• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس سال کے ابتدائی دنوں میں خاکسار نے لکھا کہ ہو سکتا ہے کشمیر اسی سال آزاد ہو جائے۔ کالم پڑھنے کے بعد میرے چھوٹے بھائی عمار برلاس میرے پاس آئے اور آتے ہی کہنے لگے ’’حضور! یہ کالم آپ نے ہوش میں لکھا ہے‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر عرض کیا کہ آپ دیکھتے جایئے کیا ہوتا ہے، کشمیر اس سال آزاد ہو جائے گا۔ کافی دن بیت گئے جب پلوامہ کا واقعہ ہوا تو پھر انہیں میری یاد آئی۔ چند ماہ گزرے تو میں نے پھر وہی لکھ دیا۔ اب جب صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی بات کی تو پھر انہیں میری یاد آئی۔ اب ایک بڑا واقعہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے، یہ بڑا واقعہ بھارتی فوج کے لئے کئی مشکلات پیدا کر دے گا اور شاید اس کے بعد بھارتی فوج کشمیر میں نہ ٹک سکے۔ یہ باتیں میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ کشمیر سے متعلق کسی وقت بھی کوئی اہم فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سال کی آخری سہ ماہی بہت اہم ہے۔

اگر آپ حالات کا تجزیہ کریں تو کشمیر میں جدوجہد آزادی کو عروج پر پائیں گے، آج کل وہ لوگ بھی کشمیر کی آزادی کی باتیں کر رہے ہیں جو ہمیشہ بھارت کی کٹھ پتلی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں، شہیدوں کا لہو پوری وادی میں بول رہا ہے، بھارتی فوجی خود بھی خائف ہیں، بے شمار بھارتی فوجی کشمیر میں ڈیوٹی دینے سے قاصر ہیں۔ بہت سے تو کشمیر آنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے، کچھ خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ بھارتی فوج میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ کشمیر میں فرائض انجام دینے والے کئی بھارتی فوجی نیم پاگل اور بیشتر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں، بھارت کی ہر چال کشمیر میں ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ اسی ناکامی کو دیکھ کر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ سے درخواست کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالث کا کردار ادا کریں۔ حال ہی میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے موقع پر جب امریکی صدر نے دنیا کو یہ بات بتائی تو بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ بھارتی میڈیا نے امریکہ پر یلغار کی تو بھارتی سیاستدانوں نے مودی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا، مودی سرکار نے جان چھڑوانے کے لئے ایک ترجمان کے ذریعے وضاحت جاری کی مگر امریکیوں نے اس کا بھی کرارا جواب دے ڈالا۔

امریکی انتظامیہ اس وقت پاکستانی وزیراعظم کی گرویدہ ہو چکی ہے، عمران خان نے وہاں تاریخ رقم کی ہے۔ پہلے تو عمران خان نے واشنگٹن میں ایک بڑا جلسہ کیا پھر اگلے دن وہائٹ ہائوس کا پورا ماحول عمران خان کے سحر میں گرفتار تھا، یہیں ٹرمپ نے بڑی اہم باتیں کیں، امریکی صدر نے پاکستانی لوگوں کی بہت تعریفیں کیں، انہوں نے پاکستانی وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا ’’پاکستانی قوم آپ کی طرح ٹف اور اسمارٹ ہے‘‘۔ اس روز عمران خان کا پلڑا بھاری رہا، رہی سہی کسر ٹرمپ کی اہلیہ کے ٹویٹ نے پوری کر دی۔ اس سے اگلے دن عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک کی آنکھیں کھول دیں، دنیا کے حالات پر پوری دسترس سے بات کی۔ عام سی شلوار قمیص، واسکٹ اور پشاوری چپل پہنے سادہ سے انسان نے اراکین کانگریس کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ وہ عمران خان کی تعریفیں بھی کرتے رہے، ان کے ساتھ سلفیاں بھی بناتے رہے، نینسی پلوسی کی تو خوشی دیدنی تھی اسی لئے تو عمران خان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اگلے ہی روز قرارداد آ گئی۔ پاکستانی وزیراعظم کی امریکہ میں تمام ملاقاتیں کامیاب ترین تھیں انہوں نے ہر موڑ پر خود کو اہم ثابت کیا۔ ان کی ہر گفتگو میں پاکستان کی کرپٹ سیاسی اشرافیہ کا تذکرہ رہا، انہوں نے کرپٹ سیاستدانوں کو مافیا بھی کہا، انہوں نے دنیا کے حالات پر بھی بہت گہری باتیں کیں، خاص طور پر افغانستان اور ایران سے متعلق سارا سچ سامنے رکھ دیا۔

پاکستانی وزیراعظم کے دورے کو سیاسی، سفارتی، عسکری اور معاشی لحاظ سے کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ دورہ حالات کی تبدیلی میں سنگ میل ثابت ہو گا۔ بھارت کے سابق فوجی جرنیل اور ماہرین آگ بگولہ ہیں، وہ اپنی حکومت کو کوس رہے ہیں کہ بھارت نے سفارتی محاذ پر سالہا سال لگا کر جو کامیابیاں حاصل کی تھیں عمران خان نے ایک سال میں ان پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس وقت امریکہ، روس، چین اور سعودی عرب پاکستان کے گیت گا رہے ہیں، ایران میں بھی عمران خان نے خاطر خواہ کامیابیاں سمیٹی ہیں، بھارت اس وقت تنہا ہے۔ رہا برطانیہ تو وہاں بورس جانسن وزیراعظم بن گیا ہے، بورس جانسن پہلے ہی سے عمران خان کا مداح ہے، وہ عمران خان سے کرکٹ سیکھتا رہا ہے، وہ جب 2016میں بطور وزیر پاکستان آیا تو عمران خان سے خصوصی طور پر ملنے گیا۔ ایک پرستار کے طور پر سلفیاں لیتا رہا، اس دوران اس نے ایک جملہ کہا تھا، جو اس وقت خواب تھا، اب پورا ہو گیا ہے۔ بورس جانسن نے کہا تھا کہ ’’کبھی وہ وقت آئے گا کہ آپ پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے اور میں برطانیہ کا‘‘۔ 

مسئلہ کشمیر کے تذکرے کے ساتھ ہی برطانیہ یاد آجاتا ہے کیونکہ 1947میں پاکستان اور بھارت دونوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔ برطانیہ ہی یہ مسئلہ بیچ میں چھوڑ گیا تھا۔ اب جب امریکی صدر اس اہم مسئلے پر بات شروع کریں گے تو یقیناً بورس جانسن سے بھی بات ہو گی، بورس جانسن، عمران خان کا پکا فین ہے، اگلی صورتحال کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اس لئے اب بھارتی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اس قدر اہم جغرافیائی حیثیت دے رکھی ہے کہ دنیا کے لئے مشکل ہے کہ وہ پاکستان کو نظر انداز کر سکے۔ حالات بدل رہے ہیں اور مجھے صوفی برکت علی لدھیانویؒ کا یہ بات بہت یاد آ رہی ہے کہ ’’ایک ایسا وقت آئے گا کہ پاکستان دنیا کے فیصلوں پر اثر انداز ہوگا، پاکستان کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ہو گی‘‘۔ پاکستان قدرت کا انعام ہے۔ شعیب بن عزیز یاد آ گئے کہ

دوستی کا دعویٰ کیا، عاشقی سے کیا مطلب

میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں

زندگی بکھرتی ہے، شاعری نکھرتی ہے

دلبروں کی گلیوں میں، دل لگی کے کاموں میں

تازہ ترین