• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امجد علی

برفیلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر تو ابھی بھی برف تھی لیکن نیچے وادی میں موسم خوشگوار ہو چکا تھا۔ اسی لیے ریچھ کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ نیچے پھیلے بڑے سے میدان کی طرف جا رہا تھا ۔ اُس کی ماں اپنے ننھے ریچھ کو زندگی گزارنے کے سارے طور طریقے سکھانا چاہتی تھی۔ ویسے تو اُس کا باپ بھی اُسے سکھاتا تھا لیکن آج سکھانے کی باری ماں کی تھی۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ پہاڑ سے نیچے اُتر رہے تھے۔ جنگل میں قسم قسم کے پرندے گیت گا رہے تھے، جنہیں مزے سے سنتا ہوا ننھا ریچھ اپنی ماں کے آگے آگے اچھلتا کودتا چلاجا رہا تھا۔ پھر وہ نیچے دریا کے کنارے پر پہنچ گئے۔ ننھے ریچھ کو دور تک ہموار زمین نظر آئی تو اُس نے تیز تیز بھاگنا شرو ع کر دیا۔ جب وہ کافی دور نکل گیا تو اُس کی ماں نے ایک زور دار آواز نکالی، جو پوری وادی میں گونج ا ُٹھی، ننھے ریچھ کے قدم فوراً رُک گئے،ماں نے اُسے واپس بلایا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا واپس ماں کے پاس پہنچ گیا۔ ایک جگہ پانی بہت کم تھا اور دریا گہرا بھی نہیں تھا۔ سبق شرو ع ہو چکا تھا۔ ننھے ریچھ کی نظریں مسلسل اپنی ماں پر لگی ہوئی تھیں۔ ماں نے اپنا دایاں پاؤں پانی میں ڈالا اور پھر فوراً پیچھے کھینچ لیا۔ ننھے ریچھ نے بھی ایسا ہی کیا۔ پھر ماں پانی کے اندر چلی گئی۔ پیچھے پیچھے اُس کا بچہ بھی پانی کے اندر جانے لگا لیکن پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اُسے جھرجھری آ گئی اور وہ بھاگ کر واپس خشکی پر چلا گیا۔ ماں اب اُس کی طرف دیکھ رہی تھی اور پنجےپانی میں مار رہی تھی۔ وہ اُسے پانی کے اندر بلا رہی تھی۔ ماں کے پنجے لگنے سے پانی میں پیدا ہوتی ہلچل ننھے ریچھ کو بھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ بالآخر اُس سے رہا نہیں گیا اور وہ بھی پانی میں داخل ہو گیا۔ 

شرو ع میں کچھ دیر وہ کانپتا رہا لیکن پھر جب اُس نے بھی پانی میں اچھلنا کودنا شرو ع کیا اور پانی کی سطح پر پنجے مارنا شرو ع کیے تو اُس کی کپکپاہٹ جاتی رہی۔ اب اُسے خوب مزہ آ رہا تھا۔ دونوں کو بھوک لگنےلگی۔ دریا میں کچھ دور، جہاں پانی گہرا تھا، وہاں رنگا رنگ مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ماں اُن مچھلیوں کی طرف جانے لگی تو ننھا ریچھ بھی پیجھے پیچھے چلا۔ تب ماں فوراً رُک گئی۔ اُس نے اپنے بچے کی طرف منہ کر کے اپنی تھوتھنی زور زور سے اوپر نیچے ہلائی۔ ننھا ریچھ رُک گیا۔ ماں اُسے یہیں رُکنے کو کہہ رہی تھی۔ یہ اگلا سبق تھا۔وہ دور کھڑا ماں کو مچھلیوں کا شکار کرتے دیکھتا رہا۔ ساتھ ساتھ پانی میں کھیلتا بھی رہا۔ یہاں تک کہ ماں شکار کی ہوئی دو بڑی بڑی مچھلیاں منہ میں دبائے گہرے پانی سے نکل آئی۔ وہ دونوں دریا سے باہر نکل آئے اور مزے سے اُن مچھلیوں کا نرم نرم گوشت کھایا۔ پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد اُسے نیند آنے لگی تھی۔ تب دونوں واپس پہاڑ کی طرف جانےلگے۔ابھی وہ راستے میں تھے کہ وہاں ایک شکاری آن پہنچا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک لمبی بندوق تھی، جسے ہاتھ میں تھامے وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ جیسے ہی اُس نے ننھے ریچھ کو اپنی ماں کے ساتھ پہاڑ پر جاتے دیکھا، وہ بھی پیچھے پیچھے ہو لیا۔ ماں آگے آگے بڑے بڑے قدم اٹھاتی پہاڑ پر چڑھ رہی تھی، ننھا ریچھ پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ پھر گھنے درختوں کے بیچوں بیچ اچانک ماں رُک گئی۔ اور چاروں طرف سر گھما کر کچھ سونگھنے کی کوشش کی۔ ننھے ریچھ کو ایک پرانا سبق یاد آگیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ماں کسی خطرے کی بُو سونگھ رہی ہے۔ ننھا ریچھ خوف سے سمٹ کر ماں کے ساتھ لگ گیا۔ شکاری کے قدموں کے نیچے سوکھی شاخوں کے ٹوٹنے کی آواز سن کر ماں کو پختہ یقین ہو گیا کہ خطرہ قریب آن پہنچا ہے۔ ماں کو شکاری کی موجودگی کا پتہ چل گیا تھا اور اب اُس نے تیزی سے اوپر جانا شرو ع کر دیا۔ ننھا ریچھ ماں کے ساتھ ساتھ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

