• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی عدالت کا کوئی فیصلہ آتا ہے تو عموماً ایک فریق خوش ہوتا ہے تو دوسرا رنجیدہ۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے متعلق عالمی عدالتِ انصاف کا حالیہ فیصلہ اس حوالے سے دلچسپی کا حامل ہے کہ پاکستان اور ہندوستان، ہر دو ممالک کی سیاسی و سفارتی قیادتوں اور میڈیا نے اس پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے اسے اپنی اپنی فتح قرار دیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی اخلاقی و سفارتی جتنی بھی اہمیت مان لی جائے تو بھی خودمختار ریاستوں کی کورٹس کو جس نوع کی قوتِ نافذہ حاصل ہوتی ہے وہ اس کے پاس بہرحال عنقا ہوتی ہے۔ اس لئے عالمی عدالتِ انصاف بالعموم فریقین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے یا پھر اگر کوئی صریحی زیادتی پر ہو تو اسے عالمی دباؤ یا تنقید کا ہدف بنوانے کے لئے واضح موقف لیتی ہے۔ فریقین بالعموم اپنے ایسے موقف کے حق میں بھی دلائل دے رہے ہوتے ہیں جو بادی النظر میں تسلیم کیا جانا ممکن نہیں ہوتا اسے ایک طرح سے نفسیاتی حربہ کہا جا سکتا ہے کہ سو مانگیں اور ففٹی لے لیں۔

بھارت سرکار کو بھی یہ معلوم تھا کہ اس کا جاسوس جس طرح رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اُس کی فوری بریت و رہائی ممکن نہ تھی۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو ملک کی اعلیٰ سویلین عدالتوں میں چیلنج کیے جانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس امر کو عالمی عدالتِ انصاف نے بہ نظرِ تحسین دیکھا ہے اور یہ امید اپنے فیصلے میں دلائی ہے کہ اس کی اپیل نہ صرف یہ پاکستان کی متعلقہ ہائیکورٹ میں ہو سکے گی بلکہ دوسری اپیل سپریم کورٹ میں بھی قابلِ سماعت ہو گی۔

پاکستان یقیناً اس امر پر خوشی کا اظہار کر سکتا ہے کہ بھارت نے اپنے جاسوس کی بریت یا رہائی کے لئے جو بنیادی مطالبات کیے تھے وہ یکسر مسترد کر دیے گئے ہیں گویا عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن یادیو کے مسلمہ جاسوس ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے اس سے پاکستان کو سیاسی و سفارتی سطح پر یہ فائد ہ پہنچا ہے کہ پوری دنیا کی مہذب اقوام میں انڈیا کا یہ پروپیگنڈہ جس مضبوطی سے چل رہا تھا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت میں پیہم مداخلت یا دہشت گردانہ کارروائیوں کا مرتکب ہوتا رہتا ہے اُسے کم از کم یہ ایک واضح جواب مل گیا ہے کہ ایسے تمام تر الزامات یا ثبوتوں کے باوجود بھارت بھی یک طرفہ طور پر کلین ہینڈ نہیں ہے۔ قانون کا یہ مسلمہ عالمی اصول ہے کہ اگر آپ کسی کے خلاف شرارتوں کا واویلا کرتے ہیں تو خود بھی شرافت کے علمبردار بنیں۔

ہمارے دفترِ خارجہ کا یہ اعلان قابلِ تحسین ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہونے کی حیثیت سے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی روشنی میں نیول کمانڈر کلبھوشن یادیو کو ویانا کنونشن کی دفعہ 36کے پیرا گراف ون بی کے تحت اس کا حق دینے کے لئے اپنے قوانین کے تحت قونصلر رسائی فراہم کرنے جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے عالمی عدالت کے 15ججز کے بھاری اکثریت سے جاری ہونے والے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے یوں نہ صرف یہ کہ بھارتی ملزم کلبھوشن یادیو کی سزائے موت ٹل گئی ہے بلکہ اس کے ری ٹرائل میں سزا میں تخفیف بھی ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ان دنوں جن تلخیوں سے گزر رہے ہیں انڈین جاسوس کو ایسی کسی شدید سزا کی صورت میں یہ تلخیاں کئی گنا مزید بڑھ سکتی تھیں اور عوامی سطح پر سوائے منافرت کے ہمیں ایسی کوئی بڑی کامیابی ملنے نہیں جا رہی تھی کیونکہ اندرونِ ملک مداخلت یا کارروائی کا یہ کوئی پہلا یا آخری الزام نہیں تھا جو بھارت پر لگا ہے، اس نوع کے الزامات پاکستان پر بھی لگتے ہیں۔ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر کو گرفتار کیا ہے تو اس کے پیچھے ممبئی بم دھماکوں کا خوفناک الزام ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوری ٹویٹ کرتے ہوئے سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی ہے کہ یہ میرے دو سالہ دباؤ کا نتیجہ ہے۔

آج اگر پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کو سچائی اور انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں تو یہ درحقیقت خطے کے پونے دو ارب انسانوں کی جیت ہے۔ اقوامِ عالم کے درمیان انتہائی سزائیں مسائل کا حل نہیں ہوتی ہیں بلکہ انہیں کئی گنا بڑھاوا دینے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی وقار ملزموں کو تاحیات جیلوں میں ڈالنے سے بھی قائم رہ جاتا ہے، نیز اس صورت میں آنے والے دنوں یہ گنجائش موجود رہ جاتی ہے کہ آپ کا اپنا ایسا ہی کوئی ملزم اگر دوسری طرف قابو آگیا ہو تو آپ دو طرفہ پر وقار سمجھوتہ کرتے ہوئے کچھ لینے دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ابھی نندن کے معاملے میں حالیہ دنوں ہم اعلیٰ و ارفع اخلاقی و سفارتی اقدار کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں جس کے متعلق راقم کی رائے تھی کہ اسے فوری رہائی نہیں دی جانا چاہئے۔ اسی طرح جاسوس کلبھوشن کے متعلق درویش کی روز اول سے یہ رائے تھی کہ اسے سزائے موت سنانے میں حرج نہیں مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہونا چاہئے۔ سفارت کاری کے ذریعے اسے عمر قید میں بدلا جا سکتا ہے کیونکہ پھانسی کسی حوالے سے بھی وطنِ عزیز کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہوگی۔

تازہ ترین