• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر الحمدللہ! مملکت خداداد پاکستان جس کا ہر بڑا بحران ایک عظیم کامیابی پر ختم ہوتا ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ 5عشروں کے بحران در بحران کے بعد اک طویل صراط مستقیم اختیار کر رہا ہے۔ ہم بحیثیت قوم ایک ڈیڑھ عشرے تک بھی اسی راہ خیر کے مسافر رہے تو کوئی نہیں جو قافلہ اسلامی جمہوریہ کو روک سکے۔ پہچان یہ ہوگی کہ دنیا پاکستان کو واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہی نہیں مانے گی بلکہ مثالی اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بھی۔ ایسی جس میں سماجی اقتصادی پسماندگی سے پھول جیسے بچے مدارس میں مسلک کے مارے سیاسی ملائوں کے بت تراشنے اور ان کے خانوادوں کی سیاست بچانے کے لئے استعمال ہو سکیں گے نہ عملی سیاست و حکومت کو تجارت بڑھانے اور بنانے کی کوئی گنجائش ہوگی۔ دینی تعلیم کو ’’دینی مدارس‘‘ کے نیٹ ورک بنا کر ملت کو فرقوں میں بانٹنے کی کوئی صورت نہ رہے گی اور کُل تعلیم وتحقیق، دین اسلام کی تعلیمات کی ہی روشنی میں فروغ پاکر پاکستان، ریاست کی فلاح اور انسانیت کی خیر کا سبب بنے گی۔

پاکستان کی موجودہ گمبھیر اقتصادی صورتحال اور ملک پر عشروں سے مسلط نظام بد کے نکلتے دم پر بھی حالات سے متضاد ایک خوش فہمی کا غلبہ ہوتا جارہا ہے کہ اجڑے چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوگیا ہے۔ قیادت کا بحران وہ نشاندہی ہے جو برسوں سے ہمارے بڑے بڑے علمی سیاسی دماغ کرتے چلے آئے ہیں۔ کیا فقط یہی کمی تھی، جی نہیں! بے پناہ اور اذیتناک سماجی پسماندگی نہیں؟ باوردی آمریتیں نہیں جن کی ملک کو سنوارنے کے لئے نظر انتخاب پڑی بھی تو کن پر؟ ان کی مردم شناسی کا عالم یہی تھا؟ یا طوالت اقتدار کو ضرورت فقط انہی سے پوری ہو سکتی تھی؟ اللہ اکبر! ملکی موجود گمبھیر صورتحال اور عوام الناس کی پریشان کن صورتحال میں بگڑے اجڑے اور بظاہر نہ سنبھلتے پاکستان کی بنتی تقدیر کا راستہ کہاں سے نکل رہا ہے؟ غور فرمائیں۔ کرکٹر سے سیاستدان بننے والے سیاستدان کی اسٹیٹس کو کے خلاف 22سالہ سیاسی جدوجہد سے، پاناما لیکس سے شروع ہونے والے احتسابی عمل سے، پاناما کیس سپریم کورٹ میں آنے اور نیب کے جاگنے سے انتہائی بالائی انتظامی سطح پر بھی قانونی عمل شروع ہو کر نتیجہ خیز ہونے سے۔ اسٹیٹس کو بنانے والوں کی اپنی ہی حکمرانی میں زیر عتاب و احتساب ہونے سے گویا آئین و قانون کی بالادستی صاف نظر آنے سے۔ بالآخر اسٹیٹس کو کے خلاف ڈٹ جانے والے مہم جو خان اعظم کی عام انتخابات میں مارجن پر انتخابی فتح۔ بغیر کسی ہوم ورک اور مطلوب ٹیم کے حکومت مل جانے سے پھر گورننس کے عجیب الخلقت ماڈل پر قیادت کا اخلاص، دیانت اور عوام الناس سے سچی ہمدردی ہر کمی اور نااہلی پر غالب ہوتی گئی۔ جس کی ایک بڑی برکت قبائلی علاقوں کی مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے۔ پاکستان کی علاقائی اور عالمی سیاست میں بڑھتی اہمیت اور پاکستانی نئی منتخب قیادت پر بڑے بڑے عالمی قائدین کا اعتماد و اعتبار اور بھارت کی بیزاری اور واویلا افغانستان میں طالبان کی مثالی مزاحمت اور پاکستان کی نئی منتخب قیادت پر طالبان، موجود افغان حکومت اور دوسرے سیاسی رہنمائوں کا اعتماد۔ خان کے اقتدار سنبھالتے ہی برادران اسلام کا اسلام آباد کی جانب رخ اور اقتصادی بحران کی سلجھتی گتھی، سی پیک پر نظر ثانی اور آئرن برادر کا شفاف قیادت پر اعتماد۔ ایک ہی ماہ میں پیوٹن اور ٹرمپ سے یاری کی بنیاد۔ یہ ساری کہانی پاک افواج اور معصوم شہریوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ یہ ایک بڑا اور طویل موضوع ہے جو ہماری تاریخ کا سنہری باب بن گیا۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ واشنگٹن میں توقعات اور تجزیوں کے برعکس جو کچھ حاصل ہوا، وہ عنقا اور حیران کن ہے۔ اللہ اکبر! مینڈیٹ والے تنگ دل و دماغ والی بھارتی قیادت کے سینے میں چھپی مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کی ثالثی سے حل کرانے کی خواہش اور اس کا خان اعظم کی موجودگی میں بھرے میڈیا کے سامنے بذریعہ صدر ٹرمپ انکشاف۔ پھر فقط ایک روز قبل وزیراعظم عمران کی پاکستانیوں میں مقبولیت کی بھرپور اور حتمی تصدیق۔ واضح رہے امریکی حکومت اور عوام امریکہ میں آباد پاکستانیوں کو پاکستان کا سب سے ذہین و فطین اور شفاف طبقہ سمجھتے ہیں۔ اندازہ لگائیں! کس طرح خان کی جدوجہد، عوام سے ہمدردی، سخت جانی، وقار و وجاہت، احساس عزت و مساوات، جرأت و بیباکی و سادگی دورے کی کتنی بڑی کامیابیوں میں ٹرانسلیٹ ہوگیا۔ مسئلہ کشمیر سے متعلق صدر ٹرمپ کے کھلے کھلے دیانتدارانہ انکشاف نے 70سالہ تباہ کن تنازع کو عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ بھارت چین سے بلاجواز پالی دشمنی اور چین اور پاکستان کے خطرے کا ہوا کھڑا کرکے اور امریکہ پورے علاقے میں اپنا اثر کھو کر ایک دوسرے کے اسٹرٹیجک پارٹنر بنے لیکن چین نے تو دیر نہ لگائی اور مسئلہ کشمیر پر مودی کی صدر ٹرمپ سے ثالثی کی خواہش کی حمایت کا سرکاری اعلان کر دیا۔ خان اعظم کے دورۂ امریکہ کا حاصل پر حاصل تو اپنی جگہ ذرا بروقت فالو اپ میں ورائٹی تو ملاحظہ فرمائیں۔ طیب ایردوان اور برادر بزرگ جناب مہاتیر کا وزیراعظم سے رابطہ اور اس کے جاندار اور حوصلہ افزا مندرجات۔ مودی پاکستان کو تنہا کرتا کرتا اپنے ملک میں ہی کہاں چھپ گیا، پارلیمنٹ چیخ چیخ کر بلا رہی ہے کہ آکر صدر ٹرمپ کے کشمیر پر انکشاف پر بات کرو لیکن مودی بھی کا کچھ پتا نہیں اور پھر پاک حکومت و افواج کسی گہری ہم آہنگی جس طرح پینٹاگون میں جنرل باجوہ کے گرمجوشی استقبال سے ٹرانسلیٹ ہوا، نے ہمارے لبرل ازم اور نئے نظریاتی کا لبادہ اوڑھے محافظانِ اسٹیٹس کو کے ان تجزیوں کی ہوا نہیں نکال دی کہ ٹرمپ عمران ملاقات مثبت نظر بھی آئی تو ٹرمپ اور پینٹاگون ایک پیج پر نہ ہوں گے جو سب طے شدہ معاملات کو مشکوک رکھے گا، پھر خان کے امریکی پاپولر ٹی وی فوکس کو جو ہائی کوالٹی انٹرویو دیا اور جو بیانیہ کیپٹل (ایوانِ نمائندگان) میں گفتگو ختم کرتے ہوئے بنایا کہ ٹروتھ، ٹرسٹ، میوچل ریسپیکٹ اینڈ ایکویلٹی‘‘ اور دورے میں قدم قدم اور لفظ لفظ سے امیج بلڈنگ نہیں ہوتی رہی؟ یہ سب کچھ کتنا بڑا حاصل ہے جس کا فالو اپ آنے والے دنوں میں عمل اور نتائج کے حوالے سے واضح نظر آرہا ہے۔ جیسے آج ہی کی خبر امریکی سرمایہ کاروں کا دورۂ پاکستان ستمبر میں ہوگا۔ یہ سب کچھ توقعات اور تجزیات سے کہیں آگے نہیں؟

تازہ ترین