• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھمکی سے تھپکی اور وارفتگی کا یہ سفر اپنے اندر جھوم اُٹھنے کے بہت سارے پہلو رکھتا ہے۔ اِس غیرمعمولی تبدیلی کے یوں تو ایک سے زائد طاقتور محرکات ہیں مگر انصاف کے پرستاروں کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ سب کچھ جناب عمران خان کی طلسماتی شخصیت کا کرشمہ ہے جس نے ٹرمپ جیسے منہ پھٹ اور نسلی تعصب میں لت پت صدر کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور اس کے منہ سے یکایک پھول جھڑنے لگے۔ بلاشبہ وزیرِاعظم عمران خان کے دورے نے پاک امریکی تعلقات میں ایک نئی روح پھونک دینے کا احساس دلایا ہے۔ اِس دفعہ امریکی دورے میں چند باتیں بالکل نئی ہوئی ہیں جو ملکی اور بین الاقوامی منظر نامہ تبدیل کرنے میں بڑی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

پہلی بات یہ کہ وزیرِاعظم خصوصی طیارے کے بجائے ایک نجی ایئرلائن کی عام پرواز سے واشنگٹن پہنچے اور پاکستان ہاؤس میں ٹھہرے۔ اِس طرزِعمل سے یہ تاثر قائم ہوا کہ وہ حقیقی معنوں میں کفایت شعار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ وہائٹ ہاؤس میں قومی لباس میں گئے اور صدر ٹرمپ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے اعتماد اور وَقار سے گفتگو کی۔ بڑی بات یہ کہ سول اور ملٹری قیادتیں وزیرِاعظم کے وفد میں شامل تھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی تھیں۔ یہ منظر کئی اعتبار سے گیم چینجر تھا۔ ماضی میں یہ ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی وزیرِاعظم امریکی دورے پر جاتے، تو امریکی صدر سے کہتے کہ ہمیں ہماری فوج اختیارات سے یکسر محروم کر دینا چاہتی ہے اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ اِس بار معاملہ یکسر مختلف تھا۔ وزیرِاعظم اور آرمی چیف ایک ہی پیج پر تھے اور کامل ہم آہنگی سے دوطرفہ تعلقات کو صحیح رخ دینے کے لئے کوشاں تھے۔ اِس سے بھی کہیں زیادہ اثر انگیز بات یہ تھی کہ پاکستان کے وزیرِاعظم نے امداد کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی بات کی اور امریکی صدر پر پوری طرح واضح کر دیا کہ ہم برابری کی سطح کے دوستانہ تعلقات کی بحالی کے آرزومند ہیں۔

صدر ٹرمپ نے پاکستانی عوام کی شاندار الفاظ میں تعریف کی کہ وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، بڑے محنتی ہیں اور پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ وہ جوشِ خطابت میں یہ بھی کہہ گئے کہ صرف اس کے پاس افغانستان کے مسئلے کا حل ہے اور وہی لاکھوں افغان باشندوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتا ہے۔ اِسی کے ساتھ پاکستانی وزیرِاعظم کو یقین دلایا کہ پاکستان کی امداد بھی بحال کی جا سکتی ہے اور تجارت میں دس بیس گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس ہوئی جس میں ایک پاکستانی صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کیا آپ بھارت اور پاکستان کے مابین تنازعات حل کرانے میں کوئی کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ دو ہفتے پہلے اوساکا میں میری بھارتی وزیرِاعظم سے ملاقات ہوئی۔ جس میں اُنہوں نے پوچھا کیا آپ ثالثی کرنا پسند کریں گے؟ میں نے پوچھا کس مسئلے میں؟ کہنے لگے کشمیر میں۔ اِس جواب کے بعد امریکی صدر نے وزیرِاعظم عمران خان سے پوچھا کیا آپ ثالثی کے لئے آمادہ ہیں۔ اُنہوں نے مسرت آمیز لہجے میں کہا اگر آپ ستر سالہ کشمیر کا قضیہ حل کرنے میں سہولت کار بنتے ہیں، تو ایک ارب سے زائد لوگ آپ کو دعائیں دیں گے۔ امریکی صدر کی تنازع کشمیر میں ثالثی کی پیشکش پوری دنیا کے اخبارات میں شائع اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی۔ یوں امریکی دورے کا فوری فائدہ یہ ہوا کہ مسئلۂ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر ہوا اور عالمی برادری کو یہ بھی پتا چلا کہ امریکہ کا صدر اِس دیرینہ قضیے کے تصفیے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اگرچہ ایک بیان میں وزیرِاعظم مودی کی طرف سے امریکی صدر سے ثالثی کے لئے درخواست کی تردید کی ہے۔ بھارتی میڈیا نے مودی کے خلاف آسمان سر پر اُٹھا لیا ہے۔

ماضی کے تجربات کی روشنی میں پاکستانی قیادت کو حقیقت پسندی، دور بینی اور احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ یقیناً ٹرمپ-عمران ملاقات سے تعلقات میں درستی کے لئے برف پگھلی ہے، تاہم ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جب امریکہ کو پاکستان کا تعاون درکار ہوتا ہے، تو وہ بچھ بچھ جاتا ہے۔ 2001میں نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے پاکستان سے اڈے طلب کیے اور جنرل مشرف نے حوالے کر دیئے، تو دو سال بعد صدر بش نے جنرل پرویز مشرف کو دورے کی دعوت دی، شاندار استقبال اور اُن کے ساتھ رقص کیا اور بار بار کہا اب ہمارے تعلقات انمٹ ہوں گے اور ہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہوں گے۔ اس کے بعد پاکستان پر کیا بیتی، یہ تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے، چنانچہ 2016میں مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم آئندہ کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ امریکہ نے برہم ہو کر پاکستان پر دروغ گوئی اور فریب دہی کے الزام لگائے، ہر طرح کی امداد بند کر دی اور پاکستانی طلبہ پر یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیئے۔ ویتنام جیسی ذلت آمیز شکست سے بچنے کے لئے اس نے پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے درخواست کی۔ پاکستان کی پیہم کوششوں سے مذاکرات کے آٹھ راؤنڈز میں بیشتر معاملات طے پا گئے، مگر آگے نہایت مشکل مقامات آئیں گے جن میں پیش رفت پر پاک-امریکہ تعلقات کی افزائش کا دارومدار ہو گا۔ اِس میں کامیابی کے لئے امریکہ اور عالمی طاقتوں کو پاکستان سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالنا اور کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دلانا ہو گا۔ ہم کسی پیشگی مفاہمت کے بغیر کشمیر میں امریکی ثالثی بھی قبول نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ امریکی بیورو کریسی اور تھنک ٹینکس میں پاکستان کے بارے میں بےاعتمادی پائی جاتی ہے اور بھارتی لابی بہت مضبوط ہے، اِس لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اِس کے علاوہ وزیرِاعظم عمران خان نے واشنگٹن میں بعض ایسے طور طریق اختیار کیے جو اُن کے منصب سے فروتر تھے، حالانکہ اُنہیں قوم کی متفقہ آواز بننے کے مواقع ملے۔ بیس ہزار تارکینِ وطن سے خطاب میں وہ انہیں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی دعوت اور گھر کی بات باہر نہ کرتے۔ اِن تحفظات اور خدشات کے باوجود ہماری طرف سے قوم کو خوشی کے لمحات مبارک!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین