• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے پاکستا ن میں جولائی کے آخری ہفتے تک 60فیصد تک تمام کاروبار بند ہوچکا ہے کوئی دکاندار 50 ہزار خریداری پر ہول سیلرز کو NICدینے کے لئے تیار نہیں ہے ،اس وجہ سے ہول سیلرز فیکٹریوں سے مال اٹھانے سے قا صر ہیں۔نیتجتاََیکم اگست 2019سے فیکٹریوںکے مالکان اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اگر FBRنے 50 ہزار والے فارمولے کا نعم البدل نہیں نکالا تو ایک طرف مارکیٹیں بند ہو جائیں گی۔ تو دوسری طرف حکومت کو کوئی ٹیکس وصول نہیں ہوسکے گا ۔وزیر اعظم عمران خان بے شک امریکہ کا کامیاب دورہ کر کے واپس آگئے ہیں مگر اس سے ایک عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اورنہ ہی ملکی معیشت بہتر ہوگی ۔وہ تو ایک سیاسی دورہ تھا صدر ٹرمپ سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہونے کی امید ہے ، اب بھارت کو کشمیرپر مذاکرات کرنے ہوں گے ۔حکومت کو چاہئے نان فائلر کو آسان طریقے سے فائلر بنائیں مثلاََہر دکاندار کو انکم ٹیکس میں رجسٹر کر کے سالانہ دکان کے سائز کے مطابق فکسڈ انکم ٹیکس 5سال کے لئے نافذ کر دیں۔ ہر دکاندار ٹیکس کے نیٹ میں آجائے گا ۔ایک سال میں 70سال کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا پھر حکومت کھربوں روپے INDIRECTتو ٹیکس وصول کر رہی ہے ،بدلے میں قوم کو کیا دے رہی ہے۔ نہ پینے کا صاف پانی اورصحت کی بہترین سہولتیں ہیں۔معیاری و مفت تعلیم سےبھی قوم محروم ہے ۔سرکار ی اسپتالوں کی حالت سب کے سامنے ہے نہ دوا ہے نہ ڈھنگ کے ڈاکٹر،اسکولوں کی حالت اور تعلیم کا معیار سب کے سامنے ہے مہنگائی کا رونارونا ہی بیکار ہے ۔ ایک طرف ڈالرکی اڑان خود حکومت کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے جو قوم سے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا واقعی زبردست تبدیلی آگئی ہے ہر شخص سر پکڑے بیٹھا ہے ۔ FBRکو چاہئے کہ ملک کے مفاد میں چیمبرز، فیڈریشن کے عہدیداروں کو بلا کر آسان اور قسط وار حل نکالیں ۔90فیصد بیشک ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں مگر در حقیقت وہ ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں اسی وجہ سے مہنگائی بڑھ چکی ہے ۔

بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔ اگر حکومت نے ہٹ دھرمی نہ چھوڑی تو اگلے ماہ سے جب فیکٹریاں بند ہونا شروع ہو ںگی تو صنعتکار تنخواہیں بھی ادا نہیں کر سکیں گے پھر ایف بی آر کا حجم اور کم ہوجائے گا ۔72سالہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک اتنا برا وقت قوم پر نہیں آیاتھا جواگست میں دیکھنے کو ملے گا ۔دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک میں بھی NICلینے کا رواج نہیں ہے ۔اس وقت صنعتکار ترکی، یونان، آذربائیجان، شمالی امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی شہریت لیکر پاکستان سے نقل مکانی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں ،وہاں اب ان صنعتکاروں کو صرف 6ماہ میں پاسپورٹ ملنے کا طریقہ کارطے کر دیا گیا ہے ۔ اگروہ اپنا کاروبار فیکٹریاں وہاں بنا کر وہاں کے عوام کو روزگار فراہم کریں۔ ایسی ہی شرائط ملایشیا،انڈونیشیا اور سنگاپور میں بھی ہیں ۔درجنوں ٹیکسوں کی بھر مار کے باوجودکو ئی سہولت نہ ہو تو مجبوراََ پاکستانی دماغ اور سرمایہ کاری دونوں نقل مکانی کی نذر ہو جائیں گے ۔ایک طرف سیاسی طبل بجا کر حزب اختلاف کو اکٹھا ہونے کا موقع دیاگیا اب انکی خوشامدیں ہو رہی ہیں،مولانا فضل الرحمان کو بھی اپروچ کیا جا چکا ہے ،مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے رہنمائوں کو جیل میں ڈالنے سے کیا لوٹا ہوا پیسہ واپس ملا؟ پوری دنیا میں بدنامی الگ ہو رہی ہے پراپرٹی پر40سے 60فیصدٹیکس بڑھا کر اس کاروبار کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے ۔بینک لوگوں کو مکان بنانے کے لئے قرضے دیتے تھے وہ بھی خود حکومت نے بند کر دئیے ہیں،اس کے بر عکس قطر اور دبئی کے حکمرانوںنے بینکوں کو خصوصی طور پر مکانوں پر آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے کی ہدایات جا ری کر دی ہیں،ساتھ ساتھ ویزہ پالیسیوں میں بھی نرمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ہم کس سمت قوم کو لے کر جا رہے ہیں گویا عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکاجا رہا ہے ، کیا اسی کا نام تبدیلی تھا کہاں گئے 50لاکھ مکانات ؟ اسمبلیوں ، زمینداروں ،وڈیروں ، چوہدریوں ،نوابوں نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے۔زراعت پر بھی ایک پیسے کا ٹیکس نہیں ہے ان کو اب تک کیوں ٹیکس کے نیٹ میں نہیں لایا گیا۔قوم کے لئے غربت کے دروازے کھولے جا رہے ہیں اور ان کے نمائندوں کو تنخواہوں اور مراعات دے کر اسمبلیوں میں خاموش کرایا جارہا ہے۔لوٹوں کی خریداری زوروں پر ہے کل تک جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا آج ان کو خریدنے کی پوری کوششیں کی جارہی ہیں ۔تمام وعدوں کا تو اعتبار ختم ہوچکا ہے اب بغاوت کی بو آنے لگی ہے۔ اگست میں فیصلہ ہو جائے گا اِدھر یا اُدھرخوش فہمی میں نہ رہیں، پی ٹی آئی نے فاٹا کے حالیہ الیکشن میں 16میں سے صرف5سیٹیں جیتی ہیں اکثریت سیٹیں آزاد یا حزب اختلاف نے جیتی ہیں ۔دوسری طرف گھوٹکی کے حلقہ این اے 205کے ضمنی الیکشن میں پی پی پی کامیاب ہو چکی ہے یہ سیٹ بھی پاکستان تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر سردار علی محمد مہر کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی ۔کل کی ایک خبر ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوامیں گھی کی ملیں بند ہوناشروع ہوگئی ہیں جس سے 20ہزار افراد اب تک بے روزگار ہو چکے ہیں ۔ ایک سال میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو زبردست دھچکا لگا ہے ۔ایک مشہور کاریں بنانے والی فیکٹری بھی بند ہوچکی ہے دوسری نے اپنی ضرورت کے مطابق 50فیصد پروڈکشن کم کردی ہے۔ الغرض ہر طرف معاشی قتل عام شروع ہوچکا ہے۔بقول شاعر!

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

تازہ ترین