• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان میں ہیپاٹائٹس ای وبا کی شکل اختیار کرگیا

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور اس کے خلاف آگہی کا عالمی دن منایاجارہا ہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس ای یعنی پیلا یرقان وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ 

پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی زیادہ پایا جاتا ہے اور ہر سال 2 لاکھ 50 ہزار افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہوتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق لاہور میں 2018ء کی نسبت ہیپاٹائٹس ای کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، پیلے یرقان میں بچے، نوجوان اور بزرگ مبتلا ہورہے ہیں لیکن یہ بیماری حاملہ خواتین پر زیادہ اثر انداز ہورہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق حاملہ خواتین میں 20 فیصد اموات کی بڑی وجہ پیلا یرقان ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے اس لیے پیلا یرقان ان کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے، یرقان میں مبتلا ہونے کی وجہ آلودہ پانی، غیر معیاری گوشت کا استعمال اور صفائی ستھرائی کی پرواہ نہ کرنا ہے۔

گائنا کالوجسٹس کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین میں پیلے یرقان کی علامات اوائل یا آخری مہینوں میں ظاہر ہوتی ہیں، آنکھیں اور چہرہ پیلا پڑ جائے اور بھوک نہ لگے تو فوری گائنی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، ان علامات کو حمل کی وجہ سمجھ کر ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے۔

غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیلے یرقان میں مبتلا حاملہ خواتین دودھ، دہی، تازہ پھل، سبزیاں اور پروٹین والی خوراک کا استعمال کریں، خواتین اس بیماری سے بچنے کے لئے ہاتھوں اور گھر کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔

2008ء کے سروے کے مطابق ہیپاٹائٹس بی 2.4فیصد تھا جبکہ سی 6.4 فیصد تھا مگر پچھلے سال کے سروے کے مطابق پنجاب میں اب سی 8.9فیصد ہو گیا ہے اور یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر الطاف عالم کا کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس اے اور ای ایکیوٹ کچھ ہفتوں میں علاج کے بعد ٹھیک ہو جاتاہے اور ایکیوٹ ہیپاٹائٹس ای نوجوانوں کو زیادہ لاحق ہوتا ہے جبکہ بچوں میں زیادہ تر اے لاحق ہوتا ہے بچوں میں 74.5فیصد کو اے، بی 15.0فیصد، ای 10.0 فیصد لاحق ہوتا ہے اگر ہیپاٹائٹس ای دوران حمل آخری تین ماہ میں ہو تو اس کے اثرات تشویش ناک ہوتے ہیں۔

لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ معروف ماہر امراض جگر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر ہیپاٹائٹس بی اور سی کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان جلد ہی ایک ایسا ملک بننے جارہا ہے جہاں کے زیادہ تر لوگ جگر کے دائمی امراض کا شکار ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے 2030ء تک دنیا سے ہیپاٹائٹس بی اور سی کے خاتمے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے مگر پاکستان کی موجودہ صورتحال سے لگتا ہے کہ ہیپاٹائٹس پاکستان کے لیے دوسرا پولیو ثابت ہوسکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں ہر سال 28 جولائی کو ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام سے متعلق آگاہی کا دن منایا جاتا ہے تاکہ عوامی سطح پر لوگوں کو اس مرض سے بچایا جاسکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین