• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں رکاوٹوں کی بات کی جائے تو اِس ضمن میں ناقابل علاج مسئلہ احساس محرومی ہے۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو سوچ و فکر سے محروم ہونے کو اگر احساس محرومی کا نام دیا جائے تو یہ محرومی کی صحیح تشریح ہوگی۔ صوبے کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے احساس محرومی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کا ذمہ داریوں کو قبول نہ کرنا اور احساس ندامت کا نہ ہونا ہے۔ بلوچستان غریب صوبہ نہیں لیکن یہاں سیاسی سوچ غریب ضرور ہے۔ بلوچستان کے معدنیات کے شعبے میں 50کے قریب منرلز ہیں جن میں کاپر، گولڈ، کوئلہ، کرومائیٹ ماربل سرفہرست ہیں جوکہ صوبے میں مدفن ہیں۔ بلوچستان نے 2002میں انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ سے محکمہ مائنز اینڈ منرلز کو الگ کیا لیکن 17سال گزرنے کے باجود محکمہ کے پاس اب تک ایسے کوئی آلات نہیں ہیں کہ ریت اور سونے میں تفریق کر سکیں۔ محرومی کے خاتمے کے دشمن اس محکمہ کو حکومتی سطح پر کبھی ایسی توجہ نہیں دی گئی جس کا تقاضا بلوچستان کے حالات و مسائل نے کئے رکھا۔ محکمہ معدنیات نے امسال محکمہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور جدید اصلاحات کے مطالبے کیلئے 9ارب روپے کے بدلے موجودہ حکومت نے صرف 10کروڑ روپے دئیے ہیں۔ اس محکمے کے ذریعے عام آدمی کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ صوبے کی معیشت کو بھی سہارا دیا جا سکتا تھا۔ بلوچستان اپنے مسائل کا ذمہ دار ہمیشہ وفاق کو ٹھہراتا آرہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں وفاق نے وہ توجہ صوبے کی جانب نہیں دی لیکن آج صوبے کا ترقیاتی بجٹ 108ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک جیسے کھربوں روپے کے منصوبے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے منصوبے قرار دئیے جا رہے ہیں۔ ان منصوبوں کو ایک ایسے محکمے کے ذریعے دیکھا اور سنبھالا جا رہا کہ جس کے پاس ریت اور سونے کے درمیان فرق معلوم کرنے والی مشین موجود نہیں۔ شومئی قسمت صوبائی پی ایس ڈی پی میں امسال اپنے کمائو بچے محکمہ مائنز منزل کیلئے صرف 10کروڑ جبکہ وفاقی حکومت کے کمائو بچے واپڈ کیلئے نئے گریڈ اسٹیشنوں پرانے گریڈ اسٹیشنوں کی مرمت اور ٹرانسفارموں کی تنصیب کیلئے 3ارب 7کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

بلوچستان کاپر گولڈ پروجیکٹ بنا پھر نہ پروجیکٹ رہا نہ کاپر رہا۔ پیسہ صرف ضائع کردیا گیا اگر یہی رقم محکمہ مائنز کو جدید خطوط کی جانب لے جانے پر خرچ ہوتی تو آج یقیناً یہاں پر سرمایہ کاری ہونے کے ساتھ ساتھ عام بلوچ کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا۔ بلوچستان میں حقیقی قیادت کا فقدان تو دیکھیں کہ قدرتی ذخایئر سے مالا مال بلوچستان محکمہ مائنز کے ذریعے سالانہ صرف 2ارب روپے جبکہ اس کے مقابلے میں زرعی پنجاب محکمہ مائنز کے ذریعے 12ارب روپے سالانہ ریونیو جمع کرتا ہے۔محکمہ مائنز کے ذخائر کو بروئے کار لانے اور احساس محرومی کو اس کے ذریعے ختم کرنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جب تک حکومت سرمایہ کاری نہیں کریگی تو یہاں پر باہر کا سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ محکمہ مائنز نے امسال 17سال بعد پہلی دفعہ اپنی پالیسی بنائی ہے جو پڑھے لکھے نوجوان سکریٹری کی ذاتی کاوش ہے۔ ہم عالمی عدالت میں ریکوڈک کا کیس لڑرہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنی استعداد نہیں کہ ہم اپنی بے جان معدنیات کو چیک کر سکیں۔ دوسروں کے وسائل کے محتاج ہیں۔ ہمیشہ صوبے میں سرداروں کے مفادات کا اس شعبے میں زیادہ جبکہ صوبے کے مفادات کا کم خیال رکھا گیا ہے۔ اگر کسی مائنز سے سرکار کو ٹیکس 100روپے ملتا ہے تو اس کے مقابلے سردار کو 300روپے ملتا ہے۔ ٹیکس کو کسی بھی چیز پر بڑھانے کیلئے کابینہ اور اسمبلی کی منظوری لازمی ہے جبکہ بلوچستان میں اکثر ارکان اسمبلی و دیگر بااثر شخصیات اس محکمہ سے مستفید ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اس سلسلے میں قانون سازی اور ٹیکس کو بڑھانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ دو ارب روپے صوبے کو اگر سالانہ ریونیو مل رہا ہے تو وہ بھی غیر ملکی کمپنیوں سے جن پر ہر سال زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ باقی کسی مقامی شخص یا جس کو لیز کی الاٹمنٹ کی ہے اسے کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ معدنیات کی کانوں سے پورا صوبہ چلایا جاسکتا ہے لیکن جن علاقوں میں معدنیات کے بڑے پروجیکٹس چل رہے ہیں، ناقص پالیسیوں اور حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے پورے بلوچستان کو تو چھوڑ دیں ان علاقوں کے لوگوں کی حالت میں بہتری نہیں لائی جاسکی۔ واضح رہے کہ صوبے کی تقدیر بدلنے والی ان معدنیات پر مکمل اجارہ داری اس وقت ان لوگوں کی ہے جو صوبہ بلوچستان کے اصل احساس محرومی کا ذکر کرکے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں اور یہ ہر آنیوالی حکومت میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتے ہیں اور مائنز سمیت دیگر محکموں میں صوبائی مفادات کی پالیسیاں بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔

تازہ ترین