• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں بڑی بحث ہوئی، ہوتی ہی رہتی ہے کہ عدالتیں ملزموں کو بری کردیتی ہیں۔ حکومتی اہلکار زورشور سے کہتے ہیں، جب ملزم چھوڑ دیئے جائیں گے تو جرائم پر قابو کیسے پایا جائے گا، صبح شام اس دلیل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟ یا حقائق اس کے برعکس ہیں؟ یہ دلیل دیتے ہوئے ایک بنیادی بات فراموش کردی جاتی ہے، جان بوجھ کر کہ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ شواہد پولیس اکٹھے کرتی ہے، وہی تحقیقات بھی کرتی ہے اور عدالت میں مقدمہ بھی وہی پیش کرتی ہے۔ اگر وہ مقدمہ ٹھیک سے تیار نہ کرے، ناقابل تردید شواہد جمع نہ کرے تو عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی۔ بنیادی بات وہی ہے جو حضرت عائشہ سے منسوب ہے کہ سو گناہ گار بچ جائیں تو کوئی حرج نہیں، ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہئے۔ یہی اصول بعد میں عالمی عدالتی نظام کی بنیاد قرار پایا اور اس پر عمل کے لئے تمام شبہات سے بالاتر شواہد پیش کرنا ضروری ہیں۔ پولیس عام طور پر شواہد پیش نہیں کرپاتی، الزام ثابت نہیں کرپاتی اور یوں ملزم بری ہوجاتے ہیں، الزام عدالتوں پر دھر دیا جاتا ہے۔ ہونے کو بہت سے مقدمات ہوں گے، دو ایسے ہیں جن کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازہ لگانے کے لئے کہ اگر قتل کے اتنے اہم مقدمات میں یہ ہوسکتا ہے تو دوسرے معاملات میں کیا کچھ نہ ہوتاہوگا۔
ایک مقدمہ تھا ممتاز صحافی اور تکبیر کے مدیر محمد صلاح الدین کے قتل کا۔ ایک ہی دن میں تین صحافیوں کو عدالت سے سمن موصول ہوئے پھر قابل ضمانت وارنٹ۔ وہ استغاثہ کے گواہ ہیں اور عدالت میں پیش ہوں۔ دوسرے دو گواہ ضرار خان اور اے ایچ خانزادہ تھے۔ تینوں کو پتہ نہیں تھا کہ وہ گواہ ہیں، استغاثہ کا گواہ ہونا تو الگ رہا۔ تاہم وہ عدالت میں پیش ہوئے۔ وہاں پولیس نے ملزمان پیش نہیں کئے تھے۔ خاتون جج مقدمہ کی سماعت کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اصرار کیا پولیس خاصی تاخیر سے ملزمان کو لے کر آئی۔ اس دوران مقدمہ کی فائل کا بھی مزید جائزہ لیا گیا۔ کئی دستاویز تھیں۔ تینوں صحافیوں کے بیانات تھے، انفرادی حیثیت میں۔ مگر تینوں کی زبان ایک تھی، بیان بھی ایک ہی تھا”میں گزشتہ چار پانچ سال سے تکبیر کا ملازم ہوں۔ دفتر میں بیٹھا تھا کہ گولیاں چلنے کی آواز آئی، نیچے گیا تو پتہ چلا صلاح الدین صاحب کو قتل کردیا گیا ہے“۔ ان بیانات پر دستخط بھی تھے، دستخط کیا تھے بس چڑیا سی بٹھا دی گئی تھی۔ یہ استغاثہ کے تین گواہوں کے بیانات تھے ! پولیس کے مطابق فائل کی مزید ورق گردانی کی گئی تو ایک اور بیان بھی منسلک تھا ”میری موجودگی میں جائے واردات کا معائنہ کیا گیا “۔ اس پر بھی ایک چڑیا بٹھائی ہوئی تھی۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو تینوں صحافیوں نے کہا کہ وہ کبھی صلاح الدین صاحب کے جریدے کے ملازم نہیں رہے۔ جج بھی حیران اور پراسیکیوٹر بھی۔”اس بیان میں آپ نے یہ کہا ہے“۔ یہ ہمارا بیان نہیں تھا، اس پر کئے گئے دستخط جعلی تھے، جعلی بھی نہیں، بس چڑیا بٹھا دی تھی کسی نے۔
یہ قتل کے اس مقدمہ کی روداد ہے جس پر شدید ردعمل ہوا تھا، احتجاج بھی ہوا تھا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر۔ مقتول ایک اہم فرد تھے، بڑے صحافی تھے، وسیع تعلقات رکھتے تھے۔ پولیس نے قتل کی تحقیقات کی تھی، کیا تحقیقات کی ہوگی؟ جس مقدمہ میں استغاثہ کے تین گواہ جعلی ہوں، تینوں ہی منحرف ہوجائیں ،اس میں کتنی جان رہ جاتی ہے، قانون کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے۔ گواہوں کو منحرف ہونا ہی تھا یا شاید منحرف ہونا ان کے لئے درست نہ ہو۔ وہ کبھی گواہ بنے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے کبھی کوئی بیان دیا ہی نہیں تھا۔ ان کے دستخط سمیت جو کچھ تھا سب اس مقدمہ کے تحقیقاتی افسر کے ہاتھ کی صفائی تھی،نتیجہ ظاہر ہے ملزمان بری کر دیئے گئے۔ عدالت کیا کرتی؟ کس بنیاد پر سزا دیتی؟ نہ گواہ ، نہ کوئی اور ثبوت۔ قتل کے کسی مقدمہ میں سزا دینے کے لئے ناقابل تردید شہادتیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک آدمی کی جان کا معاملہ ہوتا ہے۔ پولیس ایسے معتبر شواہد کب جمع کرپاتی ہے؟ ان حالات میں اگر صرف تین چار فیصد مقدمات میں سزا ہوتی ہے تو بس ایسا ہی ہوسکتا ہے۔
دوسرا بھی اہم مقدمہ تھا۔ یہ حکیم محمد سعید کے قتل کا مقدمہ تھا۔ یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ اس کے بعد سندھ حکومت برطرف کردی گئی تھی اور گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔ نواز شریف نے متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد ختم کرلیا تھا اور کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے خلاف بعد میں ہونے والی سازش کے تانے بانے حکیم سعید کے قتل سے بھی مل سکتے ہیں، اگر تلاش کئے جائیں۔ اعلیٰ سطح پر، بہت اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی گئی،آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ نے نگرانی کی۔ وزیراعظم نواز شریف کو دی گئی بریفنگ جنرل بٹ کی سربراہی میں، ایڈیشنل آئی جی رانا مقبول نے دی تھی۔ آئی جی کو اس بریفنگ میں شریک نہیں کیا گیا تھا۔ اتنے اہم مقدمے میں پولیس نے جس شخص کو ’اصل ملزم‘ قراردیا اس کے پاس جائے واردات سے عدم موجودگی کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے۔ واقعے کے دن اس کے گھر میں ایک تقریب تھی، وہاں درجنوں لوگ موجود تھے، وڈیو بھی تھی، نتیجہ ظاہر ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے ’اصل ملزم‘ عامراللہ اور دیگر ملزمان کو بری کردیا،عدم ثبوت کی بنا پر ۔ یہ اہم لوگوں کے قتل کے مقدمات کی بات ہے دوسرے معاملات میں کتنی ذمہ داری کاثبوت دیا جاتا ہوگا، اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی عدالتی کمیشن کبھی اس بات کا جائزہ لے، کوئی اسٹڈی اس کی بھی ہو کہ استغاثہ کی کوتاہی کی وجہ سے کتنے ملزم بری ہو جاتے ہیں۔ صرف عدالتوں کو مطعون کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کمیشن اس مسئلے کا کوئی حل بھی تجویز کرے اور اگر کسی کمیشن نے کوئی رپورٹ دی ہے تو اس پرعمل بھی ہو۔ یہ عمل اس طرح نہ ہو کہ فوجی عدالتیں قائم کردی جائیں۔ قانون سے نابلد ایک کیپٹن یا میجر جج بنا دیا جائے۔ وہ مقدمہ سنے، فیصلہ کر دے۔ یہ فیصلہ ایک کاغذ پر لکھا ہوتا تھا،صرف ایک کاغذ پر۔ ایک خانے میں ملزم کا نام، اس کے سامنے الزام اور پھر فیصلہ۔ فوجی جج نے ایک مقدمہ سنا۔ ملزم پر تین الزامات تھے، اسلحہ رکھنا، دہشت گردی کرنا اور قتل۔ پہلے دو الزامات میں اسے بری کر دیا گیا۔ تیسرے الزام، قتل میں اسے موت کی سزا سنادی گئی۔ نہ دلیل، نہ شواہد، نہ یہ وضاحت کہ جس پر اسلحہ رکھنے کا الزام ثابت نہیں ہوا ہو اس نے قتل کیسے کیا۔ اس شخص کو پھانسی بھی ہو گئی۔ پتہ نہیں اصل ملزم وہ تھا یا پولیس نے کسی بیچارے کو پھانسی چڑھوا دیا۔ ناقابل تردید شواہد عدالت کے سامنے پیش کئے بغیر اگر کسی ملزم کو سزا ہو بھی جاتی ہے تو یہ انصاف کا خون تو ہو سکتا ہے جرم کی بیخ کنی نہیں۔ پولیس کا تحقیقاتی نظام، طریقہ کار، یہ سب ٹھیک کریں پھر عدالتوں کو الزام دیں۔
اور پولیس اسے سیاست سے پاک کرے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اعلیٰ پولیس افسران ایک ’ماورائے آئین‘ وزیر اعلیٰ کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کئے جائیں، اس کی خوشنودی حاصل کریں تاکہ نوکری بچ سکے اور یہ توقع بھی کی جائے کہ وہ مجرم بھی پکڑیں گے اور ٹھوس شواہد بھی عدالتوں کے سامنے پیش کریں گے۔
تازہ ترین