• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک میں ہر طرف وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کی بات ہو رہی ہے۔ اس کی کامیابی کو ورلڈ کپ جیسی لازوال کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ اور عمران خان کی میٹنگ میں جو ہوا سو ہوا لیکن امریکہ میں عمران خان کے جلسے نے لوگوں کے دلوں کو گرما دیا۔ قریباً دس ہزار سمندر پار پاکستانیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر عمران خان کے ساتھ سلیفی بنانے کی کوشش میں تھا۔ بار بار عمران خان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ ورلڈ کپ کی فتح اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ جو لوگ عمران خان کے اس جلسے میں دور دور سے پہنچے تھے بدقسمتی سے ان میں زیادہ تر کے ووٹ پاکستان میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کا امریکہ جیسی جمہوریت سے ترک تعلقات کا کوئی ارادہ ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سیاسی معلومات پاکستان کے چند نامور چینلز کے نامور اینکرز کے نامور اقوال تک محدود ہے۔ اسی وجہ سے کرپشن کے خاتمے کے ذکر پر بہت تالیاں بجیں۔ نواز شریف کے قید خانے کا اے سی اتارنے پر بہت داد ملی۔ مولانا فضل الرحمٰن کو گرفتار کرنے کی دھمکی پر تو حاضرین نے ہال سر پر اٹھا لیا۔ اس جلسے کی نہ صرف ایک ایک لمحے کی کارروائی تمام چینلز پر دکھائی گئی بلکہ کئی دن تک تمام چینلز کے اہم خبروں کا حصہ جلسے کی پُرجوش جھلکیاں رہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ جلسہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب جلسہ تھا۔ شایدہی کوئی پاکستانی سربراہ امریکہ میں اتنی تعداد کے حاضرین اکٹھا کر سکے۔ اس بات کا کریڈٹ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم، پاکستانی چینلز، امریکی انتظامیہ اور جلسے کے ان منتظمیں کو جاتا ہے جو گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے اس کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی بھی جلسے کی کامیابی کے لئے یہ عوامل لازمی ہیں۔ فرض کریں اگر امریکی انتظامیہ راستے میں کنٹینر لگا کر جلسہ گاہ کے راستے بند کر دیتی، ایک ماہ پہلے سے جلسے کے حوالے سے ٹی وی چینلوں پر زہر اگلنا شروع کر دیا جاتا، جلسے کی کارروائی ذرا سی بھی ٹی وی پر نہ دکھائی جاتی، جلسے سے پہلے شہر میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت اور جلسے میں شرکت کے متمنی افرادکو ڈرایا دھمکایا جاتا تو کیا یہ جلسہ کامیاب ہو سکتا تھا؟مذکورہ بالا نامساعد حالات کے باوجود اگر اس ملک میں اپوزیشن اپنے بنیادی جمہوری حقوق کے اظہار کے لئے کامیاب جلسے کر رہی ہے تو سچ پوچھئے تو یہ ان حالات میں امریکہ کے جلسے سے کہیں بڑا کارنامہ ہے۔ اس کا تمام تر سہرا اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور ان کے مخلص کارکنوں کو جاتا ہے۔

امریکہ کے اس دورے میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا اس کی ابھی ہمیں سمجھ نہیں۔ امریکہ کی پالیسیاں ہمیں ہمیشہ بہت دیر میں سمجھ میں آتی ہیں۔ لیکن ایک اچھے پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں توقع رکھنا چاہئے کہ جو بھی معاملات طے پائے ہوں گے وہ ملک کے لئےبہتر ہوں گے۔ اس دورےکے نتیجے میں ملک کے مسائل حل ہوں گے۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ امریکی تعاون کے ثمرات اور مضمرات ہم پر اس وقت واضح ہوتے ہیں جب پلوں تلے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ امریکہ کی دوستی اور تعاون کے راز بہت عرصے کے بعد ہم پر منکشف ہوتے ہیں۔ 1971ء میں جب بھارت مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں اپنی چیرہ دستیوں میں مصروف تھا تو اس وقت ہم امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کر رہے تھے۔ ملک تقسیم ہوا، بدن سے ایک بازو کٹ کر گرا مگر وہ بحری بیڑا نہیں آیا۔ ضیاءالحق کے دور میں ہمیں روس کے خلاف امریکی ڈالروں کی مدد سےجنگ کرنا پڑی جس کے مضمر اثرات یہ ملک آج تک ہم بھگت رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے خود کو جس دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا اس میں ستر ہزار جانوں کا نقصان کیا۔ بچوں کو یتیم، عورتوں کو بیوہ بنا دیا گیا۔ اس امریکی اشتراک نے ماضی میں ہمیں جو المناک نقصانات پہنچائے ہیں اس کی بنا پر گزشتہ حکومت کی امریکی تسلط سے نکلنے کی پالیسی سمجھ میں آتی تھی۔ چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدے کی بات اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش سمجھ میں آتی تھی۔ لیکن وہ سب قصہ پارینہ ہوا اب ایک بار پھر ہم سب کشتیاں جلا کر امریکہ کی اشیرباد کے منتظر ہو گئے ہیں۔ اسی امریکہ کے جو ہمیں ڈو مور کی دھمکیاں دیتا ہے۔ ہم پر ہی دہشت گردی کے الزام لگاتا ہے۔ ہمارا دوست ہوتے ہوئے بھی بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھاتا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ سے امریکہ کی محبت میں گرفتار رہی ہے۔ خارجہ پالیسی پر اگر کسی نے مدلل بات سننی ہے تو ایک دفعہ یوٹیوب پر جا کر سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کی ایشیا سوسائٹی کے زیر اہتمام تقریر سن لیں۔ بات واضح ہو جائے گی۔

ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہم امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ماضی کی خطائیں ہمیں کچھ اور ہی بتاتی ہیں۔ اس سماج میں بہت سی خامیوں کا موجب ہماری امریکی اطاعت رہی ہے۔ اس یکطرفہ محبت کے باوجود ہم کو انکل سام کی طرف سے خیر کی خبر کم ہی آتی ہے۔ امریکہ نے ماضی میں ہمیں اپنے مقاصد کے لئے بے دریغ استعمال کیا اور ہم مکمل رضامندی سے استعمال بھی ہوتے رہے۔ ہم اپنے ماضی کی خارجہ پالیسیوں کی غلطیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہے ہیں۔ ستر برس گزر گئے اس ملک کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہاں تبدیلی کے نام پر یاد آیا ’’نومبر‘‘ تک کا انتظار کیجئے بہت کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ دل تھام کر بٹھئے جو کبھی نہیں ہوا وہ ہو سکتا ہے۔

نوٹ۔ اس ہفتے ایک بہت نادر کتاب ہاتھ لگی۔ پروفیسر یوسف حسن کا مجموعہ غزلیات ’’اے دل اے دریا‘‘ جو ان کے صاحبزادے شیراز حسن نے بہت محنت، محبت اور عقیدت سے شائع کروائی ہے۔ یہ کتاب بہت خاصے کی چیز ہے۔ موقع ملے تو ضرور پڑھئے گا۔ جاتے جاتے اسی کتاب سے ایک حسب حال شعر سن لیں

وسوسے ہی وسوسے روح میں بھرے ہوئے

کیا جئیں گے شہر میں شہر سے ڈرے ہوئے

تازہ ترین