• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1857کی جنگ آزادی میں ناکامی ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں سب سے بڑا سانحہ تھا اور یہ ان سانحات کا نقطہ عروج اور منطقی نتیجہ تھا جن کا آغاز 1757کی جنگ پلاسی سے ہوا۔ انگریزوں نے اسے غدر کا نام دیا حالانکہ جنگ ِ آزادی کے مجاہدین کی ایمان افروز داستانیں پڑھیں تو خون رگوں میں تیزی سے دوڑنے لگتا ہے اور قاری ان کے جذبہ جہاد اور بہادری کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس جنگ میں شکست کی بڑی وجہ مرکزی قیادت کا فقدان، نظم و سبق کا قحط، وسائل کی کمی، انگریزوں کی شاطرانہ چالیں، بہتر اسلحہ اور فوجی تربیت اور سب سے سے بڑھ کر اپنوں کی ضمیرفروشی اور بے وفائی تھیں۔ اسے اس لئے غدرکہنا چاہئے کہ اس میں جاگیرداروں اور غداروں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور اپنے بھائیوں کی ذلت کاباعث بنے۔
جس وقت ہمارے عہدیدار ، جاگیردار اور ”بڑے“ وطن فروشی اور انگریزوں سے اہل وطن کی لاشوں کے بھاؤ تاؤمیں مصروف تھے ہماری عورتیں میدان جنگ میں اتر آئیں اورشجاعت وبہادری کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی مثالیں نہیں ملتیں۔ پردہ نشین عورتوں کا کردارتوبجا تھا لیکن ناچ گانے والیوں کے گروہوں نے بھی جرأت، بہادری اور سرفروشی کی داستانیں اپنے خون سے لکھیں۔
میدان عمل میں ہمارے ان ”بڑوں“ کا کردار بیسواؤں اورپیشہ ور ناچ گانے والیوں سے بھی بدتر نکلا جو وطن کی خاطر اپنی جانیں دے کرلاشوں کے ان بیوپاریوں کے منہ پر حقارت سے تھوک گئیں۔ کانپور کی پری جمال عزیز النساء عرف عزیزن بائی کا تاریخی کردار ہمارے قارئین کے لئے انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
رانی جھانسی اور بیگم حضرت محل کے نام انگریزو ں کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھے لیکن جھانسی میں ہی ایک رقاصہ جھلکاری بائی رانی کا بھیس بدل کر میدان میں انگریزوں کی گولیوں کا مقابلہ کرتی رہی بالآخر توپ کا ایک گولہ سیدھا اس کے سینے میں لگنے سے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئی۔ ایک مرہٹے انقلابی پیشوا کی بیٹی رقاصہ مینابائی اپنی 8ساتھی عورتوں کے ہمراہ تلواروں سے دست بدست انگریز سپاہ سے لڑتی ہوئی گھیرے میں آ کر گرفتارہوگئیں جنہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر زندہ آگ میں جلا دیاگیا۔ ایک انگریزمورخ نے لکھنوٴ کے سکندر باغ کی سیاہ بنجارن عورتوں کا ذکر کیا جوجنگلی شیرنیوں کی طرح لڑتی ہوئی مادرِ وطن پر قربان ہوگئیں۔ دہلی کی ایک جانباز گھڑسوار بڑھیا مردانہ لباس پہنے سرپرپگڑی باندھے اچانک کہیں سے نکل کر ایک بلا کی طرح انگریز سپاہیوں پر جھپٹ پڑتی اور ماردھاڑکے بعد فوراًغائب ہو جاتی تھی۔ میجر ہڈسن نے اپنی ڈائری میں اس بڑھیا کی طاقت و کارکردگی کو پانچ مردوں کے برابر لکھا ہے۔ آخر کار وہ گرفتار ہو کرجیل میں بند کردی گئی۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر عجیب و غریب کہانی ”عزیزن بائی“ کی ہے۔ اس کا اصل نام عزیز النساء تھا۔ مشہور تاریخ دان کرنل ولیم نے بھی اس کا تفصیلاً ذکر کیاہے۔ لکھنو ٴ ، کانپور اور گرد و نواح کے بانکے، چھبیلے اور لاابالی نواب زادے و رئیس زادے اس کی ہر ایک ادا پر فدا تھے۔ امرا و شرفا ء کی محفلیں اسی پری جمال کی آمد سے سجائی جاتیں۔ مرہٹہ انقلابی رہنمارام چند راؤ عرف نانتیا ٹوپے اس کادلداہ و دلی احترام کرتا تھا۔
لیکن وہ ایک سچی فنکارہ تھی جس کے بالاخانے میں ناچ گانے کے علاوہ کسی قسم کی لچر بازی یا غیرشائستہ حرکت کاتصور بھی محال تھا۔ وہاںآ نے والا ایک مہذب و شائستہ ماحول کا حصہ بن جاتا تھا۔ اذان کے وقت وہ اپنے مرمریں جسم اور دراز زلفوں کوچادر و دوپٹے میں ڈھانپ لیتی تھی۔ سریلی آواز کے ساتھ ساتھ تہذیب ، حسن اخلاق و شرافت توگویا اسی کے لئے مخصوص تھی۔
اس کے بالاخانے پر آنے والے امرا اوررؤسا اور نوابزادوں کے درمیان کانپورکے باغی (حریت پسند) سپاہیوں کا کمانڈرشمس الدین بھی تھا۔ تیس سالہ یہ کمانڈر ایک لمبا تڑنگا اور وجیہہ مرد تھا ۔ اس کی مردانہ وجاہت میں بلا کی کشش تھی۔ وہ دیرتک عزیزن کے بالاخانے میں نہایت مہذب طریقے سے ایک کونے میں خاموش بیٹھا بس اسے دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھار بہادر شاہ ظفر کی غزلوں کی فرمائش بھی کردیتا تھا۔
بانکا شمس الدین ایک خونریز معرکے میں لڑتا ہوا جام شہادت نوش کرگیا۔ اس خبر کو سن کر وہ چکرا کر گرگئی۔ اس سے پہلے اس کا جواں سال بھائی انگریز کی گولیوں کا نشانہ بن چکا تھا۔
موتئے و چنبیلی کے گجروں میں لپٹے رعنائی ہاتھوں نے اب توڑے دار بندوق اورتلوار سنبھال لیا۔ اس کی ایک آواز پر علاقے کے سارے جوان مرد گروہ درگروہ حریت پسندوں میں شامل ہونے لگے ۔ اس نے کانپور ولکھنو ٴ کی مجاہد عورتوں اورہم پیشہ رقاصاؤں کا اپنی کمانڈ میں ایک بریگیڈ تیار کیا۔ عزیزن قہر کی علامت اورمجسم بجلی بن گئی۔
شروع میں عزیزن بریگیڈ کا کام جگہ جگہ گھوم کر عورتوں و مردوں کو جنگ ِ آزادی کے لئے تیار کرنا، جاسوسی اورمیدانِ جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ اس دوران اس نے گھڑ سواری، تلوار و بندوق کا استعمال بھی سیکھ لیا۔ وہ اگلی صفوں میں برستی گولیوں کے درمیان جاکر سپاہیوں کاحوصلہ بڑھاتی اوران میں پانی و خوراک تقسیم کرتی۔ وہ اوراس کابریگیڈ کانپور، لکھنوٴ اور گردونواح میں نہایت چالاکی و بہادری سے جنگی خدمات سرانجام دیتا۔
ماضی کی اس رقاصہ بائی کا یہ انوکھا کردار گھریلو عورتوں کے لئے ایک قابل تقلید مثال بن گیا ۔ انہوں نے بھی اپنے شوہروں اور رشتہ داروں کوجنگ کے لئے تیار کرنا شروع کردیا۔
انگریز مورخین و جنگی کمانڈروں کی تحریروں میں کثرت سے عزیز النساء کاذکرملتا ہے۔ مٹکاف، کرنل ولیم، مسز ہوسٹ انگلیس، ہومز سب نے اس کا ذکر کیا لیکن متعصب ہندو مورخین اسے صرف عزیزن بائی کہہ کرآگے بڑھ جاتے ہیں۔
شہر کے بی بی گھر میں ڈیڑھ سو انگریز عورتیں قیدی تھیں جومیدان جنگ میں مدد اورجاسوسی کے الزام میں پکڑی گئی تھیں۔ عزیزن اس جیل کی انچارج بھی تھی۔ یہ قیدی عورتیں یہاں سے بھی خبریں اکٹھا کرکے چوری چھپے انگریزوں تک پہنچارہی تھیں۔ کئی ایک کمانڈروں کی مخالفت کے باوجود عزیزن ان سب کوقتل کردینے پربضد تھی بالاخراس نے بعض انقلابی رہنماؤں کواپناہمنوا بنا لیا اور سب انگریز قیدی عورتوں کو مارکرلاشیں قریبی کنوؤں میں پھینک دیں۔ اس قتل عام پربرطانیہ کے ایوانوں میں ایک طوفان آ گیا۔ اخبارات نے بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ ان خبروں کو نمایاں کیا۔اس پر عزیزن اوراس کے بریگیڈ کی گرفتاری کے لئے خصوصی انگریز دستے تشکیل دے دیئے گئے اور ان کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا۔ عزیزن ان سب سے بے پرواہ جنون کی حد تک اپنے مشن میں مصروف رہی۔ جذبہ ٴ جہاد نے اسے پھولوں و گھنگرو میں لپٹی نازک اندام رقاصہ کی بجائے آگ کا ایک مہیب شعلہ بنا دیا تھا جو سب کچھ جلاکر بھسم کردینے میں مصروف تھا۔
لیکن ایک دن سخت مقابلہ کے بعد وہ دیگر چند مجاہدین کے ہمراہ گرفتار ہوگئی۔ اسے مقامی انگریز کمانڈر جنرل ہیولاک کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کی جنگی سرگرمیوں کی رپورٹیں جنرل کے سامنے تھیں۔ عزیزن کے ماضی و حال کی زندگی کا یہ عظیم فرق انگریز جنرل کی سمجھ سے باہر تھا۔ اس کے دل میں نرمی ورحم کاجذبہ پیدا ہوا۔ عزیزن کو کہا گیاکہ اگر وہ اپنی جنگی سرگرمیوں سے توبہ کرکے معافی مانگ لے تواس کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔ یہ سن کر عزیزن کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اس نے جنرل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ وہ انگریز سے رحم کی اپیل کی بجائے موت کو پسند کرے گی۔ ہیولاک یہ جواب سن کرسکتے میں آگیا۔ تھوڑے وقفے کے بعد پھر پوچھا ”آخر تم کیا چاہتی ہو؟“ عزیزن نے گرجدارآواز میں جواب دیا ”انگریز راج کا خاتمہ“ جنرل ہیولاک اس جواب پر بھڑک اٹھا اور اسے فائرنگ سکواڈ کے حوالے کردیا۔
ایک پہاڑ کی سی عظمت سے آنکھوں پر بندھی پٹی کے ساتھ عزیزن دبدبے سے چلتی ہوئی مقتل گاہ میں جا کھڑی ہوئی۔ اچانک ڈزن ڈزن ڈزن کی تین آوازیں فضا میں گونجیں اورکانپور کی یہ مجسم بجلی چھلنی سینہ لئے ایک ہی لپک میں اس بے کراں کائنات کے اس پارپہنچ گئی۔
(محمد صدیق اکبر کی زیر طبع کتاب ”انگریز راج اور پاک و ہند کا جاگیردارمافیا“ سے ماخوذ)
تازہ ترین