• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے پہلے دورۂ امریکہ میں انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو پذیرائی ملی اُس سے یقیناً اُن تمام افراد کو ضرور شرمندگی ہوئی ہوگی جو ایک طویل عرصے سے امریکی سربراہ مملکت کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک جنگی جنون میں مبتلا اور بدمزاج انسان بناکر پیش کرتے رہے ہیں اور وزیراعظم کی امریکہ روانگی سے قبل اپنے طور پر پہلے سے ہی اس دورے کو ناکام قرار دے چکے تھے۔ مگر دورے میں جس انداز سے پاکستانی وزیراعظم کو خوش آمدید کہا گیا اس کے لئے یقیناً پوری پاکستانی قوم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ صرف اس شاندار استقبال کا ہی نہیں بلکہ صرف ایک جملے کے ذریعے پاکستان کو جس طرح بھارت پر غلبہ حاصل ہوا اُس پر بھی کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ سے ہی بھارت کو مسئلۂ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا اور اس کے لئے تقریباً ہمارے ہر حکمران نے ایک جیسی کوششیں کیں۔ اب آگے کچھ بھی ہو مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے پوری دنیا کو پتا چل گیا کہ پاکستان مسئلۂ کشمیر کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے اور ہر طرح کی عسکری کارروائی کا مخالف ہے۔ جس طرح وزیراعظم کو عزت ملی اس کے بعد پاکستانی عوام نے اب ذہنی طور پر عمران خان کو حکمران تسلیم کر لیا ہے۔ یہ ایک سچ ہے اور اسے مخالفین کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر عمران خان اس دورے کی کامیابی کو کیش کرا رہے ہیں تو یہ بحیثیت حکمراں اُن کا حق ہے ہمارے یہاں تو ایک سڑک کا بھی افتتاح ہو تو لوگ اپنی تختیاں لگانا نہیں بھولتے، یہ تو ویسے بھی سفارتی محاذ پر ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس سے قبل ہمارے جو حکمراں امریکہ کا دورہ کرچکے ہیں، اُس پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان 3مئی 1950ء کو امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے، اُن کا استقبال امریکی صدر ٹرومین اور ان کی پوری کابینہ نے کیا انہوں نے تین ہفتے سے زائد امریکہ میں قیام کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایران پاکستان کو روس سے قریب کرنے کی کوشش کررہا تھا اور لیاقت علی خان کا دورۂ روس طے بھی ہوچکا تھا، تاہم امریکہ نے فوری ردعمل دیا اور لیاقت علی خان کو امریکہ مدعو کرکے گلے شکوے دور کر دیئے۔ 11جولائی 1961ء کو صدر جنرل ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا۔ یہ وہی دورہ ہے جس کی مثالیں موجودہ وزیراعظم عمران خان اکثر و بیشتر دیا کرتے ہیں، اس دورے میں ایوب خان کا تاریخی استقبال ہوا اور امریکی صدر کینیڈی ایوب خان کا جہاز امریکہ کی سرزمین پر اُترنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ایئرپورٹ پہنچ کر تاریخی استقبال کے لئے موجود تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے گزشتہ دنوں ہمارے وزیراعظم سعودی ولی عہد کے استقبال کے لئے اسلام آباد نور خان بیس پر موجود تھے۔ یہ دور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا سنہرا ترین دور تھا۔ اس دور میں پاکستان نے بہت ترقی کی۔ ایوب خان کے اس دورے کے موقع پر بھی صدر کینیڈی نے مسئلۂ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا اعلان کیا تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے بھی امریکہ کا دورہ کیا تاہم یہ دورہ امریکی حکومت کی دعوت پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی دعوت پر کیا تھا۔ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں اور یہ سب ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے تقریباً دو سال بعد ہوا۔ اب امریکہ کو ضیاء الحق کی شدید ضرورت تھی چنانچہ 3اکتوبر 1980ء کو جب ضیاء الحق یو این او کے اجلاس میں شرکت کے لئے امریکہ پہنچے تو جمی کارٹر نے اُن کے لئے سرخ قالین بچھوایا اور بڑی آؤ بھگت کی، بعد میں آنے والے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے بھی ضیاء الحق سے بہترین دوستی رکھی اور پاکستان کو بھرپور امداد دی۔ جون 1989ء میں شہید بینظیر بھٹو کا امریکی کانگریس سے خطاب آج بھی کانگریس میں ایک یادگار کے طور پر زندہ ہے۔ امریکہ کے سب سے زیادہ دورے پرویز مشرف نے کئے۔ انہوں نے 2001 سے 2006تک آٹھ مرتبہ بحیثیت سربراہِ مملکت امریکہ کا دورہ کیا، ان کی ہمیشہ امریکی حکومت نے پذیرائی کی، پرویز مشرف بھی ضیاء الحق کی طرح خوش قسمت ثابت ہوئے جب اقتدار میں آنے کے دو سال بعد ہی وہ امریکہ کی آنکھ کا تارا بن گئے کیونکہ نائن الیون کے بعد ایک دفعہ پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ پرویز مشرف نے امریکہ کے لئے پاکستان کے کھڑکی دروازے کھولے ہی نہیں بلکہ توڑ دیئے، امریکہ نے بدلے میں ڈالروں کی بارش نہیں بلکہ سونامی برسا دیا۔ اس دوران نواز شریف نے بھی امریکہ کے دورے کئے تاہم وہ امریکہ کو ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد کبھی نہیں بھائے اور اب عمران خان امریکہ میں اپنے جھنڈے گاڑ کر آئے ہیں، اگرچہ یہ کامیابی ہے کہ جس میں انہیں اور پاکستان کو بھارت پر اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے مگر کسی بھی قسم کا کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوا ہے جس سے پاکستان کو مالی یا دفاعی فائدہ ہو۔ تاہم امید ہے کہ جلد امریکہ اس طرح کے معاہدے کرے گا جن سے پاکستان کو درپیش مالی و معاشی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے۔ عمران خان کو چاہئے کہ قوم نےجو امیدیں دورۂ امریکہ کی کامیابی سے وابستہ کر لی ہیں، ان امیدوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی توانائیاں اپوزیشن کی مخالفت پر ضائع کرنے کے بجائے اس طرح کی پالیسیاں وضع کرنے پر صرف کریں جن سے ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہو۔ اگر اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی ان کی اور ان کے ہر وزیر کی تقریر نواز شریف سے شروع ہوکر آصف زرداری پر ختم ہوگی اور قوم مایوسی کے دلدل میں ہی پھنسی رہے گی تو اس کامیاب دورے سے وابستہ ترقی کی امیدیں دم توڑ دیں گی۔

تازہ ترین