• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معاشرے کے حسن، وقار، تنظیم اور استحکام کا راز عورت کی پُر خلوص قربانیوں اور لازوال جدوجہد میں پوشیدہ ہے مگریہ بھی تاریخ عالم کی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں عورت کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے۔ دورِ حاضر میں ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ بھی خواتین پر تشدد ہے نیز عورت پر ہونے والی ظالمانہ کارروائی کے سدباب اور مظلوم عورت کی دادرسی کے لئے مناسب قانون سازی نہیں ہے۔ 2006ء کی بات ہے قومی اسمبلی میں معاشرے میں خواتین کے کردار اوران کے تحفظ پر بحث جاری تھی، ہمیں قومی اور بین الاقوامی کانفرنس میں ہرجگہ اس سوال کا جواب دینا پڑ رہا تھا کہ کیا پاکستان میں ہر مرد کلہاڑی اور تیزاب لے کر اپنی عورتوں کو نشان عبرت بنا دینے پرتلا ہوا ہے اور کیا ہر عورت غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے اور حدود آرڈیننس کے تحت جیل میں بند ہے؟ اس وقت میں نے ویمن پروٹیکشن بل اسمبلی میں پیش کیا اور یہ اس مسئلہ پر بنایا گیا سب سے پہلا بل تھا مگر وہ اس وقت سیاست کی روشن خیالی کی نذر ہوگیا۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ تب بھی اور آج بھی عورت پر تشدد ہمارے معاشرے کی ایک کڑوی حقیقت ہے مگرہر مہذب معاشرہ اپنی تلخیوں اورخرابیوں کی تشہیر کیے بغیر اسے ختم کرنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آپ خرابیوں کی جتنی تشہیرکریں گے اُتنی ہی وہ برائی پھیلتی چلی جائے گی۔ 2000ء میں UNکی ایک کانفرنس میں ایک مقرر کی بات یہاں قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان معاشروں میں بچوں اور لڑکیوں کی معصومیت ابھی تک اسی لئے برقرار ہے کہ وہاں برائیوں کی تشہیر اس طرح سے نہیں ہوتی ،نہ ہی سر عام ان برائیوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے مگر ایک عشرے میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ترقی اور حقائق کو بیان کرنے کے نام پر اور ذوق غلامی میں ہماری قوم کی اقدار و روایات اور طور طریقہ سب کچھ بدل رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے ویمن پروٹیکشن بل کی ضرورت اور اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے مگر اس کے مندرجات پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ ایک بگاڑ کو ختم کرتے کرتے ایک دوسرے بڑے معاشرتی بگاڑ کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے ۔ بظاہر تو یہ عورت کو تحفظ دینے کا خوشنما منظر دکھا یا جارہا ہے مگر درحقیقت اسے مغربی عورت کی طرح آزادی، مساوات اور حقوق کے خوبصورت مگر پرُ فریب وعدوں میں اُلجھا کر خاندان کی پشت پناہی سے محروم کر کے ، محبت اور حفاظت کی مضبوط پناہ گاہوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اس قانون سازی سے اگر معاشرتی فساد کا خاتمہ ہوسکتا تو جدید تہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کے تشدد کا خاتمہ ہوجانا چاہئے تھا لیکن اعداو شمار وہاں بھی ایک بھیانک صورتحال کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ نام نہاد آزادی اور حقوق ملنے کے باوجود عورت کتنی غیر محفوظ اور تشدد کا شکار ہے۔ یہ بل بظاہر گھریلو تشدد سے بچائو کے لئے ایک اچھا اقدام لگتا ہے لیکن اسکے دوررس نتائج کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مغرب نے اپنے تمدن کی بنیاد مرد و عورت کی مساوات، عورت کے معاشی استقلال، مردوزن کے آزادانہ اختلاط اور عورت کے قانونی تحفظ پر رکھی مگر اسکا ایک تلخ نتیجہ یہ نکلا کہ گھر جو تمدن کی بنیاد ہے۔ بکھر کر رہ گیا اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ نہ وہاںخاندان کاا دارہ مضبوط رہا اور نہ خاندان کا استحکام اور نئی نسل کی تربیت معاشرے کی ترجیح ِاوّل رہی۔
پنجاب اسمبلی کے منظور شدہ تحفظ نسواں بل2015ء پر ہمارے اعتراضات کے لئے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔ اس پورے بل میں کہیں پر بھی کسی رشتے کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ عورت کی بطور ماں، بیوی، بہن اور بیٹی اور مرد کے بطور باپ، شوہر، بھائی اور بیٹے کی کسی حیثیت سے تذکرہ نہیں ہے۔ ان کو اپنے خاندان میں بھی کوئی سر پرستی اور پوچھ گچھ اور رہنمائی کا حق حاصل نہیں ہے۔ عورت کو خاندان کے بجائے این جی اوز کی سر پرستی میں دیا گیا ہے۔ مسودہ قانون میں تشدد کی کوئی تعریف نہیں کی گئی اور تعریفات کے (Clause R) میں کم اشتہائی یعنی بھوک نہ لگنے، نفسیاتی بے چینی اور غلط جگہوں پر جانے سے منع کرنے کو آزادی حرکت محدود کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ انتہائی قابل اعتراض اقدام ہے۔ پرو ٹیکشن آرڈر کے سیکشن 7 کے سب سیکشن (D) کے تحت مرد کو ٹخنے یا کلائی پر کڑا پہنایا جائے گا تاکہ متاثرہ عورت محفوظ رہے ۔مغربی معاشروں میں یہ ان مجرموں کو پہنایا جاتا ہے جو پیرول پر رہا ہوتے ہیں اس کڑے کی نگرانی کا کیا انتظام ہوگا اس سے بل لاتعلق نظر آتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے غیر سنجیدگی کا ایک تأثر بن رہا ہے اور قسم قسم کے لطیفے اور استہزائیہ کلمات سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ سیکشن نمبر 8 کے سب سیکشن (D )میں ولی کی اسلامی اصطلاح کی بھی بالکل نفی کی گئی ہے۔ شیلٹر ہوم سے پہلے خاندان کا ادارہ اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ خاندان کا کوئی سر پرست، کوئی بزرگ، کوئی و لی بن کر معاملات کو گھر سے نکلنے سے پہلے ہی حل کر دے۔ مالی آرڈرسیکشن نمبر 9 کے سب سیکشن (D) کے تحت خاتون کو اگر کوئی مالی نقصان ہو تو اس کا شوہر ا س کی اور اس کے زیر کفالت بچوں کا ذمہ دار ہوگا جبکہ شریعت اسے صرف اپنے شرعی بچوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ بل میں ہر طرح کے بچے شوہر کی ذمہ داری بنادئیے گئے ہیں جو کہ قطعاً غیر اسلامی اور زیادتی ہے۔ سیکشن 11 کے سب سیکشن ( 3)میں درج ہے کہ حکومت ہر ڈسٹرکٹ میں پروٹیکشن کمیٹی میں 2 سول سوسائٹی کی خواتین اور 4 مخیر لوگوں کو بھی شامل کرے گی۔یہاں پر سوال یہ ہے کہ متاثرہ خواتین کا خاندان اسکی حفاظت کا زیادہ حق دار ہے کہ این جی اوز کی عورتیں؟ کمیٹی کے فرائض سیکشن 12کا سب سیکشن اے۔ ای۔ ایل میں پروٹیکشن سنٹر کی کارگزاری کی نگرانی، تشخیص کے نظام اور وہاں پر سر گرمیوں اومتاثرہ خواتین کے داخلہ اور انخلاء کی شقیں بھی بہت سے سوالیہ نشان پیدا کر رہی ہیں کہ یہاں پر اسلام اور قانون اور معاشرہ لوگوں کے درمیان اصلاح کا اور جوڑ نے کا سلسلہ پیدا کرنا چاہتا ہے جبکہ اس بل میں کہا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے ایسے جدا کیا جائے گا کہ نہ ایک دوسرے سے مل سکیں اور نہ ہی کوئی بات چیت کر سکیں۔ اگر ماں باپ اپنے بچوں کو کسی غلط آدمی سے نہ ملنے کی پابندی لگائیں گے تو یہ قانون انہیں روکتا ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ سیکشن 12 سب سیکشن ایم کے کلاز نمبر 2میں درج ہے کہ اس بہت بڑے نظام کو چلانے کے لئے عطیات وصول کئے جائیں گے۔ یہاں بلی تھیلے سے باہر آجاتی ہے کہ اتنے بڑے نظام کے لئے حکومت کے پاس تو بجٹ نہیں تو یہ اخراجات کہا ں سے پورے کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے جو بھی ڈونر ایجنسی ہوگی وہ پیسہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے دے گی اورظاہری سی بات ہے کہ وہ فنڈز کے ساتھ اپنا ایجنڈا بھی دے گی۔سیکشن 14کلاز D کے تحت عورت شوہر، باپ، بھائی یا کسی کو بھی دو دن کے لئے گھر سے نکال سکتی ہے۔ شوہر کے تو مزے ہوگئے مگر پیچھے بیوی، بچوںکو کون سنبھالے گا، اگر کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو کیا ہوگا۔ کیا بیٹی باپ کو بھی گھر سے دو دن کیلئے نکال دے گی اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے؟آخر ہم یہ کیسا معاشرہ بنانے جارہے ہیں؟داخلہ کاا ختیارکا سیکشن 15چادر ،چار دیواری اور پرائیوسی کے تحفظ کو پامال کرتا ہے۔ یہ پورا سیکشن قرآن حکیم کے حکم کے بھی صریحاًخلاف ہے کہ اجازت لے کر گھروں میں آئو اور آئین کے آرٹیکل 14 کے بھی خلاف ہے کہ جب جس کا دل کرے گا کسی کے گھر میں بلاوارنٹ داخل ہوسکے گا۔ الغرض 31 سیکشن کے اس بل میں یہ چند قابل اعتراض نکات تھے جو قرآن، حدیث، آئین ،قانون اور ہماری معاشرتی اقدار کے صریح خلاف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی تذکیر کی جائے اورعورت کے تحفظ کیلئے ایسی قانون سازی کی جائے جو عورت کو عزت ، محبت اور احترام دے سکے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرسکے۔
تازہ ترین