• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جارحانہ انداز کی محاذ آرائی نے نہ صرف سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں اضافہ فراہم کیا ہے بلکہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس لڑائی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے معاہدے کی شرائط نے جس خطرناک صورتحال کا منظر پیش کر دیا ہے اس سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کے ارکان کی طرف سے بھی بار بار خطرے کی گھنٹی بجائی جا رہی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں معیشت کے معاملہ میں کئی دشواریوں کے بڑھنے کے واضح امکانات ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بار بار اضافے کے علاوہ اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی ناقابل برداشت مہنگائی نے عوام کو بے بسی اور بے کسی کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ بجٹ میں لگائے جانے والے ٹیکسوں کے نفاذ نے بھی تاجروں اور صنعتکاروں کو ایک بڑے امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر سے بار بار مذاکرات کے بعد بھی صورتحال جوں کی توں محسوس کی جا رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں جس انداز میں اداروں کو گھسیٹا جا رہا ہے اس سے یہ لڑائی مزید خوفناک اور خطرناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر بھرپور سیاسی وار کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت اربوں روپے کی کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات کے ذریعے اپوزیشن کے بڑے راہنمائوں کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ رانا ثناء اللہ اور دیگر راہنمائوں کی گرفتاریوں کو اس سلسلہ کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے ان تمام کارروائیوں کو حکومت اور نیب کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ملکی معیشت کے حوالہ سے یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ معاشی ٹیم کے ارکان براہ راست آئی ایم ایف کو جوابدہ ہیں۔ بجٹ کے فوراً بعد جب ایک وفاقی وزیر مملکت کو ترقی دے کر وفاقی وزیر ریونیو بنایا گیا تو اگلے ہی روز اس کا ’’پورٹ فولیو‘‘ تبدیل کر کے مشیر خزانہ کو دوبارہ وہ عہدہ دے دیا گیا کیونکہ حکومت کو اس سے قبل ہی یہ ہدایات جاری تھیں کہ آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر معاشی ٹیم کے ارکان کے عہدوں میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے حوالے سے بھی کئی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ افغانستان امن مذاکرات میں پاکستان کے کردار اور سعودی عرب کے تعاون کی وجہ سے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس دورے کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ دورہ سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ جا کر ایک ’’لابنگ فرم‘‘ کی خدمات بھی حاصل کرتے ہوئے انہیں اپنے ملکی مفاد کے اہداف سے آگاہ کیا چنانچہ وزیراعظم عمران خاں کے امریکہ میں امریکی صدر اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں سے قبل وزیر خارجہ اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے ’’لابنگ فرم‘‘ سے ہونے والی مشاورت کی تفصیلات کے بارے میں بریفنگ بھی دی۔ اس دورے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت ہم آہنگی اور باہمی مشاورت سے خطے میں امن اور دفاعی حکمت عملی کے سلسلہ میں مشترکہ طور پر کوشاں رہی۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام بھی وہاں پر ملاقاتوں کے علاوہ امریکی وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بھی تبادلہ خیال کر کے معاملات کو طے کرنے کے مراحل میں شریک ہوئے۔ صوبائی دارالحکومت میں بھی سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ کے اگلے ہی روز صوبائی کابینہ کے بعض وزراء کے ’’پورٹ فولیو‘‘ تبدیل کر دیئے گئے۔ بلدیات کا محکمہ ق لیگ کے صوبائی وزیر راجہ بشارت سے لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات نےمحکمہ تبدیل ہونے پر اگلے روز اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا لیکن ’’کپتان‘‘ کے احکامات کو بھی ترجیح دی۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’کپتان‘‘ نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو کابینہ کے ارکان کی کارکردگی جانچنے اور اعلیٰ قیادت کو آگاہ رکھنے کے بارے میں بھی خصوصی ہدایات دی ہیں۔ حکومتی پارٹی کے تنظیمی عہدوں پر رہنے والے بعض عہدیداروں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ پارٹی میں بیرون ملک سے آنے والے کئی ایسے ’’پیراشوٹ‘‘ بھی کلیدی عہدوں پر لگا دیئے گئے ہیں جو پرانے کارکنوں کی شکل سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ٹیوٹا کے چیئرمین نے بھی شدید تحفظات کے مدنظر استعفیٰ دیا تھا ۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور مریم نواز بھی ان دنوں سیاسی طور پر بہت متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ اعلیٰ قیادت کی ہدایات پر اس سے قبل احسن اقبال، خواجہ آصف اور دیگر راہنما ورکرز کنونشن کرتے رہے اور کارکنوں کو سرگرم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کرتے رہے۔ مریم نواز نے تو ریلیوں کے ذریعے احتجاج کا آغاز کر دیا ہے۔ منڈی بہائو الدین کے بعد فیصل آباد میں بھی وہ پارٹی کا ’’پاور شو‘‘ کر چکی ہیں۔ ماڈل ٹائون لاہور میں رہبر کمیٹی کے اجلاس میں 25 جولائی کو ’’یوم سیاہ‘‘ منانے کے سلسلہ میں مشاورت اور حکمت عملی طے کر لی گئی ہے۔ پارٹی قیادت نے تیرہ رکنی کمیٹی کو منتخب نمائندوں سے رابطوں کے لئے ٹاسک دے دیا گیا ہے اور ممکنہ گرفتاریوں کے پیش نظر متبادل قیادت کے معاملہ کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ مال روڈ پر جلسے میں مسلم لیگ (ن) یوم سیاہ کو ایک منظم انداز میں طاقت کا مظاہرہ دکھانے کے لئے کوششوں میں مصروف ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین