• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ وہ ملک ہے جہاں انتخابات میں دھاندلیوں کی تمام تاریخ کا ذمہ دار کوئی سونا خان بلوچ قرار دیا جاتاہے اور بدعنوانی کا ذمہ دار فقط رمیش اودیشی ۔ باقی سب کے سب سیاستدان، فوجی جرنیل، فوجی آمر و ہمنوا، سول و فوجی بیوروکریٹ، کٹھ ملّا دودھوں نہائے نکلتے ہیں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ و ایوان صدر کبھی آصف زرداری کیلئے اغوا برائے تاوان کے قانون میں ترمیم کرواکر سزائے موت کی شق ڈلواتا ہے تو کبھی ان کی آزادی کا پروانہ جاری کر کے نگران حکومت میں وزیر کا حلف اٹھواتا ہے۔ ایوان صدر اس شخص کے خلاف سازش کرتا ہے اور پھر کبھی اسے بقول اس کے مخالفین کے شریک سازش کر کے مسند پر بٹھایا جاتا ہے۔ وہ فخرو بھائی جو اپنی نوجوانی میں میاں افتخارالدین کی آزادپاکستان پارٹی میں پاکستان کو صحیح معنوں میں آزاد دیکھنے کے خواب دیکھا کرتے تھے کہ ان کی نسل کا تعلق اس نسل کے فیض احمد فیض سے تھا جنھوں نے ٹھیک طور ملک کی آزادی کو ”یہ وہ صبح تو نہیں“ سے تعبیر کیا تھا، اب زندگی کی شام میں بس وہ اپنی یہی سب سے بڑی خواہش بتاتے ہیں کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے ان کی زیر نگرانی ہونے والے آئندہ انتخابات کو شفاف و غیر جانبدارانہ کرواکر جائیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے جنم کے ابتدائی برسوں سے لیکر اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ شاذونادر ہی منصفانہ، شفاف ، غیر جانبدارانہ ہوئے ہیں۔ اگر انتخابات شفاف ہوئے بھی تھے تو پھر بعد از انتخابات یا پوسٹ الیکشن ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں۔
پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات فوجی حکمران یحییٰ خان کے دور حکومت میں 1970ء میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان (سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کے والد) کی سربراہی میں ہوئے تھے۔ اکثر لوگ ان انتخابات کو شفاف و غیرجانبدارانہ کہتے ہیں۔ ان انتخابات میں سابق مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی پاکستان عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے جیت کر آئیں لیکن عوامی لیگ کے اور مشرقی بنگال کے عوامی مینڈیٹ کو ماننے کے بجائے ان پر فوجی چڑھائی کردی گئی جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوا اور دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش ابھر کر آیا۔ یحییٰ خان اور ان کے فوجی ٹولے نے بھٹو کی حمایت سے یہ ثابت کردیا کہ 1971ء کے انتخابات کی شفافیت بھی ایک ڈھکوسلا ہی تھی جن کے نتائج کو نہ ماننے سے بدترین نسل کشی ہوئی۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام کے مینڈیٹ کو فوجی بوٹوں اور ٹینکوں تلے روند ڈالنے اور نتیجے میں ملک کے دولخت ہونے سے سبق نہیں سیکھا اور محض دو سال کے اندر ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچ عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرتے ہوئے عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کر کے گورنر راج لگا کر فوجی چڑھائی کا حکم دیا۔ بھٹو کے ان اقدامات کے خلاف اس وقت کے صوبہ سرحد میں نیپ کے ساتھ مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے احتجاجاً اپنی کابینہ سمیت استعفیٰ دیکر بھٹو پر سیاسی طور پر اخلاقی برتری حاصل کرلی تھی۔ 1977ء میں بھٹو نے اپنی پی پی پی حکومت کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی عام انتخابات کا اعلان کیا لیکن مارچ1977ء میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئیں،اس وقت کی متحدہ اپوزیشن یعنی پاکستان نیشنل الائنس یا پاکستان قومی اتحاد نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ جو خالد احمد کھرل اب پی پی پی کے لیڈر ہوتے ہیں وہ1977ء میں لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر تھے جب بھٹو کے مدمقابل کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا اعلان کرنے والے جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو انتظامیہ کے اہلکاروں نے اغواکر لیا۔انہیں تب تک یرغمال رکھا گیا جب تک کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا وقت نہ گزر گیا۔ اگر مولانا جان محمد عباسی کو اغوا نہ بھی کیا جاتا تب بھی بھٹو کو لاڑکانہ سے جیت جانا تھے لیکن سندھ اور پنجاب کے اس وقت کے وزرائے اعلیٰ غلام مصطفی جتوئی اور صادق حسین قریشی اور لاڑکانہ کے ڈی سی خالد کھرل اور ایس پی پنجل جیسے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت کرنے کی کوشش میں بھٹو کو بقول بھٹو ”مروا دیا“۔حکومت کے خلاف پُرتشدد تحریک پاکستان قومی اتحاد چل پڑی جسے پورے ریاستی تشدد سے روکنے کی کوشش کی گئی اور اس کے بعد ایک خونی تاریخ ہے۔
1985ء کے فوجی آمر ضیاء تلے کرنل فرشتہ برانڈ غیر جماعتی انتخابات (جن میں آصف زرداری نے مع والد حصہ لے کر شکست کھائی تھی)،1988ء کے فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں آئی ایس آئی کی پیدا کردہ آئی جے آئی کے ذریعے پری اور پوسٹ الیکشن دھاندلیاں (بشمول کراچی اور حیدرآباد کے قتل عام جن کا مقصد انتخابات کے التوا کی ناکام کوشش تھا ) یا 1990ء کی جنرل رفاقت فارمولا انتخابی دھاندلیاں جس میں جام صادق علی کے تحت تو سندھ میں ڈاکوؤں تک کو پولیس کی وردیاں پہنا کر حساس پولنگ علاقوں میں بھیجا گیا تھا (سانگھڑ میں گلو مری، مٹیاری میں محب شیدی اور نوابشاہ اور دادو میں سلطو جتوئی جیسے ڈاکو مخالف ووٹروں کو خوفزدہ کرنے کی ڈیوٹی پر لگے تھے)، 1993 کے لاڑکانہ اور لاہور کے فرق کے ساتھ والے انتخابات، 1997ء میں جعلی ہیوی مینڈیٹ کا کرشمہ یا بینظیر کو ان کے صوبے سندھ میں ممتاز بھٹو کے ذریعے “جئے بھٹو“ کرانا اور پھر 2002ء میں فوجی آمر مشرف کے انتخابات کی تاریخ کچھ نہیں بس دھونس اور دھاندلیوں کی تاریخ ہے۔ انتخاب یا انقلاب، برچھی یا پرچی، بلٹ یا بیلٹ، انتخابات سے پہلے احتساب جیسے نعرے سن سن کر لوگ اپنا حافظہ بھی کھو بیٹھے ہیں کہ یہ ساری جنگ بقول چیک ادیب میلان کنڈیرا یادداشت کی حافظے کے خلاف جنگ ہی ہے۔ 2008ء تک تو شاید گلگت بلتستان کے لوگ اپنے حق بالغ رائے دہی سے بھی محروم تھے۔ شاید فاٹا کے ووٹر اور خواتین آج بھی ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ دوسری بینظیر حکومت کے خاتمے کے بعد نگران حکومت میں وفاقی وزیر قانون فخرالدین جی ابراہیم کو معلوم تھا کہ نہیں جب سندھ میں لیاقت علی جتوئی پر بدعنوانی کے مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری سندھ کے اس وقت کے وزیر قانون کو اسلام آباد اور جاتی امراء سے یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ کسی طرح ان کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانا مقصود تھا۔ فوجی آمر مشرف نے بھی گاجر اور لاٹھی سے 2002ء کے انتخابات میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے ذریعے سیاستدانوں کی ایسی جنس ارزاں میں سے اپنی آمریت کو بیساکھیاں مہیا کی تھیں۔ پھر ”بلڈی سیویلنز“ کے ساتھ کیانی اور مشرف نے بھی ابوظبی میں مذاکرات کئے۔2008ء دو ہزار آٹھ کے انتخابات اس لئے بھی شفاف نہیں کہے جاسکتے کہ 27دسمبر 2007ء کی شام تک کے انتخابات میں اپنی پارٹی کے خلاف دھاندلیوں کی پھر کن اسلام آباد کے سیف ہاؤسز میں منصوبہ سازی کی شکایات لئے پھرنے والی بینظیر بھٹو کا قتل ہی قبل از انتخابات بہت بڑی دھاندلی تھی پھر یہ بھی کہ جیسے میرے ایک دوست جن کا اصل تعلق کراچی کے ملیر سے ہے مجھے بتارہے تھے کہ گزشتہ انتخابات میں جب وہ اپنا ووٹ اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشن پر ڈالنے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا ووٹ پہلے سے ہی پڑ چکا تھا! اب ایسے میں فخرو بھائی جیسا چیف الیکشن کمشنر نہ زرداری اور ان کی پارٹی کو وارا کھاتا ہے ، نہ ہی نواز شریف کو ،نہ ہی نون اور قاف یا ف کو یا ایم کیو ایم کو، حتیٰ کہ فوج کو بھی نہیں۔
فوجی آمر ضیاء الحق کی طرف سے شکل بگاڑے ہوئے آئین کے فقروں 62/اور 63 پر مدعا پڑا ہوا ہے کہ کون فرشتہ آئندہ انتخابات لڑنے کا اہل ہو سکتا ہے۔1977ء میں بھی جب ایسا مسئلہ کہیں زیر بحث آیا تھا کہ کوئی شرابی کبابی انتخابات لڑنے کا اہل نہیں ہوسکتا تو خان عبدالولی خان جیسے قدآور سیاسی رہنما نے ازراہ تفنن کہا تھا ”شرابی تو ٹھیک ہے لیکن کبابی والی پابندی سے تو تمام پٹھان نا اہل ہوجائیں گے“۔ ولی خان نے 1990ء میں یہ بھی کہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں پوری کی پوری قومی اسمبلی پر ڈرگ مافیا حاوی ہوجائے گا۔
لیکن اب جس نے بھی یہ فخرو بھائی بطور چیف الیکشن کمشنر والا آئٹم پیش کیا ہے زوردار ہے۔ مگر فخرو بھائی ووٹر عوام کو ضرور وارا کھاتا ہے۔ ووٹر عوام کا بھی ایک دن پیا بن کر کسی کو بھی چاہنے کا ہوتا ہے، پھر ووٹر انتخابات والے دن پھولن دیوی کو منتخب کریں کہ آصف زرداری کو، نواز شریف کو کہ ایم کیو ایم کو، عمران خان کو یا الماس بوبی کو۔ سندھی میں کہتے ہیں کہ 29/اماوس راتیں اگرچوروں کی ہوتی ہیں تو ایک رات مالکان کی بھی آتی ہے۔
تازہ ترین