• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے کئی دنوں سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے بڑے، چھوٹے سیاسی رہنما اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ ایک سے دوسری پارٹی میں جا رہے ہیں، ان سیاسی رہنماؤں کو بے چارے عوام کا درد، دکھ، مسائل اور مصیبتوں نے اتنا پریشان کر دیا ہے کہ اب بہت سارے سیاسی رہنماؤں نے سوچا ہے کہ کیوں نہ اب کسی اور پارٹی میں شامل ہو کر عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہئے۔ پانچ برس قبل جب موجودہ لوگ حکومت میں آئے تھے تو انہوں نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ ہمارے پانچ برسوں میں پاکستان دنیا کا ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ مسائل ختم، عوام خوشحال، پھر جب چار برس گزر گئے تو سیاسی رہنماؤں کے بیانات آنا شروع ہو گئے کہ ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں، عوام ہمیں معاف کر دیں۔ ہم آئندہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے، البتہ ان پانچ برسوں میں حکومت میں رہنے والوں کے مالی حالات اور جائیدادوں میں کئی گنا اضافہ ضرور ہو گیا۔ سیاست دانوں کے بچے اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ممالک چلے گئے اور غریب کے بچے سکولوں سے باہر ہو گئے۔ کسی کے پاس سکول کی معمولی فیس تک کے پیسے نہیں تو کسی کے پاس کتابوں اور یونیفارم کے لئے پیسے نہیں، کئی غربت کے باعث تعلیم چھوڑ گئے۔ کیا ہمارے سیاسی لیڈر آپس میں اس لئے لڑ رہے ہیں اور اس لئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں کہ انہیں اس بات کا شدید دکھ ہے کہ باغبانپورہ کی تاریک گلیوں میں جو شخص 1947ء سے زندگی کے بدترین دن بسر کر رہا ہے بلکہ زندگی کے نام پر شرمندگی کے دن پورے کر رہا ہے وہ اس کی زندگی کے دن بدلنے کے لئے تڑپ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد نئی پارٹی میں شامل ہو کر عوام کے دن پھیر دیں گے۔ گندی گلیوں میں رہنے والے خوبصورت بستیوں میں آباد ہوں گے، کیا یہ سب کچھ عوام کے لئے ہو رہا ہے؟ یہ تمام سیاسی لیڈرز جن کے ہاں اب موروثی سیاست چل رہی ہے۔ اپنے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ انہیں عوام کا کتنا درد ہے؟ اور انہوں نے عوام کو کیا دیا ہے؟ سیاست میں رہنے والا کبھی کوئی غریب ہوا ہے؟
پچھلے کئی روز سے وائی ڈی اے (ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) کی طرف سے سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال جاری ہے۔ مریض خوار ہو رہے ہیں۔ ا علیٰ عدالت نے بھی انہی ہڑتال نے منع کیا ہے آخر یہ ڈاکٹرز کیا چاہتے ہیں اپنی اس طاقت اور قوت کو کس علامت کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ سیاسی جماعتوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی ایک بہت بڑی قوت ہیں اور ان سے بھی ان انتخابات میں کوئی سودے بازی کی جائے کیونکہ وہ بھی بہت بڑا ووٹ بنک ہیں، شائد حکومت بھی ان ینگ ڈاکٹروں کے آگے بے بس ہے یا پھر حکومت اپنا ووٹ بنک خراب نہیں کرنا چاہتی، اس لئے ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کو تیار نہیں، دوسری طرف کیا مریض حکومت کا ووٹ بنک نہیں، ایک ایک مریض کے ساتھ دس بارہ بلکہ تیس تیس افراد تک کا خاندان اور برادری ہے، وہ ووٹ بنک خراب نہیں ہو گا؟
کیا کیمپ لگا کر بھی کبھی مریضوں کا علاج ہوتا ہے؟ ایک انسانی جان کو دیکھنا اس کا علاج کرنا کیا سڑکوں پر کیمپ لگا کر معائنہ کرکے درست علاج تجویز کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم دور جہالت میں رہتے ہیں؟ ہاں یہ دور جہالت ہی تو ہے اور کیا؟ آج کا مسیحا خود انسانی جانوں کا دشمن بن چکا ہے۔ لوگ اس کے سامنے تڑپ رہے ہیں اور وہ صرف اور صرف اپنے مطالبات کے لئے دکھی انسانیت سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔
