• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملکی معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ معیار تعلیم پہ کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہوناچاہیئے۔ اس وقت بہت سی تعلیمی ادارے نجی اور سرکاری موجودہیں، لیکن معیار کسی کی "ترجیح "نہیں ہے۔ سب نے اسے بزنس یعنی پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھاہوا ہے۔ طالب علم کچھ سیکھ بھی رہے ہیں یا نہیں اس سے کسی کو غرض نہیں۔ اس غیرمعیاری تعلیم کوحاصل کرنے کے بعد اس ملک کے معمار مستقبل میں کچھ کر بھی سکیں گے کہ نہیں؟ کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ایک مشینی رویہ ہے۔ مہنگے اسکول میں داخل کروادیا جائے اورنمبربہت اچھے آنے چاہئیں۔یہی تعلیم کا معیار ہے۔(چاہے سیکھنے کو کچھ ملے یا نہیں) ورنہ ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ اسکول انتظامیہ شاگردوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے اساتذہ کو پابند کرتی ہے کہ طالب علموں کے نمبر بہت اچھے آنے چاہئیں تاکہ اسکول کی Reputation بنی رہے۔ یوں " نمبر لو اور فیس دو" کے زریں اصول کے تحت ہمارا تعلیمی نظام چل رہا ہے۔ جوکہ یقیناً ایک لمحہ فکریۂ ہے۔ دوسری طرف " ٹیوشن مافیا" ہے۔ امتحان میں پاس بالکل سب سےز یادہ نمبر لینے کی "Sovereign guarantor"ہے۔یہ آپ کے بچے کو سیکھائیں گی کہ امتحان میں جواب کے لیے لکھنا ہے۔ بچے کو دماغ استعمال کرنےکی ضرورت نہیں ہے ۔بلکہ ہمارے سیکھائے اور دیئے ہوئے " Tips / ٹپس" پہ عمل کرکے نمبر یقینی ہیں۔ یوں آگہی ، سمجھ بوجھ، معاشرت ،معاملہ فہمی اور اخلاقیات سیکھانے کے بجائے ہمارا تعلیمی نظام "How to appear in exam and get highest marks" (کہ امتحان کیسے دینا اور زیادہ نمبر حاصل کرنا ہے)یہ سیکھاجاتاہے یہی وجہ ہے کہ وہ طالب علم جو میٹرک انٹر یا O اور A لیول کے امتحانات میں بہت اچھے نمبر لاتے ہیں۔ پروفیشنل تعلیم حاصل کرتے ہوئے انہیں مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ کیونکہ انہیں عادت ہوتی صرف جواب لکھنے کی۔ جس طرح انہیں شروع سے سکھایا جارہاتھا۔ لیکن جب پڑھائی Past papersسے نکل کر Unexpected papers تک جاتی ہے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔اور یہیں سے ان میں آگے بڑھنے کی لگن ختم ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ وہ پچھلے بارہ سے چودہ سال صرف Selected study اور expected paper یا Guess paper کے عادی ہوتے ہیں۔ لہذا ضروری امریہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کی سطح پہ معیار تعلیم پہ ہنگامی بنیادوں پہ اہمیت دی جائے۔ بچوں کو مختلف زبانیں سکھانے سے زیادہ سائنسی علوم سکھانے پہ زور دیا جائے۔ تاکہ ان کے پیش نظرچند پروفیشن نہ ہو بلکہ وہ یہ سوچیں کہ کس طرح نئی ایجادات اور اختراع کرکے ملک کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔جو ملک کی آب وہوا، جغرافیائی حالات ، تہذیب وتمدن کے حساب سے ہوں ۔ غیرملکی انحصار کو کس طرح کم کیا جائے۔ کیونکہ جب تک ہمارے طالب علم سائنس کے میدان میں آگے نہیں جائیں گے ترقی کا عمل ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی، اخلاقی پہلوؤں پہ خاص توجہ دی جائے۔ تاکہ بحیثیت شہری وہ معاشرہ میں اہم کردار ادا کرسکے۔ بہت ہوگئی دوسرے ملکوں کے طورطریقوں کی " اندھی تقلید" اب ابھرنا ہے اپنی پہچان بنانی ہے اور سب اخلاقی، سماجی، تہذیبی اور سائنسی ترقی سے ہی ممکن ہے نقالی سے نہیں۔

تازہ ترین