• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج انتہائی بوجھل دل کے ساتھ یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان کے حالات بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر 1970جیسے ہیں، میں نے اس ملک کو دولخت ہوتے ہوئے دیکھا، میں اکتوبر 1970میں ڈھاکا جانے والے اس دس رکنی وفد کا حصہ تھا جس کی سربراہی خان عبدالقیوم خان کر رہے تھے اور اس وفد میں یوسف خان خٹک، قاضی عیسیٰ، غلام خان محمد لوند خور، خان حنیف خان نمایاں تھے۔ ہمارا وفد فیکٹ فائنڈنگ مشن کی حیثیت سے ڈھاکا پہنچا۔ ایئر پورٹ پر 50؍ہزار افراد پاکستانی اور مسلم لیگی جھنڈے اٹھائے ہوئے موجود تھے۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل خان اے صبور خان استقبال کرنے آئے تھے۔ انہوں نے ہمارے پوچھنے پر بتایا کہ آج بھی لوگ پاکستان کے حامی ہیں اور پاکستان کی سلامتی چاہتے ہیں لیکن وقت کم ہے بھارت بہت اندر گھس آیا ہے۔ مکتی باہنی نے کافی جڑیں پکڑ لی ہیں۔ اب کوئی معجزہ ہی پاکستان کو بچا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں عوام کو پاک فوج سے متنفر کرنے کیلئے بھارتی فوج نے 80؍ہزار پاکستانی فوج کی وردیاں بنوا کر خواتین کی بے حرمتی کی اور نفرت پھیلائی۔ اس کی تصدیق خود بھارتی فوج کے سربراہ جنرل مانک شاہ (جو بعد میں فیلڈ مارشل بن گئے) نے اپنی کتاب میں بھی کر دی تھی۔ بالکل اسی طرز پر بھارت آج افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر پختون عوام میں پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے۔ پی ٹی ایم مکتی باہنی(ٹو) کے روپ میں سامنے آچکی ہے۔

دوسری جانب صوبہ بلوچستان میں بھارت بی ایل اے کے ذریعے شورش اور دہشت گردی پھیلا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے تاہم اس میں بھی وہ ناکام رہا ہے۔ اس ناکامی پر بھارت نے 27؍ فروری 2019کو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی جو ایٹمی جنگ کی صورت بھی اختیار کر سکتی تھی تاہم پاکستان کی حکمت آمیز جوابی کارروائی کےنتیجے میں دنیا ایک بڑی ہولناک تباہی سے بچ گئی۔ پاکستانی فوج اور عوام نے اپنے اتحاد اور قوت سے بھارت کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس ایڈونچر میں بھارت کو نہ صرف ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس کی فوجی طاقت کی قلعی بھی کھل گئی جب پاکستانی شاہینوں نے بھارت کے دو طیاروں کو مار گرایا۔ حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا دہشت گردی کابڑا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے۔

عمران خان نے اگست 2018میں وزارت عظمیٰ سنبھالی اور اگلے مہینے ان کی حکومت کو ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ گزشتہ 11مہینے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ مکمل طور پر ختم ہے۔ کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی ہے۔ بجٹ بھی بمشکل پاس ہوا ہے۔ بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آگیا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اس وقت پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں اپنی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ 15فیصد مہنگائی مزید بڑھے گی۔ روٹی جو اس وقت بعض علاقوں میں 15؍روپے کی ہے، مزید مہنگی ہو جائے گی۔ مہنگائی کے خلاف تاجر برادری کی ہڑتال کامیاب رہی جس سے ملکی خزانے کو 15سے 20ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ اگر یہ شٹر ڈائون ہڑتال جاری رہی تو زیادہ دن نہیں لگیں گے کہ ہچکولے کھاتی معیشت کو مزید سہارا دینا مشکل ہو جائے گا اور قرضے اتارنا تو دور کی بات، ملک خدانخواستہ ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے گا۔ آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالرکی امداد منظور تو ہو گئی ہے لیکن ریکوڈک منصوبے میں جرمانہ بھی 6؍ارب ڈالر عائد ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف کا سارا قرضہ ریکوڈک جرمانے کی نذر ہو جائے گا۔

دوسری جانب مختلف لوگوں کی وڈیوز کا نیا ڈرامہ شروع ہو گیا ہے، ایک ایک کر کے پاکستان کے تمام اداروں کو کمزور کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں دکھا جائے تو مبینہ طور پر لوٹی ہوئی دولت جو دو پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف ہے، کے واپس آنے کے امکان بہت کم ہیں۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا اور اتنا لمبا عرصہ گزر گیا کہ رقم واپس نہیں آئی۔ ان حالات میں برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف کے دور حکومت میں برطانوی امدادی اداروں کی جانب سے پنجاب حکومت کو جو 50کروڑ پائونڈ دیئے گئے تھے، کو چوری کر لیا جبکہ ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کا کہنا ہے کہ برطانوی امدادی رقم بالکل ٹھیک جگہ پر خرچ ہوئی۔ملک کو بدترین حالات سے نکالنے کا ایک ہی حل ہے کہ وزیراعظم عمران خان دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان کو بلا کر بتائیں کہ ملکی خزانے کی حالت تباہ ہے لہٰذا وہ اپنے ذمے واجب الادا رقم میں سے زیادہ سے زیادہ کتنی رقم دے سکتے ہیں، وہ خود بتائیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس طرح اتنی رقم آجائے گی کہ معاشی صورتحال بھی بہتر ہو جائے گی اور مہنگائی کا بے قابو جن بھی قابو میں آجائے گا۔میڈیا میں جس طرح وزیراعظم کی معاون خصوصی فرودس عاشق اعوان اور دوسری جانب سے مریم اورنگزیب اور دیگر کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے یہ سیاسی کشیدگی کو بڑھا رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ سیاسی کشیدگی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ پہنچنے دیا جائے۔ ملک میں سیاسی انتشار کے بجائے استحکام کی ضرورت ہے اس کیلئے حکومت ضد اور انا کے خول سے باہر نکلے اور ملک کو 1971جیسے سانحے سے دوچار ہونے سے بچائے۔

تازہ ترین