• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان ضیاء دور ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی اولین ترجیح رہے

عمران خان ضیاء دور ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی اولین ترجیح رہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی طرف 80کی دھائی میں اس وقت دیکھا جب کرکٹ کیریئر کے عروج پرتھے۔عمران خان کو اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے اپنے پاس بلایااور انہیں وزرات کی پیشکش کی۔عمران خان نے شائستگی کے ساتھ یہ کہہ کر پیشکش ٹھکرا دی کہ وہ اپناکرکٹ کیریئر سے لطف اندوزہو رہے ہیں۔لیکن عمران خان اس کے بعد بھی مختلف وجوہات کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کے راڈارپررہے،اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کا ڈکٹیٹر ایک ایسی غیرسیاسی اور ٹیکنوکریٹس پرمشتمل ٹیم بنانے کی کوشش میں تھا جو نظریاتی سیایست کوکاؤنٹر کرسکے۔جو بھٹو اور اینٹی بھٹو نظریات پرچل رہی تھی۔ ضیا نے عمران خان سے مایوس ہو کر بے نظیر بھٹواورپیپلزپارٹی جو اس وقت بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی پنجاب میں مضبوط تھی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے شریف برادران کوتلاش کیا۔بھٹو کی پھانسی کے تقریباً 25 سال بعد 1996 میں عمران خان نے سیاست کاآغازکیا۔لیکن عمران خان کی نئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف 1997 کے انتخابات میں کوئی بھی نشست نہ جیت سکی۔جبکہ پی ٹی آئی نے 2002کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ حاصل کی۔جبکہ پارٹی نے 2013 کے بعد پیچھے مڑ کرنہیں دیکھااور25 جولائی کو یوم تشکر جبکہ اپوزیشن نے عمران خان کو سلیکٹڈ سمجھتے ہوئے انتخابات کوغیرشفاف قراردیاور یوم سیاہ منایا۔2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے بھی اسی طرح کے الزامات لگاتے ہوئے کہاتھاکہ شریف برادران پہلے سے کیسے نتیجہ جانتے تھے۔لیکن عمران خان نے کبھی بھی لفظ سلیکٹڈ استعمال نہیں کیا جبکہ یہ لفظ ان کیلئے استعمال ہورہاہے۔عمران خان کی حکومت کاپہلا سال کامیابیوں اورناکامیوں پرمشتمل ہے، فارن پالیسی میں ایک کامیاب کہانی بیان کرتی ہے جبکہ معاشی پالیسیاں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتیں، ملک میں اختلافی آوازوں کودبانا حکومت کی ناکامیاں سمجھے جاسکتے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت کو اس وقت اپوزیشن کے سخت چیلنج کاسامنا ہے جو اپوزیشن کامتحدہ بیانیہ دینے کی کوشش میں ہے۔جبکہ یہ بات دلچسپ ہوگی کہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان ان کے پسندیدہ کیسے بنتے ہیں جن کے ملک کیساتھ معاملات ہیں، اور کس طرح روایتی سیاست کابدل بنتے ہیں۔لیکن عمران خان خود احتساب کے عمل کواپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔کیونکہ انہیں یقین ہے کہ احتساب کے عمل نے نوازشریف اورزرداری جیسے سیاسی مخالفین کیخلاف کارروائی کی راہ ہموارکی ہے۔عمران خان کے انکارکے بعد ضیاالحق نے میاں شریف کوقائل کیااورمیاں شریف نے خودکوپیپلزپارٹی کی قومیانے کی پالیسی کا متاثرہ سمجھااوردیگربزنس مینوں کی طرح 1977 کے انتخابات میں بھٹو مخالف پی این اے تحریک کوسپورٹ کیا۔1985کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد جنرل ضیاءالحق نے ایک غیرمعروف سندھی سیاستدان محمدخان جونیجو کووزیراعظم بنایا جس سے ضیاء نے بھٹوکی پھانسی کے بعدسندھ میں پائے جانے والے احساس محرومی کوختم کرنے کی کوشش کی،لیکن 3 سال بعد ہی جونیجو کوگھرواپس بھیج دیاکیونکہ جونیجوحکومت نے بے نظیربھٹوکوجلاوطنی ختم کرکے وطن واپسی کاعندیہ دیااور اسٹیبشلمنٹ کی خواہش کے برعکس پریس کو آزادی دی،سیاسی مفاہمت کے ساتھ جنیوا معاہدہ سائن کیا۔ضیاء نے 28 مئی 1988 کو جونیجو حکومت ختم کی اور نئے الیکشن کاوعدہ کیا۔ضیا ء کی ٹیم نے دوبارہ عمران خان تک رسائی کی لیکن عمران خان اپنے قریبی دوست کوبتایاکہ وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے۔اسی دوران شریف فیملی نے پنجاب میں جونیجوحکومت کیخلاف پی ایم ایل کے کیمپ میں طاقت جمع کرناشروع کردی،جس کے بعد پی ایم ایل (جونیجو) اورپی ایم ایل(نواز) دوپارٹیاں بن گئیں۔تاہم ضیاءنے 1985 کے بعد الیکشن نہ کرائے اور 17 اگست 1988 کو سینئرجرنیلوں اور امریکی سفیر سمیت طیارہ کریش ہونے انتقال کرگئے۔طیارہ کریش ہونے کے بعد ایک لمبا بحران پیداہوگیااوراس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ مارشل لاء نہ لگانے کافیصلہ کیااورصدرغلام اسحاق کو الیکشن کرانے کاکہا۔یہ بے نظیر کیلئے ایک خواب کی طرح تھا،بے نظیر1986 میں اپنی واپسی سے مہم شروع کرچکی تھیں لیکن ان کی کوششیں ناکام بنائی گئیں۔سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کی رہنمائی میں بے نظیر کی مقبولیت روکنے کیلئے آئی جے آئیّ(اسلامی جمہوری اتحاد) کی تشکیل کی گئی۔لیکن 1988 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی پاکستان کی سب سے بڑی بن کر ابھری اور نوازشریف اپوزیشن لیڈر کے طور پرسامنے آئے۔

تازہ ترین