• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دانا لوگ کہتے ہیں اور شاید ٹھیک کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساٹھ ستّر فی صد سے زائد مسائل کی جڑ ہندوستان کے ساتھ کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے بعض عناصر قوم کو 1947ء کی فضا سے نکلنے نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے نفرتوں پر مبنی ایک جذباتی سوچ فروغ پاگئی۔ اس کشیدگی کی وجہ سے انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو ریاست سرپرستی میں معاشرے کے اندر فروغ دیا گیا اور یہی عفریت اب اس انتہا تک آن پہنچا کہ عسکری قیادت بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ پاکستان کو اصل خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے پاکستان فلاحی کی بجائے نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنی استعداد سے بڑھ کر دفاعی اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں اور اپنی استعداد سے بڑھ کر فوج رکھنی پڑرہی ہے۔ اس کشیدگی ہی کا پاکستان کے اندر مارشل لاؤں کے نفاذ میں کلیدی کردار رہا ہے۔ میاں نوازشریف اور پرویز مشرف کا معاملہ ہو یا بے نظیر بھٹو اور اس وقت کے فوجی سربراہوں کا ‘ ہر موقع پر سول ملٹری قیادت کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دینے میں اس کشیدگی کا ہی بنیادی کردار رہا۔ یہی کشیدگی ہماری افغان پالیسی کی کلید رہی ہے ۔ ہندوستان کے اثرورسوخ کے خوف سے ہم افغانستان میں اتنے دخیل ہوگئے کہ اب اس سے نکل نہیں سکتے حالانکہ افغان پالیسی الٹا پاکستان کو نگلنے لگی ہے ۔ اسی کشیدگی کی وجہ سے ہم خطے میں تجارتی بلاک کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکے ۔ اسی کشیدگی کی وجہ سے ہم ماضی میں امریکہ کی گود میں چلے گئے اور یہی کشیدگی نائن الیون کے بعد آنکھیں بند کرکے امریکہ کا ساتھ دینے کا موجب بنی (کیونکہ اس وقت خوف بھی یہی تھا اور پرویز مشرف کی اصل دلیل بھی یہی تھی کہ ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو یہ سہولتیں ہندوستان مہیا کردے گا اور پھر دونوں مل کر ہمیں پتھر کے زمانے میں بھیج دیں گے) ۔ آج بھی حقیقت یہ ہے کہ ہم امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کے بہت سارے نخرے ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے اٹھارہے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ کشیدگی ہمارے مسائل کی جڑ ہے تو اس کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔ بلاشبہ ہمارا دعویٰ درست اور ہندوستان کا غلط ہے ۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور ہر پاکستانی کی آرزو ہونی چاہئے کہ یہ جنت نظیر خطہ پاکستان کو مل جائے ۔ کشمیریوں کی واضح اکثریت بھی ہندوستانی فوج سے نفرت کرتی ہے اور اس کی آزادی کی متمنی ہے ۔ اخلاقی لحاظ سے ہندوستان کا دعویٰ بہت کمزور اور ہمارا دعویٰ نہایت مضبوط ہے ۔ اقوام متحدہ کا دروازہ پاکستان نے نہیں بلکہ ہندوستان نے کھٹکھٹایا تھا اور اس کی قراردادوں کی رو سے استصواب رائے ہی ہونا چاہئے لیکن المیہ یہ ہے کہ دورحاضر میں کوئی بھی فیصلہ اخلاقیات اور عدل کے اصولوں کے تحت نہیں ہوتا، اس دور کا اصول عدل نہیں طاقت ہے، معیشت ہے، بین الاقوامی برادری کی صفوں میں اثرورسوخ ہے، مختلف بنیادوں پر بننے والی صف بندیاں ہیں ۔ یہاں اگر عدل و انصاف کی بنیاد پر فیصلے ہوتے تو کیا آج اسرائیل دنیا کے نقشے پر موجود ہوتا؟ کیا خود اقوام متحدہ عدل کے اصولوں کے تحت بنی ہے؟ اقوام متحدہ میں پانچ ممالک کے لئے ویٹو کا حق کیا عدل کے اصولوں سے موافق ہے؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دور حاضر کی اصطلاح انصاف نہیں ‘ طاقت کا توازن ہے ۔ اس کا اصول ”عدل“ نہیں ”ممکن“ ہے ۔ ہم اگر کشمیر کے معاملے میں عدل پر اصرار کریں گے تو سو سال مزید گزر جائیں گے اور ہندوستان یا کشمیر سے متعلق ہماری آرزوئیں پوری نہیں ہو سکیں گی۔ وہ لوگ جو پاکستان اور ہندوستان کو سن سینتالیس کی فضا سے نہیں نکالنا چاہتے ‘ بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ جنگ کے ذریعے کشمیر کو حاصل کیاجاسکتا ہے اور نہ ہندوستان کو صفحہٴ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے ۔ اس بنیاد پر ہم نے تین جنگیں لڑیں اور کسی ایک کے نتیجے میں بھی کشمیر کی آزادی کی منزل قریب نہیں آئی بلکہ الٹا پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ حکومتوں سے مایوس ہوکر کشمیر کے اندر عسکریت پسندی کی لہر چل پڑی لیکن نائن الیون کے بعد جس طرح عسکریت پسندی کو گالی بنا دیا گیا‘ اس کے بعد عسکری کارروائیاں کرنے والوں کے لئے دنیا کی حمایت ناممکنات میں سے بن گئی ہے اور مجاہدین کی عظیم قربانیوں کے باوجود اس عمل سے کشمیریوں کی جھولی میں کوئی خیر نہیں گرا ۔ تیسرا آپشن سفارت کاری کا تھا لیکن اس ضمن میں ایک تو ہندوستان کا رویہ نہایت بے لچک بلکہ جارحانہ ہے اور عالمی فورمز پر اپنی بہتر اور پاکستان کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے وہ سفارتی جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے۔ ہماری سیاسی اور سفارتی کوششیں بھی نہایت ناقص ہیں ۔ کشمیر کے نام پر پاکستان کے اندر اور مغربی ممالک میں بہت سارے لوگوں نے دکانیں کھول رکھی ہیں اور ان کا مقصد کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کی بھلائی نہیں بلکہ اپنی اپنی دکان کو چمکانا ہے ۔ سیاسی اور عسکری قیادت بھی عموماً سوچ کے حوالے سے بٹی نظر آتی ہے اور وہ کبھی بھی ہمہ جہت اور منظم کوششیں کرسکیں اور نہ کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ قاضی حسین احمد کو اللہ غریق رحمت کرے ‘ نے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر میاں نوازشریف نے اسے سرکاری حیثیت دے دی لیکن یہ دن منانا بھی اب صرف ایک فیشن بن گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایک دن کی چھٹی منانے کا کشمیریوں کو کیا فائدہ اور ہندوستان کو کیا نقصان؟ ہم سے ایک بنیادی غلطی یہ سرزد ہورہی ہے کہ ہم نے ایک طرف توکشمیر کے مسئلے کو کفر اور اسلام کی جنگ بنا دیا ہے اور دوسری طرف دنیا سے انسانی بنیادوں پر اس میں تعاون کی اپیل کررہے ہیں ۔ اب اگر یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے تو پھر امریکہ ‘ برطانیہ اور چین جیسی غیراسلامی طاقتیں اس جنگ میں ہمارا ساتھ کیوں دیں؟ اسی طرح یہ جنگ کشمیریوں کی آزادی کے لئے شروع کی گئی تھی لیکن پچھلے ساٹھ سالوں کے دوران اس سے سب سے زیادہ کشمیری متاثر ہوگئے اور انہیں ایک دن بھی چین سے جینا نصیب نہیں ہوا۔
ان گزارشات کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ہم مایوسی کے شکار ہوں ‘ کشمیر سے دستبردار ہوجائیں یا پھر ہندوستان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ۔ گزارش صرف یہ ہے کہ کیا مذکورہ بالاحقائق تقاضا نہیں کرتے کہ ہم اپنی پالیسی اور حکمت عملی پر نظرثانی کرلیں ۔ اگر پاکستان رہے گا اور خوشحال رہے گا تو کشمیریوں کو بھی حق دلوادے گا لیکن اگر پاکستان خود دہشتستان بنا ہو تو پھر وہ کشمیریوں کے لئے کیا کرسکے گا؟ اگر پاکستان میں لوگ سکون سے رہیں گے تو کشمیری بھی اس میں شامل ہونے کی تمنا کریں گے لیکن اگر یہاں گلے کاٹے جائیں گے اور بمباریاں ہوتی رہیں گی تو پھر کشمیری کیوں اس میں شامل ہونے کے لئے تڑپیں گے؟ مسلمان لڑنے اور مرنے سے نہیں گھبراتا لیکن اسے اس کے قرآن نے حکمت ‘ تدبر اور صبر کا بھی درس دیا ہے ۔ ہم سے ایک غلطی یہ سرزد ہورہی ہے کہ ہم ہندوستان کے ساتھ کشیدگی اور کشمیر کے مسئلے کو صرف ہندوستان کے آئینے میں دیکھتے ہیں ۔ اگر ہندوستانی رویّے کو دیکھا جائے تو ہمارا ہر ردعمل درست ہے لیکن ہم اس حوالے سے نہیں دیکھتے کہ خود پاکستان پر موجودہ کشیدگی کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ہم اس جانب دھیان کیوں نہیں دیتے کہ شاید یہی تناؤ اور کشیدگی ہندوستان کو سوٹ کررہی ہے کیونکہ اس کا جو نقصان دونوں ملکوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے شاید وہ ہندوستان کے لئے قابل برداشت ہو لیکن پاکستان کے لئے ناقابل برداشت بنتا جارہا ہے۔
آئین نو سے ڈرنا‘ طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تازہ ترین