• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے تیس پینتیس دن ہم کراچی والوں کے لئے پُراسرار گزرے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ان تیس پینتیس دنوں میں لوگوں نے سر اور سینے پر گولیاں کھا کر مرنا چھوڑ دیا تھا تو پھر آپ ناممکن کو امکان کی سرحدوں میں دیکھنے کے خام خیال میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ان تیس پینتیس دنوں میں کراچی کے لوگ مستقل مزاجی سے سر اور سینے پر گولیاں کھا کر اور بم دھماکوں میں مرتے اور اپاہج ہوتے رہے تھے۔ گولیاں کھا کر اور بم دھماکوں میں مرنے والے دراصل مرتے نہیں وہ شہید ہو جاتے ہیں، وہ زندہ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ بیشمار اموات کے باوجود کراچی کی آبادی کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں برسوں بعد میری ملاقات بھیم پورہ میں پرانے پڑوسی سے ہوئی۔ ڈبو مکرانی کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ ڈبو کی ایک ٹانگ غائب تھی اور وہ بیساکھیوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ ہم بھیم پورہ کی مشہور ہوٹل سندھ بلوچستان لکی اسٹار ریستوران میں میلی کچیلی ٹیبلوں کے سامنے لگی ہوئی بینچوں پر بیٹھ گئے۔ جست کے ٹیڑھی میڑھی جگوں سے ٹیڑھے میڑھے جست کے گلاسوں میں پانی انڈیل انڈیل کر پیتے رہے اورکڑک چائے کی چسکیاں بھرتے، ماضی کے اوراق پلٹتے رہے۔ ایک بم دھماکے میں ڈبو کی ٹانگ کٹ کر اس کے جسم سے الگ ہو گئی تھی۔ ٹانگ ضائع ہو جانے سے پہلے ڈبو مکرانی بھیم پورہ فٹبال کلب کی طرف سے سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلتا تھا۔ اس کا کھیل دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ ڈبو مکرانی ایک روز پاکستان فٹ بال ٹیم کے لئے کھیلے گا لیکن پاکستان ٹیم میں شامل ہونے سے پہلے ڈبو اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا۔ مجھے اچانک بھیم پورہ فٹبال کلب کے گول کیپر اکبر بلوچ کا خیال آیا میں نے چائے کی سپ لیتے ہوئے ڈبو سے پوچھا ”واجا، اکبر چیتے کا کیا حال ہے؟“
اکبر بلوچ میچ کے دوران اپنے گول کے سامنے چیتے کی طرح چکر کاٹتا رہتا تھا۔ اس پر نام پڑ گیا تھا اکبر چیتا۔ اکبر چیتے کا نام سن کر ڈبو مکرانی کی بڑی بڑی آنکھیں نم ناک ہوگئیں۔
”جب بم دھماکہ ہوا تھا تب اکبر چیتا میرے ساتھ تھا“۔ ڈبو مکرانی نے کہا ”بم دھماکے میں اکبر چیتا شہید ہو گیا تھا“۔
”شہید ہوگیا تھا؟“ میں نے تعجب سے پوچھا ”کیا وہ اللہ کے نام پر جنگ لڑنے جا رہا تھا“۔
ڈبو نے کہا ”ہم لوگ فٹ بال میچ کھیلنے جا رہے تھے“ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ان تیس پینتیس دنوں میں لوگ بم دھماکوں میں اور گولیاں کھا کر مرتے رہے تھے بلکہ شہید ہو رہے تھے۔ کراچی میں اگر آپ بس میں سوار ہوتے ہوئے یا بس سے اترتے ہوئے گر کر بس کے پچھلے پہیوں تلے کچل کر مر جاتے ہیں تو آپ شہید کہلانے میں آتے ہیں۔ آپ کی شہادت سے متاثر ہو کر لوگ بس کو آگ لگا دیتے ہیں اور گزرتی ہوئی گاڑیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ ان تیس پینتیس دنوں میں حیران کن پُراسراریت کا تعلق کراچی میں عدم تشدد سے نہیں تھا۔ لوگ مستقل مزاجی سے شہید ہو رہے تھے۔ کچھ لوگ منرل واٹر پینے والے ڈینگی مچھر کے ڈنگ سے مر رہے تھے۔ ان پُراسرار تیس پینتیس دنوں میں وہی کچھ ہو رہا تھا جو کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ ان تیس پینتیس دنوں کو میں پُراسرار اس لئے کہہ رہا ہوں کہ صدر پاکستان اسلام آباد چھوڑ کر کراچی میں رہنے لگے تھے۔ ایک پیشہ ور سیاسی تجریہ نگار نے مجھے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ صدر مملکت ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک دارالحکومت سے غائب رہے ہوں۔ کراچی میں افواہیں گشت کرنے لگی تھیں کہ نجومیوں اور جوتشیوں نے صدر مملکت کو مشورہ دیا تھا بلکہ چتاونی دی تھی کہ بھٹکتی ہوئی آتماؤں نے ایوان صدر میں بسیرا کر لیا تھا۔ صدر مملکت کی جان کو خطرہ تھا، وہ زیادہ تر وقت سمندر کے قریب گزاریں۔ اس دوران ایوان صدر اسلام آباد سے بھٹکتی ہوئی آتماؤں کو نکالنے کیلئے ایوان صدر میں اگربتیاں اور لوبان جلا کر دم دعا اور پوجا پاٹ کا بندوبست کیا گیا تھا۔ سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے تانترک اور پنڈت بلوائے گئے تھے۔ دعا درمل کیلئے چیدہ چیدہ عالموں کو پاکستان بھر سے بلایا گیا تھا۔ اس دوران صدر مملکت کراچی میں مصروف روڈ پر بنائی گئی سیسہ پلائی لوہے اور کانکریٹ کی دیوہیکل دیوار کراچی کے پیچھے اپنے قلعہ نما محل میں محفوظ تھے۔ وہاں سے دور نہیں تھا۔
ان پُراسرار دنوں میں کالے بکروں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں۔ روزانہ کئی کالے بکرے قربان کئے جاتے تھے۔ سیسہ پلائی دیوار کراچی کی بنیادوں میں کالے بکروں کے خون کا بلیدان دیا جاتا تھا۔ عبداللہ غازی کے مزار سے فقیروں کو پکڑ کر لے آتے تھے اور دیوار کراچی کے قریب بٹھا دیتے تھے۔ خوفناک ہتھیاروں سے لیس کمانڈوز کی نگرانی میں انہیں کھانا کھلایا جاتا تھا تاکہ صدر مملکت پر منڈلانے والی بلائیں ٹل جائیں۔
اس کے علاوہ شرلاک ہومز کو مع اپنے دوست جاسوس ڈاکٹر واٹسن کے کراچی میں دیکھا گیا تھا۔ سر آرتھر کونن ہوٹل کے تخلیق کردہ دو عالمی جاسوسوں شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن کا کراچی میں ظہور پذیر ہونا ہم سب کے لئے حیران کن تھا وہ کھوج لگانے آئے تھے کہ مولانا قادری کو کیوں بغاوت کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا تھا؟ ان کا بم پروف کنٹینر کہاں اور کس نے بنایا تھا؟ ان کے بم پروف کنٹینر پر کتنے کروڑ ڈالر لاگت آئی تھی اور پیمنٹ کس نے کی تھی؟ پانچ دنوں اور چار راتوں کی پکنک کے دوران شرکاء کو چائے کافی، مشروبات، لنچ اور ڈنر باکس ، مٹھائیاں، چاکلیٹ اور ڈرائی فروٹ یعنی خشک میوہ فراخدلی سے کھلانے پر آنے والے ہوشربا اخراجات کس نے اٹھائے تھے؟ شرلاک ہومز یہ بھی معلوم کرنے آئے تھے کہ اسلام آباد گرینڈ پکنک کے شرکاء کے لئے ٹینٹ یعنی خیمے کس نے فراہم کئے تھے اور ٹینٹوں پر ساخت کس ملک کی لکھی تھی؟ کراچی کے لوگوں کی حیرت اس وقت پریشانی میں بدل گئی جب شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن پُراسرار طورپر کراچی سے غائب ہو گئے۔
تازہ ترین