یقین کر لیں آئندہ دس برسوں میں اس ملک کے سرکاری ہسپتالوں میں پیٹ درد کے علاج کا ڈاکٹر بھی نہیں ملے گا۔ صحیح تشخیص تو دور کی بات یوکرائن، کرغیستان، ازبکستان، چین اور گمنام میڈیکل کالجوں سے جو لوگ ڈاکٹر بن کر آ رہے ہیں ان کو ادویات کے نام لکھنے بھی نہیں آتے۔
بلڈ پریشر لینا اور شوگر ٹیسٹ بھی کرنی نہیں آتی۔ کیا وائی ڈی اے دو گروپ میں تقسیم عوام کی خاطرہوئی،کیا پی ایم اے ایک عرصہ تک مختلف گروپ میں تقسیم عوام کی خاطر ہوتی رہی۔ کیا فیملی فزیشن آج دو گروپوں میں تقسیم عوام کی خاطر ہوئی ہے۔ کوئی بھی عوام کی خاطر کچھ نہیں کرتا البتہ عوام، عوام کا راگ بڑے زور سے الاپا جاتا ہے۔
بڑے بڑے نامور ڈاکٹروں نے تو اپنے بچوں کو اپنے ہی پرائیویٹ ہسپتالوں میں باہر کے ممالک سے تربیت دلواکر لگا لیا ہے۔ عوام کے لئے اب صرف یوکرائن، چین، روس اور گمنام ممالک ہی کے ڈاکٹرز ہی رہ جائیں گے۔ جو صرف مریضوں کو ہی مارتے رہیں گے۔ یہ ڈاکٹرز کم اور سیاسی لیڈر زیادہ ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے واقعی جن عوامی مسائل سیاسی ایشوز اور الیکشن کے حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں وہ بالکل درست ہیں، کتنی عجیب بات ہے انہوں نے جس عوام کے لئے آواز اٹھائی، وہی عوام ان الیکشنوں میں چند روپے یا اپنے چھوٹے بڑے کام کرا کے پھر انہی لوگوں کو لے آئیں گے۔ جنہوں نے 65 برس میں کچھ نہیں کیا اور آئندہ بھی کچھ نہیں کریں گے۔ ملک کی بڑی بڑی پارٹیاں الیکشن کے قریب آ کر بوریوں کے منہ کھول دیں گی اور یہ بے چارے بھوکے، ننگے عوام صرف چند ٹکوں پر اپنے ضمیر کا سودا کر لیں گے اور پھر پانچ برس تک سڑکوں پر اپنے مسائل بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی اور علاج کے لئے مظاہرے کرتے رہیں گے اور حاکمان وقت بیان بازی کرتے رہیں اور یوں پھر پانچ سال مکمل ہو جائیں گے اور عوام وہیں کے وہیں رہیں گے۔
عوام سے ریاست بنتی ہے اور ریاست ہی میں عوام نظام مملکت چلانے کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، پھر آئین بنایا جاتا ہے جو عوام کو حقوق اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آئین میں عوام کے جان و مال، تعلیم اور صحت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ آج جو کچھ کراچی اور بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے کہ حکومت کس قدر جان و مال کا تحفظ کر رہی ہے۔ رہی تعلیم اور صحت کی بات تو سرکاری تعلیمی اداروں کے جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، سرکاری ہسپتالوں میں جو علاج کی سہولیات کی بات ہے، اس پر آئے دن میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں۔
لاہور اور پنجاب کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال پی آئی سی کی ایمرجنسی صرف 16بستروں پرمشتمل ہے۔ دل کے مریضوں کا ایمرجنسی میں علاج کرسیوں پر بٹھا کر کیا جاتا ہے۔ غریب مریضوں کو دو دو سال کی تاریخ دی جاتی ہے اور پرائیویٹ مریض کا علاج اسی روز کر دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خسرہ کی وباء سے اب تک بے شمار بچے مر گئے کیا حکومت نے اس کا نوٹس لیا؟ کیا ویکسین خراب تھی یا بروقت نہیں لگائی گی یا حکومت ٹیمیں وہاں تک پہنچ نہیں پائیں۔ خادم پنجاب میاں شہباز شریف نے جس طرح ڈینگی کے خلاف جہادی اقدامات کئے تھے، اب خسرہ کے خلاف بھی اسی قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
نئی خبر بھی سن لیں کہ اب پٹواری خواتین ہوں گی۔ پہلے مرد پٹواری ہی مان نہیں تھے، اب خواتین پٹواری آ جائیں گی جو رشوت میں سونے کی چوڑیاں، سیٹ، اعلیٰ بوتیک کے کپڑے اور غیر ملکی پرس اور جوتے مانگیں گی۔ اعلیٰ عدالتیں کہتی ہیں کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، لیکن تمام بڑے لوگ فراڈ کرکے ملک سے بھاگ گئے ہیں۔ اس ملک میں صرف غریب عوام ہی قانون کی گرفت میں آتے ہیں، اس وقت اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ سب کچھ عوام کے لئے ہو رہا ہے؟ اور کیا یہ سب کچھ عوام ہی کر رہے ہیں؟
تازہ ترین