اُسے بہت ڈر لگ رہا تھا وہ بار بار ٹھوکر لگنے سے گر بھی جاتا تھا۔ ماں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی تھی اور کبھی کبھی اُسے رُکنا بھی پڑتا تھا۔ اور پھر اچانک …ایک زور دار دھماکہ ہوا، جس سے پورا پہاڑ لرز اٹھا۔ ننھے ریچھ کا دل دہل گیا۔ اُس کی ماں کے قدم بھی رُک گئے۔ شکاری نے گولی چلا دی تھی لیکن دونوں کی خوش قسمتی کہ گولی اُن کے قریب ایک درخت کے تنے میں جا لگی تھی۔ ماں نے ایک بار پھر اپنے بچے کو ساتھ لے کر تیزی سے اوپر جانا شرو ع کر دیا۔ اُس کے قدم اس لیے بھی تیز ہو گئے تھے کہ وہ اپنے گھر کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ فائر کی آواز سن کر ننھے ریچھ کا باپ بھی کھوہ سے باہر نکل آیا، اُسے بھی اندازہ ہ ہوگیا تھا کہ ننھا ریچھ اور اُس کی ماں خطرے میں ہیں۔ شکاری اور قریب آ گیا تھا۔ننھے ریچھ نے جیسے ہی اپنے باپ کو دیکھا، بھاگ کر اُس سے جا چمٹا۔ اب ننھا ریچھ درمیان میں تھا اور اُس کی ماں اور اُس کا باپ اُس کے دونوں طرف کھڑے شکاری کو اوپر آتا دیکھ رہے تھے۔ پھر ننھے ریچھ کو ایسے لگا، جیسے ایک زور دار زلزلہ آیا ہو۔ اُس کے والدین نے مل کر ایک ایسی چنگھاڑ ماری۔شکاری بھی اتنی بلند چنگھاڑ سن کر ایک دم گھبرا گیااور اُس کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ کرایک گہری کھوہ میں جا گری۔ خود شکاری لڑھک کر کئی میٹر نیچے جا گرا۔ اُس کا سر ایک پتھر سے ٹکرایا اور وہ شدید زخمی ہو گیا۔ اُدھر ننھے ریچھ کے والدین نے ایک اور زور دار چنگھاڑ بلند کی۔ شکاری زخمی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا پہاڑ سے نیچے اُترتا چلا گیا۔ شکاری پہاڑ سے اُتر کر بھاگ گیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔

کچھ دنوں بعد برف پڑنے لگی۔ سارا پہاڑ سفید برف سے ڈھکنا شروع ہو گیا۔ تب ننھا ریچھ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ اپنے گھر میں بند ہو گیا، جو پہاڑ کی ایک گرما گرم غار میں بنا ہوا تھا۔ اب ان تینوں کو سردیوں کا زیادہ تر وقت اسی غار میں گزارنا تھا۔ ننھا ریچھ سوچتا ہوا سو گیا کہ جب اگلی گرمیاں آئیں گی تو وہ نیچے وادی میں جاکر خوب مچھلیاں کھایا کرے گا۔

تازہ ترین