• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2015ء کے بعد وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ نہایت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ دونوں رہنمائوں کے مابین یہ پہلی ملاقات تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کو دیکھتے ہوئے کوئی چیز بھی یقینی نہیں کہی جا سکتی تھی۔ بہرحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان اوول آفس اور کیبنٹ روم میں نہایت پُراعتماد انداز میں دو اہم میٹنگز ہوئیں۔ اِن میٹنگز میں وزیراعظم کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، وفاقی وزیر علی زیدی اور وفد میں شامل دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امن کے سلسلے میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا اور کشمیر پر ثالثی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی جس کو وزیراعظم عمران خان نے سراہتے ہوئے قبول کیا۔ امریکی صدر نے دونوں ممالک کے مابین تجارت بڑھانے اور پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین وزیراعظم قرار دیا جبکہ امریکی خاتون اول میلاینا ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات کی تعریف کی۔ دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے سلسلے میں کلیدی کردار پر پنٹاگون اور دیگر میٹنگز میں نہایت اہمیت دی گئی۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر، ورلڈ بینک کے صدر، قطر ایئرویز کے سی ای او، امریکی کمپنیوں کے سربراہان، امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی، سینیٹ کی خارجہ کمیٹی اور امریکی ایوان نمائندگان کی نینسی پلوسی سے اہم ملاقاتیں کیں جبکہ پاکستان بزنس سمٹ اور امریکن انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم کے دورے میں امریکی ریاست مڈلینڈ کے آئل اینڈ گیس ٹائیکون جاوید انور، معاون خصوصی زلفی بخاری، پی ٹی آئی امریکہ کے صدر سجاد برکی، پی ٹی آئی ہیوسٹن کے سابق صدر عاطف خان اور دیگر پارٹی رہنمائوں نے ایرینا اسٹیڈیم میں 25ہزار سے زائد پاکستانی کمیونٹی سے عمران خان کے تاریخی خطاب کا اہتمام کیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نواز دور حکومت میں کہا تھا کہ ’’امریکہ نے 15برسوں میں پاکستان کو 33ارب ڈالر امداد دے کر بے وقوفی کی کیونکہ پاکستان نے سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا بلکہ پاکستان نے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں، جن کا وہ افغانستان میں تعاقب کررہے تھے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے پاکستان کی 300ملین ڈالر کی کولیشن سپورٹ فنڈ کی امداد روک لی تاہم ٹرمپ انتظامیہ جلد سمجھ گئی کہ افغانستان میں امریکی پسپائی کے پس منظر میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے افغانستان امن مذاکرات میں مثبت کردار ادا کیا۔ افغان طالبان کا مطالبہ تھا کہ امریکی افواج کو افغانستان سے نکالا جائے اور نئی افغان حکومت اور آئین تشکیل دیا جائے۔ افغانستان میں امن و استحکام امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ پوری دنیا میں افواج پاکستان کی قربانیوں اور پیشہ وارانہ مہارت کو سراہا گیا ہے جس نے ملک میں دہشت گردوں کو ختم کرکے کامیابی سے امن و امان قائم کیا اور آج فاٹا، وزیرستان اور دیگر قبائلی اضلاع جو ماضی میں دہشت گردوں کے گڑھ تھے، کے عوام الیکشن کے جمہوری عمل میں حصہ لے کر قومی دھارے میں شامل ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں قیام امن، امریکی افواج کا افغانستان سے پرامن انخلا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کی اہمیت سمجھتے ہوئے نئی قیادت یعنی عمران خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا، حالیہ میٹنگ پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کی طرف ایک قدم ہے۔ پاکستان کو امریکہ سے FATFکی گرے لسٹ سے نکلنے، آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج پر عملدرآمد میں امریکی معاونت، امریکی جی ایس پی پروگرام میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو شامل کرنا، امریکی سرمایہ کاری کے معاہدے (BIT)کو حتمی شکل دے کر اسپیشل اکنامک زونز میں امریکی سرمایہ کاری وہ اہم اہداف ہیں جن کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور پاکستانی پورٹس سے امریکی ہتھیاروں کی افغانستان سے محفوظ واپسی سے مشروط کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کو امریکہ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ پاکستان کو صرف ایک مخصوص افغانستان کے زاویے سے نہ دیکھے بلکہ اس کی ماضی کی قربانیاں اور خطے میں جغرافیائی اہمیت کو بھی مدنظر رکھے۔ اس سلسلے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک کے امریکی ری پبلکن اور سابق کانگریس مین ٹام رینولڈز کی لابنگ فرم Holland & Knightکو پاک امریکہ تعلقات بہتر بنانے کیلئے ہائر کیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ امریکہ سے بہتر تعلقات پاکستان کیلئے نہایت ضروری ہیں۔ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے اور دونوں ممالک میں تقریباً 7ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہے جس میں پاکستان سے امریکہ کو ایکسپورٹ 4ارب ڈالر اور امریکہ سے پاکستان امپورٹ 3ارب ڈالر ہے۔ امریکہ میں تقریباً 6لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جو سالانہ 2.6ارب ڈالر ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں اور تمام عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ پر امریکہ کا اثر و رسوخ ہے جبکہ کے خطے کے کئی دوست امریکی اتحادی ممالک نے مشکل وقت میں پاکستان کی مالی مدد کی ہے لہٰذاہم دنیا کی سپر پاور امریکہ کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں چین، روس، ترکی، ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنا ہوگا۔ میں نے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کو امریکہ جانے سے پہلے مشورہ دیا تھا کہ مذاکرات کے دوران پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو اگر امریکی جی ایس پی پلس پروگرام میں شامل کرانے کی کوشش کی جائے تو اس سے ملکی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو بڑا فائدہ پہنچے گا۔ حال ہی میں بھارت اور ترکی ترقی یافتہ ممالک ہونے کی وجہ سے امریکی جی ایس پی پروگرام سے خارج کر دیئے گئے ہیں اور اب یہ ممالک اپنی مصنوعات امریکہ ڈیوٹی فری ایکسپورٹ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کیلئے یہ نادر موقع ہے کہ وہ امریکی جی ایس پی سہولت کی وجہ سے اِن ممالک کا زیادہ سے زیادہ مارکیٹ شیئر حاصل کرکے امریکہ میں اپنی ایکسپورٹس بڑھائے۔

تازہ ترین