں۔ لیکن ان کے دل میں پاکستان بستا ہے۔ یہ پاکستان کی کامیابی پر ہم سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ ناکامی پر ہم سے زیادہ دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ عمران خان کے لئے آئے ہیں۔ لیکن در اصل وہ پاکستان کے لئے آئے ہیں۔ پاکستان سے آنے والا ہر وزیر اعظم ہر صدر ان کے لئے لائق تعظیم رہا ہے۔ لیکن انہیں حکمراں بہت زیادہ مایوس کرتے آرہے ہیں۔ اب عمران خان کی آزمائش ہے کہ وہ ان کی توقعات پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔

میرا تو یہ ایمان ہے کہ پاکستان میں تبدیلی سمندر پار پاکستانی لاسکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہن ان جمہوری ملکوں امریکہ کینیڈا میں رہ کر بہت کھل گئے ہیں۔ انہیں قانون کی حکمرانی اور میرٹ پر تقرری کا شعور ہے۔ان میں سے ایک تعداد ایسی ہے کہ وہ اپنے تعصبات۔ تضادات اور غلط رویے وہاں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ وہ وہاں بھی فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ وہاں بھی لسانی تقسیم غالب رکھتے ہیں۔ ان پر وہاں کی اعلیٰ معیاری یونیورسٹیاں۔ معلومات سے معمور عجائب گھر۔ لاکھوں کتابیں رکھنے والی لائبریریاں بھی کوئی اثر نہیں ڈال پا ئیں۔ وہ وہاں بھی پارٹی وابستگی کے سحر میں کھوئے رہتے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے۔ کتابوں نے بتایا ہے کہ ان کے مقابلے میں بھارتی نژاد امریکی صرف اپنے وطن سے وابستگی کی پہچان غالب رکھتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے یوم آزادی۔ یوم جمہوریہ سب مل کر مناتے ہیں۔ انہوں نے بیرون ملک سیاسی پارٹیوں کی شاخیں نہیں بنائیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھارت کو امریکہ کے قریب لانے والے یہ بھارتی نژاد امریکی ہی ہیں۔ انہیں Non Resident Indian(این آر آئی) کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض امریکی ریاستوں کے گورنر بھی بن گئے ہیں۔ کسی دن کوئی بھارتی نژاد امریکی صدر بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کینیڈا میں کئی بھارتی نژاد وفاقی وزیر بن گئے ہیں۔ کوئی عجب نہیں کہ کسی وقت کینیڈا کا وزیر اعظم بھی بھارتی ہوجائے۔

ہمارے سمندر پار پاکستانیوں کے پاس شعور بھی ہے۔ دولت بھی۔ روشن خیالی بھی۔ وہ اپنے ملک سے مذہب سے بے کراں محبت کرتے ہیں۔ بے باک ہیں۔ حق گو ہیں۔ ان کے ذہنی افق بہت بلند اور وسیع ہیں۔ ہمارے حکمراں ان کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ ان سے وعدے کرتے رہے۔ یہ سرمایہ لے کر پاکستان آتے۔ انہیں ہر قدم ہر سرکاری محکمے میں لٹیرے ملتے رہے ہیں۔انہیں آزادی سے سرمایہ کاری نہیں کرنے دی جاتی۔ ان کے پلاٹوں۔ بنگلوں پر قبضے کرلئے جاتے ہیں۔ ایک کے گھر میں تو کراچی میں پولیس اسٹیشن قائم کردیا گیا تھا۔

یہ با عزت لوگ ہیں عزت چاہتے ہیں۔ انہیں دولت ورثے میں نہیں ملی۔ شب و روز محنت سے نصیب ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ہوں۔ وکیل۔ کمپنیوں کے سربراہ۔ ملازم۔ یہ پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اگر یہ فرقوں میں نہ بٹیں۔ سیاسی جماعتوں کی شاخیں نہ کھولیں۔ صرف پاکستانی کی حیثیت سے متحد ہوجائیں۔ یہ پاکستان کو بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ پاکستان میں اچھے حکمراں لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ان سب کی آنکھوں میں چمک یہ کہہ رہی ہے۔’’عمران خان۔ ہم سے دھوکہ تو نہیں کروگے۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین